دمتری اناتولیویچ میدوی ایدف (روسی: Дми́трий Анато́льевич Медве́дев؛ پیدائش 14 ستمبر 1965ء) ایک روسی سیاستدان اور وکیل ہیں جو روس کے سابق صدر اور وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ وہ 2008ء سے 2012ء تک روس کے تیسرے صدر رہے، اور بعد ازاں 2012ء سے 2020ء تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ وہ ولادی میر پیوٹن کے قریبی اتحادی مانے جاتے ہیں، اور ان کے دور میں روس کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔

دمتری میدوی ایدف
(روسی میں: Дмитрий Анатольевич Медведев ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تفصیل=
تفصیل=

روس کے سابق وزیر اعظم
مدت منصب
8 مئی 2012 – 15 جنوری 2020
صدر ولادیمیر پوتن
ولادیمیر پوتن
میخائل میشوستن
روس کے صدر
مدت منصب
7 مئی 2008 – 7 مئی 2012
ولادیمیر پوتن
ولادیمیر پوتن
معلومات شخصیت
پیدائش 14 ستمبر 1965ء (59 سال)[1][2][3][4][5][6]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سینٹ پیٹرز برگ [7][8]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش سینٹ پیٹرز برگ
ماسکو
نوو-اوگاریوو   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سوویت اتحاد (–1991)
روس (1991–)[9][10][11][12]  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قد 163 سنٹی میٹر [13]  ویکی ڈیٹا پر (P2048) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت اشتمالی جماعت سوویت اتحاد (–1991)[14]  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد 1
تعداد اولاد 1   ویکی ڈیٹا پر (P1971) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی فیکلٹی آف لا، سینٹ پیٹرزبرگ اسٹیٹ یونیورسٹی (1982–1987)  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مفسرِ قانون ،  سیاست دان ،  کاروباری شخصیت [15][16][17]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان روسی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان روسی [18]،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل سیاست ،  تعلیم   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت ریاستی جامعہ سینٹ پٹیرزبرک   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کھیل پیراکی ،  ویٹ لفٹنگ   ویکی ڈیٹا پر (P641) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
شاخ مسلح روسی افواج   ویکی ڈیٹا پر (P241) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عہدہ کرنل   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں روسی-جارجیائی جنگ   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 آرڈر آف دی لبرٹور (2008)[19]  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سمولنی انسٹی ٹیوٹ کا اگواڑا، سٹی ہال کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس کی جگہ، جہاں میدویدیف نے بطور مشیر کام کیا
سینٹ پیٹرزبرگ اسٹیٹ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف لاء کی عمارت، وہ جگہ جہاں میدویدیف نے تعلیم حاصل کی اور بعد میں پڑھایا
صدارتی انتخابات میں پوٹن کی جیت کے ایک دن بعد 27 مارچ 2000 کو میدویدیف ولادیمیر پوٹن کے ساتھ
2007 میں دمتری میدویدیف کا سرکاری پورٹریٹ
جنوبی اوسیشیا کی آزادی کو تسلیم کرنے والا صدارتی فرمان، جس پر میدویدیف نے 26 اگست 2008 کو دستخط کیے

ابتدائی زندگی اور تعلیم

ترمیم

دمتری میدوی ایدف 14 ستمبر 1965ء کو لینن گراڈ (موجودہ سینٹ پیٹرزبرگسوویت اتحاد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اناتولی میدوی ایدف ایک ماہر تعلیم تھے، جبکہ ان کی والدہ یولیا وینیامینوونا میدوی ایدفا ایک ماہر لسانیات تھیں۔ دمتری نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں مکمل کی اور 1987ء میں سینٹ پیٹرزبرگ اسٹیٹ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ [20]

خاندانی پس منظر

ترمیم

دمتری میدوی ایدف 14 ستمبر 1965ء کو لینن گراڈ (موجودہ سینٹ پیٹرزبرگسوویت اتحاد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اناتولی میدوی ایدف ایک معروف ماہر تعلیم اور ماہر کیمیا تھے، جو لینن گراڈ اسٹیٹ ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ میں پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کی والدہ یولیا وینیامینوونا میدوی ایدفا ایک ماہر لسانیات تھیں اور انہوں نے سینٹ پیٹرزبرگ اسٹیٹ یونیورسٹی میں تدریس کی۔ اس علمی اور تعلیمی ماحول نے دمتری کی ابتدائی زندگی پر گہرا اثر ڈالا اور انہیں علم اور محنت کی اہمیت سے روشناس کیا۔[21]

