دولت امویہ کے والیوں کی فہرست

دولت امویہ متعدد صوبوں میں منقسم تھی لیکن چونکہ ان کی سرحدوں کا تعین نہیں کیا گیا تھا، اس لیے حکومت کی توسیع کے ساتھ وقتاً فوقتاً ان صوبوں کی سرحدیں بھی بدلتی رہتی تھیں۔ بنو امیہ کے عہد میں نظام حکومت نہایت سادہ تھا، اس میں کوئی پیچیدگی نہیں تھی۔ اموی حکمران ان صوبوں پر عموماً کسی خالص عربی النسل شخص کو اپنا والی بنا کر بھیجتے تھے۔ ان والیوں اور گورنروں میں عمرو بن العاص والی مصر اور حجاج بن یوسف والی عراق خاصے مشہور ہوئے۔ [1] یہ حکام اپنے اپنے صوبوں میں تقریباً مختارِ کل کی حیثیت رکھتے تھے اور نماز کی امامت، فوج کی قیادت، خراج کی وصولی، ڈاک کا انتظام اور دیگر تمام انتظامی امور کی انجام دہی ان کے فرائض میں شامل تھی۔ صوبے کے اخراجات مقامی ٹیکس سے پورے ہوتے تھے اور جو بچ رہتا، اسے دار الحکومت دمشق کے بیت المال کو روانہ کر دیا جاتا۔ لیکن اموی عہد کے اخیر میں امور سلطنت پر جب خلیفہ کی گرفت کمزور ہونے لگی تو بعض حکام ان زائد اموال کو بجائے بیت المال میں جمع کرنے کے اپنے ذاتی تصرف میں لینے لگے اور یوں وہ صاحب ثروت بن گئے۔[2] اموی عہد میں وزارت کا کوئی خاص عہدہ اور نام نہیں تھا، اموی خلفا بعض معاونین سے مدد لیتے تھے، البتہ زیاد بن ابیہ کو بعض لوگوں نے معاویہ بن ابو سفیان کے وزیر کا لقب دیا تھا۔[3]

دولت امویہ ہشام بن عبد الملک کے عہد میں اپنی انتہائی وسعت پر۔ (مفتوحہ علاقے ہرے رنگ میں)۔
فائل:UmmayadDynastyUrduMap.png
بنو امیہ کی حکومت عروج کے زمانے میں

بہر حال اموی ولایتیں ذیلی انتظامی طور پر منقسم تھیں، وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتی تھیں، ان میں سے چھوٹی ولایتوں اور ان کی والیوں کی حکومتی طور پر کوئی خاص اہمیت اور شہرت نہیں تھی۔ مثلاً: بصرہ جو اکثر و بیشتر مشرق اور فارس کے ماتحت رہا، کبھی خراسان اور سجستان کے اور کبھی مشرق عرب کی ریاستوں بحرین، یمامہ یا عمان کے ماتحت رہا یا کبھی کوفہ کے ساتھ عراق کے والی کے تحت رہا۔ جزیرۃ العرب میں مدینہ منورہ کی ولایت مرکزی اور بنیادی ولایت کا درجہ رکھتی تھی، مشرقی عرب اور یمن یا تو چھوٹے والیوں کے حوالے تھے یا بڑی ولایتوں کے ماتحت تھے۔ مکہ اور طائف کبھی ایک ساتھ رہتے، کبھی الگ الگ اور کبھی مدینہ کے ساتھ۔[4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. المصور في التاريخ، جز نہم. حضارات العالم في العصور القديمة والوسطى. تأليف: شفيق جحا، بهيج عثمان، منير البعلبكي. الطبعة التاسعة عشر، أيلول/سبتمبر 1999. دار العلم للملايين، بيروت - لبنان. صفحة: 366
  2. William Ochsenwald (2004)۔ The Middle East, A History۔ McGraw Hill۔ صفحہ: 57۔ ISBN 0-07-244233-6 
  3. المصور في التاريخ، الجزء التاسع. حضارات العالم في العصور القديمة والوسطى. تأليف: شفيق جحا، بهيج عثمان، منير البعلبكي. الطبعة التاسعة عشر، أيلول/سبتمبر 1999. دار العلم للملايين، بيروت - لبنان. صفحة: 356
  4. التاريخ الإسلامي: العهد الأموي، محمود شاكر، ص87-92.