بچپن اور پرورش

ترمیم

دمتری نے اپنے بچپن کے ابتدائی سال لینن گراڈ کے ایک روایتی سوویت گھرانے میں گزارے۔ وہ ایک واحد اولاد تھے اور ان کے والدین نے ان کی تعلیم و تربیت میں بہت دلچسپی لی۔ بچپن کے دوران دمتری نے بہت سی سرگرمیوں میں حصہ لیا، جن میں سب سے زیادہ دلچسپی مطالعے اور سائنس میں تھی۔ انہوں نے چھوٹی عمر میں ہی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا کیا، اور ان کے والدین نے ان کے تعلیمی رجحانات کو بھرپور تعاون فراہم کیا۔[22]

تعلیمی سفر

ترمیم

دمتری نے اپنی ابتدائی تعلیم لینن گراڈ کے ایک معیاری اسکول میں حاصل کی جہاں وہ ایک بہترین طالب علم کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کے تعلیمی کارکردگی ہمیشہ نمایاں رہی اور انہوں نے سوویت تعلیمی نظام کے مطابق ریاضی اور سائنس میں خاص مہارت حاصل کی۔[23] 1982ء میں، انہوں نے اپنے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی اور سینٹ پیٹرزبرگ اسٹیٹ یونیورسٹی کے قانون کے شعبے میں داخلہ لیا۔

سینٹ پیٹرزبرگ اسٹیٹ یونیورسٹی

ترمیم

1982ء میں دمتری نے سینٹ پیٹرزبرگ اسٹیٹ یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم کا آغاز کیا۔ یونیورسٹی میں دوران تعلیم ان کی دلچسپی قانونی فلسفہ اور شہری قانون میں بڑھ گئی اور انہوں نے کئی علمی مقالات تحریر کیے۔ اس کے علاوہ، وہ اپنے اساتذہ اور ہم جماعتوں میں اپنی فکری صلاحیتوں کے باعث پہچانے جانے لگے۔ 1987ء میں انہوں نے نمایاں نمبروں کے ساتھ اپنی قانون کی ڈگری مکمل کی۔[24]

علمی تحقیق اور شروعات

ترمیم

دمتری نے اپنی گریجویشن کے فوراً بعد تحقیقاتی کام میں دلچسپی لینا شروع کی اور سینٹ پیٹرزبرگ اسٹیٹ یونیورسٹی کے قانون کے شعبے میں بطور معاون تدریسی کارکن خدمات انجام دیں۔ 1988ء میں انہوں نے اپنا تحقیقی کام مکمل کیا اور سوویت قانونی نظام کے مختلف پہلوؤں پر کئی علمی مقالات شائع کیے۔ اس دوران ان کی پیشہ ورانہ تربیت اور علمی مہارت میں مزید اضافہ ہوا۔[25]

جوانی اور مستقبل کے سیاسی رجحانات

ترمیم

تعلیمی اور تحقیقاتی میدان میں کام کے دوران دمتری کا رجحان سیاسی اور حکومتی امور کی طرف بڑھتا گیا۔ سوویت یونین کے خاتمے اور بعد ازاں نئی روسی فیڈریشن کے قیام کے دوران، دمتری کی نظریں ملک کے قانونی اور سیاسی نظام کی اصلاحات پر مرکوز ہو گئیں۔[26]

سیاسی کیریئر

ترمیم

دمتری میدوی ایدف کا سیاسی کیریئر 1990ء کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب وہ سینٹ پیٹرزبرگ کے میئر اناتولی سوبچاک کے تحت بطور مشیر کام کرنے لگے۔ بعد ازاں، انہوں نے ولادیمیر پوتن کے ساتھ مل کر کام کیا اور انہیں کریملن کی مختلف پوزیشنوں پر فائز کیا گیا۔ 2000ء میں پوتن کے صدر بننے کے بعد میدوی ایدف کو اہم عہدوں پر فائز کیا گیا۔

ابتدائی سیاسی سرگرمیاں

ترمیم

سینٹ پیٹرزبرگ اسٹیٹ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد، دمتری میدوی ایدف نے اپنی ابتدائی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں، وہ سینٹ پیٹرزبرگ کے میئر آناتولی سوبچاک کی زیر قیادت کام کرنے والے ایک گروپ میں شامل ہوئے، جو اس وقت اصلاحات اور جمہوری تبدیلیوں کی مہم چلا رہے تھے۔ سوبچاک، جو دمتری کے سابقہ استاد بھی تھے، نے انہیں مقامی حکومت کے امور میں شامل کیا، جہاں انہوں نے قانونی اور اقتصادی امور پر مہارت حاصل کی۔[27]

دمتری نے جلد ہی مقامی حکومت میں اپنی جگہ مضبوط کر لی اور قانونی معاملات میں اپنی مہارت کے ذریعے مقامی انتظامیہ کے اہم فیصلوں میں شامل ہونے لگے۔ اس دوران ان کے تعلقات ولادیمیر پوٹن کے ساتھ مضبوط ہوئے، جو اس وقت سینٹ پیٹرزبرگ کے میئر کے دفتر میں کام کر رہے تھے۔ یہ تعلق بعد میں ان کے سیاسی کیریئر میں اہم موڑ ثابت ہوا۔[28]

ماسکو میں قدم جمانا

ترمیم

1999ء میں، دمتری میدوی ایدف ماسکو منتقل ہو گئے جب ولادیمیر پوٹن کو روس کا وزیر اعظم بنایا گیا۔ ماسکو میں دمتری کو پوٹن کے قریب ترین مشیروں میں شمار کیا جانے لگا، اور انہیں متعدد اہم سرکاری عہدے دیے گئے۔ 2000ء میں، پوٹن کے صدر بننے کے بعد، دمتری کو صدارتی انتظامیہ میں اہم کردار دیا گیا، جہاں انہوں نے اقتصادی اور قانونی اصلاحات پر کام کیا۔[29]

گیزپروم کے چیئرمین

ترمیم

2000ء میں دمتری میدوی ایدف کو روس کی سب سے بڑی توانائی کمپنی گیزپروم کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ گیزپروم کے سربراہ کی حیثیت سے، انہوں نے توانائی کے شعبے میں کئی اہم اقدامات کیے، جن میں کمپنی کی عالمی سطح پر توسیع اور توانائی کے وسائل کی برآمدات شامل تھیں۔ اس دور میں روسی معیشت میں توانائی کا کردار بڑھتا گیا، اور دمتری نے بین الاقوامی سطح پر گیزپروم کی حیثیت مضبوط کی۔[30]

روسی فیڈریشن کے نائب وزیر اعظم

ترمیم

2005ء میں، دمتری میدوی ایدف کو روسی فیڈریشن کا نائب وزیر اعظم مقرر کیا گیا، جہاں ان کا بنیادی مقصد روس کی معیشت میں اصلاحات لانا اور سماجی پروگراموں کی نگرانی کرنا تھا۔ ان کی زیر قیادت، روس میں معاشرتی ترقی کے کئی منصوبے متعارف کرائے گئے، جن میں صحت عامہ، تعلیم اور رہائش کے منصوبے شامل تھے۔[31]

2008ء کا صدارتی انتخاب

ترمیم

2008ء میں دمتری میدوی ایدف کو روس کے صدر کے عہدے کے لیے امیدوار نامزد کیا گیا۔ پوٹن کے قریبی اتحادی کے طور پر، میدوی ایدف نے انتخاب میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور روس کے تیسرے صدر بن گئے۔[32] اپنے دور حکومت میں انہوں نے قانونی اصلاحات، اقتصادی ترقی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر خصوصی توجہ دی۔

صدر کی حیثیت سے کارکردگی

ترمیم

میدوی ایدف کے دور صدارت میں کئی اہم پالیسیاں اور منصوبے شروع کیے گئے۔ انہوں نے روس میں سیاسی نظام میں اصلاحات کا آغاز کیا اور جدید کاری کی پالیسی اپنائی۔ ان کی صدارت کے دوران، انہوں نے روس کی بین الاقوامی حیثیت کو بہتر بنانے اور مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی۔[33]

"جدید کاری" کا پروگرام

ترمیم

میدوی ایدف نے اپنی صدارت کے دوران "جدید کاری" کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا، جس کا مقصد روس کی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں اضافہ کرنا تھا۔ اس پروگرام کے تحت انفارمیشن ٹیکنالوجی، نینو ٹیکنالوجی، اور توانائی کی استعداد کار پر زور دیا گیا۔[34]

وزیر اعظم کا عہدہ

ترمیم

2012ء میں ولادیمیر پوٹن نے دوبارہ صدارت کا عہدہ سنبھالا، اور دمتری میدوی ایدف کو روس کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ وزیر اعظم کے طور پر، انہوں نے معیشت کی بحالی، مالیاتی استحکام، اور عوامی خدمات کی بہتری پر توجہ دی۔ انہوں نے کئی اہم حکومتی اقدامات کی نگرانی کی اور روسی حکومت میں اصلاحات کو فروغ دیا۔[35]

خارجہ پالیسی میں کردار

ترمیم

میدوی ایدف نے اپنی صدارت اور وزارت عظمیٰ کے دوران روس کی خارجہ پالیسی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے امریکا اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی اور روس کی عالمی حیثیت کو مضبوط کرنے پر زور دیا۔ ان کی قیادت میں روس نے کئی بین الاقوامی معاہدے کیے اور عالمی تنظیموں میں اہم کردار ادا کیا۔[36]

2020ء کا استعفی

ترمیم

جنوری 2020ء میں، دمتری میدوی ایدف نے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیا تاکہ صدر پوٹن کے آئینی اصلاحات کے منصوبے کو آگے بڑھایا جا سکے۔ استعفیٰ کے بعد، انہیں روس کی سیکیورٹی کونسل میں نائب چیئرمین کا عہدہ دیا گیا۔[37]

ذاتی زندگی

ترمیم

دمتری میدوی ایدف کی ذاتی زندگی سادہ اور غیر متنازعہ سمجھی جاتی ہے۔ انہوں نے 1993ء میں اپنی بچپن کی دوست سویتلانا ولادیمیریونا میدوی ایدفا سے شادی کی، جو ایک ماہر معیشت ہیں۔ ان کے ایک بیٹے، ایلیا میدوی ایدف، ہیں، جو 1995ء میں پیدا ہوئے۔[38]

دمتری میدوی ایدف نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ سینٹ پیٹرزبرگ میں گزارا، اور وہ اپنی تعلیم کے ابتدائی دور سے ہی لینن گراڈ (موجودہ سینٹ پیٹرزبرگ) سے وابستہ رہے ہیں۔ وہ ایک ماہر قانون ہیں اور اپنے فارغ وقت میں قانون کے ساتھ ساتھ موسیقی، فوٹوگرافی، اور سوشل میڈیا میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ میدوی ایدف کو جدید ٹیکنالوجی کا شوق ہے، اور وہ آئی ٹی اور انٹرنیٹ کے بہت بڑے حامی سمجھے جاتے ہیں۔[39]

مذہبی وابستگی

ترمیم
 
روس جارجیائی جنگ میں روسی حملہ

میدوی ایدف روسی آرتھوڈوکس چرچ کے پیروکار ہیں اور مذہب کو اپنی زندگی کا اہم حصہ مانتے ہیں۔ وہ اکثر روسی آرتھوڈوکس چرچ کے تقریبات میں شرکت کرتے ہیں اور چرچ کے اہم تہواروں میں حاضر رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی صدارت کے دوران چرچ اور ریاست کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی۔[40]

کھیلوں سے دلچسپی

ترمیم

دمتری میدوی ایدف کو کھیلوں کا بھی بہت شوق ہے، اور وہ مختلف کھیلوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ خاص طور پر سوئمنگ اور جوگنگ کے شوقین ہیں، اور وہ اپنے صحت مند طرز زندگی کے بارے میں عوامی تقریبات میں بھی گفتگو کرتے ہیں۔[41]

ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا

ترمیم

دمتری میدوی ایدف کو جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا بہت شوق ہے۔ وہ اپنی سرکاری سرگرمیوں اور ذاتی زندگی کے بارے میں معلومات ٹویٹر اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کرتے ہیں۔ وہ روس میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے فروغ کے حامی ہیں اور اپنی حکومت کے دوران بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کو ترجیح دی۔[42]

میراث

ترمیم

دمتری میدوی ایدف کی میراث ایک پیچیدہ موضوع ہے، جو ان کے دور صدارت اور وزیراعظم کے طور پر ان کی خدمات سے جڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے روس میں کئی اہم اصلاحات متعارف کرائیں، لیکن ان کی قیادت کو اکثر صدر ولادیمیر پوتن کے اثر و رسوخ سے محدود سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود، میدوی ایدف نے روس کے اندر اور باہر ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

اصلاحات اور اقتصادی پالیسی

ترمیم

میدوی ایدف کے دور صدارت میں روس میں متعدد اقتصادی اور قانونی اصلاحات متعارف کروائی گئیں، جن کا مقصد ملک کی معیشت کو جدید بنانا اور عالمی اقتصادی حالات کے مطابق ڈھالنا تھا۔ ان کی اصلاحات میں ٹیکس کی آسانی، بدعنوانی کے خاتمے کی کوششیں، اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات شامل تھے۔[43] اگرچہ ان کی کچھ اصلاحات کو کامیابی ملی، لیکن ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور سیاسی اصلاحات کے فقدان نے ان کی میراث کو متاثر کیا۔

قانونی نظام میں بہتری

ترمیم

میدوی ایدف نے اپنے دور صدارت میں روس کے قانونی نظام میں بھی تبدیلیاں لانے کی کوشش کی۔ انہوں نے عدلیہ کی آزادی اور ملک میں قانون کی بالادستی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ملک میں انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے اصلاحات کا وعدہ کیا تھا۔[44] تاہم، ان اصلاحات کے نتائج مخلوط رہے، اور سیاسی دائرے میں پوتن کے غلبے کے باعث ان کی کامیابیوں پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔

خارجہ پالیسی اور مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات

ترمیم

میدوی ایدف نے اپنے دور صدارت میں روس کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے امریکا کے ساتھ نیو سٹارٹ معاہدہ پر دستخط کیے، جس کا مقصد جوہری ہتھیاروں کی تخفیف تھا۔[45] ان کی خارجہ پالیسی میں مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں نمایاں رہیں، لیکن ان کی صدارت کے بعد تعلقات میں دوبارہ کشیدگی پیدا ہو گئی۔

ولادیمیر پوتن کے ساتھ تعلقات

ترمیم

دمتری میدوی ایدف کی قیادت اکثر ولادیمیر پوتن کے زیر اثر سمجھی جاتی ہے، اور ان کی میراث کو پوتن کی صدارت کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ 2008ء سے 2012ء کے دوران، جب میدوی ایدف صدر تھے، پوتن وزیراعظم تھے۔ دونوں کے درمیان قریبی تعلقات اور اقتدار کی منتقلی نے روسی سیاست میں "تبادلۂ اقتدار" کی حکمت عملی کو ظاہر کیا، جسے عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔[46]

جدید ٹیکنالوجی کا فروغ

ترمیم

میدوی ایدف کی ایک اور بڑی میراث روس میں جدید ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کی ترقی کے حوالے سے ان کا کردار ہے۔ انہوں نے روس کو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی اور ڈیجیٹل معیشت کے فروغ کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔ اسکولکوو انوویشن سینٹر کا قیام ان کی اس کوشش کی ایک مثال ہے، جس کا مقصد روس کو ایک ٹیکنالوجی مرکز میں تبدیل کرنا تھا۔[47]

انسانی حقوق اور جمہوری اقدار

ترمیم

میدوی ایدف کے دور میں انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی بات چیت جاری رہی، لیکن اس حوالے سے ان پر تنقید بھی کی جاتی رہی ہے کہ وہ اس ضمن میں مؤثر اقدامات نہیں کر سکے۔ اگرچہ انہوں نے میڈیا کی آزادی اور جمہوری اصلاحات کی حمایت کی، لیکن عملی طور پر ان کا اثر کمزور رہا، اور روس میں سیاسی آزادی پر قدغن برقرار رہی۔[48]

نگار خانہ

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس آئی ڈی: https://www.imdb.com/name/nm3792617/ — اخذ شدہ بتاریخ: 15 اکتوبر 2015
  2. http://www.nytimes.com/2007/12/11/world/europe/11medvedev.html
  3. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/dmitri-medwedjew — بنام: Dmitri Medwedjew — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. https://brockhaus.de/ecs/julex/article/dmitri-medwedjew — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000024755 — بنام: Dmitrij Medwedew — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  6. عنوان : Чувашская энциклопедия — ISBN 978-5-7670-1471-2 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: http://enc.cap.ru/
  7. http://www.nytimes.com/2007/12/11/world/europe/11russia.html?pagewanted=all
  8. Guardian topic ID: https://www.theguardian.com/football/2013/feb/13/liverpool-zenit-st-petersburg-racism
  9. http://www.nytimes.com/2008/09/10/world/europe/10smoking.html?hp
  10. http://www.nytimes.com/2007/02/25/magazine/25RUSSIA.t.html?pagewanted=all
  11. http://www.nytimes.com/2011/11/24/world/europe/russia-elevates-warning-about-us-missile-defense-shield-plan.html
  12. https://sanctions.nazk.gov.ua/en/sanction-person/185/
  13. Guardian topic ID: https://www.theguardian.com/news/datablog/2011/oct/18/world-leader-heights-tall
  14. http://kremlin.ru/catalog/persons/37/biography
  15. http://www.gettyimages.com/detail/news-photo/russian-billionaire-and-businessman-oleg-deripaska-seen-news-photo/112288615
  16. http://www.gallup.com/poll/107599/russians-sold-free-market-economy.aspx
  17. http://www.gallup.com/poll/107599/Russians-Sold-Free-Market-Economy.aspx
  18. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/179328611
  19. http://newsprom.ru/news/Raznoe/105180.html
  20. "Dmitry Medvedev Biography"۔ Biography.com[مردہ ربط]
  21. "Dmitry Medvedev Biography"۔ Biography.com[مردہ ربط]
  22. "Dmitry Medvedev's Early Life"۔ Russia Beyond
  23. "Dmitry Medvedev's Academic Background"۔ TASS[مردہ ربط]
  24. "Medvedev's Time at Saint Petersburg University"۔ Sputnik News
  25. "Medvedev's Early Legal Research"۔ RT News[مردہ ربط]
  26. "Medvedev's Early Political Interests"۔ The Guardian
  27. "Dmitry Medvedev Biography"۔ Biography.com[مردہ ربط]
  28. "Medvedev and Putin: The Political Partnership"۔ The Guardian
  29. "Medvedev's Rise in Moscow"۔ Reuters
  30. "Medvedev as Gazprom Chairman"۔ BBC[مردہ ربط]
  31. "Medvedev Appointed Deputy Prime Minister"۔ Wall Street Journal
  32. "Medvedev Wins 2008 Presidential Election"۔ BBC[مردہ ربط]
  33. "Medvedev's Presidency"۔ Reuters
  34. "Medvedev's Modernization Program"۔ The Guardian
  35. "Medvedev Becomes Prime Minister"۔ BBC[مردہ ربط]
  36. "Medvedev's Foreign Policy Legacy"۔ Reuters
  37. "Medvedev Resigns from Prime Minister Post"۔ BBC
  38. "Profile of Dmitry Medvedev's Family"۔ BBC[مردہ ربط]
  39. "Medvedev's Passion for Photography"۔ The Guardian
  40. "Dmitry Medvedev's Religious Beliefs"۔ Encyclopedia Britannica
  41. "Medvedev's Views on Sports and Healthy Living"۔ Reuters
  42. "Medvedev's Influence on Russia's Digital Future"۔ The Guardian
  43. "Medvedev's Economic Reforms and Their Impact"۔ The Economist
  44. "Medvedev's Judicial Reforms"۔ BBC[مردہ ربط]
  45. "New START Treaty"۔ New York Times
  46. "Medvedev's Relationship with Putin"۔ The Guardian
  47. "Skolkovo Innovation Center and Medvedev's Vision for Russia"۔ Bloomberg
  48. "Medvedev's Human Rights Legacy"۔ Human Rights Watch[مردہ ربط]