سد ذو القرنین ایک مشہور دیوار کا نام ہے اکثر مورخین اسلام اس کو سد یاجوج بھی کہتے ہیں۔[1]جو مذہبی اور تاریخی حیثیت سے انتہائی شہرت کی حامل ہے اور محققین کی تحقیقات کے مطابق منگولیا میں واقع ہے۔ لیکن آج تک اس راز سے صحیح طرح سے پردہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد دیوار چین ہے اور بعض کی رائے کچھ اور ہے۔

سد ذو القرنین سے منسوب جگہ

اسلامی نظریہ ترمیم

قرآن کریم نے سورہ کہف میں یاجوج اور ماجوج کے ذیل میں ذوالقرنین کے حالات بیان کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ جب ذو القرنین اپنی شمالی مہم کے دوران دو دیواروں (پہاڑوں) کے درمیان پہنچا تو وہاں اسے ایسی قوم ملی جس کی زبان اس کے لیے ناقابلِ فہم تھی۔یہ دیوار قفقاز (Caucasus) کے علاقہ داغستان میں دربند اور داریال (Darial) کے درمیان بنائی گئی تھی۔ قفقاز اس ملک کو کہتے ہیں جو بحیرہ اسود (Black Sea) اور بحیرہ خزر (Caspian) کے درمیان واقع ہے۔ اس ملک میں بحیرہ اسود سے داریال تک تو نہایت بلند پہاڑ ہیں اور ان کے درمیان اتنے تنگ درے ہیں کہ ان سے کوئی بڑی حملہ آور فوج نہیں گذر سکتی۔ البتہ دربند اور داریال کے درمیان جو علاقہ ہے اس میں پہاڑ بھی زیادہ بلند نہیں ہیں اور ان میں کوہستانی راستے بھی خاصے وسیع ہیں۔ قدیم زمانے میں شمال کی وحشی قومیں اسی طرف سے جنوب کی طرف غارت گرانہ حملے کرتی تھیں اور ایرانی فرمانرواؤں کو اسی طرف سے اپنی مملکت پر شمالی حملوں کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔ انہی حملوں کو روکنے کے لیے ایک نہایت مضبوط دیوار بنائی گئی تھی جو 50 میل لمبی 290 فٹ بلند اور 10 فٹ چوڑی تھی۔ ابھی تک تاریخی طور پر یہ تحقیق نہیں ہو سکا ہے کہ یہ دیوار ابتداً کب اور کس نے بنائی تھی۔ مگر مسلمان مؤرخین اور جغرافیہ نویس اسی کو سد ذوالقرنین قرار دیتے ہیں اور اس کی تعمیر کی جو کیفیت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے اس کے آثار اب بھی وہاں پائے جاتے ہیں۔[2]

دیوار کا ڈھانچہ ترمیم

تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ یہ دیوار ذو القرنین نامی پیغمبر نے لوہے کو پگھلا کر تعمیر کی تھی۔ ابن جریر طبری نے اس کی ماہیت کے حوالے سے اس قسم کا مفہوم بیان کیا ہے کہ شاید یہ کوئی چمکدار اور مضبوط دیوار ہے۔[3]


قِيَاسَات برائے سد ذوالقرنین ترمیم

دیوارِ چین : یہ  دیوار عیسی بن مریم سے ٢٣٥ سال قبل اینٹ اور پتھر  سے   بنائی گئی

دیوارِ سمر قند :یہ دیوار سمرقند کے قریب بنائی گئی، اس کی بناوٹ میں لوھے کی چادروں اور اینٹوں کا استعمال کیا گیا، نہایت مستحکم اور بلند ہے تاہم اس میں ایک دروازہ ہے اور قفل لگا ہوا ہے-خلیفہ معتصم نے خواب میں اس کو ٹوٹا ہوا دیکھا تو پچاس آدمیوں کو تحقیق کیلے ء بھیجا، یہ دیوار جبل الطی کا درہ بند کرنے کے لیے بنائی گئی تھی، اس دیوار کو یمن کے حمیری بادشاہ نے بنایا تھا اور اسے اس کارنامہ پر بہت فخر تھا بعض علما کا خیال ہے کہ یہی بادشاہ ذوالقرنین تھا-

دیوارِ تبت :یہ جگہ قدیم خراسان کا آخری کنارہ تھا جہاں دو شمالی پہاڑوں کے درمیان بنائی گئی، اس جگہ سے ترک دھاوا کیا کرتے تھے، فضل بن یحییٰ برمکی نے دروازہ لگا کر اس کو بند کر دیا تھا یہ دیوار بلاتفاق وہ دیوار نہیں جو قران میں ذکر ہوئی کیونکہ یہ نزول قران کے بعد تعمیر ہوئیی

دیوارِ آزربائجان: یہ دیوار آزربائیجان کے سرے پر بحیرہ طبرستان کے کنارے پر جبل قبق کے گھاٹ کو غیر قوموں کی آمد و رفت کو  بند کرنے کے لیے پتھر اور سیسے سے نوشیروان نے بنائی تھی اور یہ آزربائیجان اور ارمنیه کے دو پہاڑوں کے درمیان واقع ہے، یہ دیوار ابتک قائم ہے[4]

جبکہ علما و محققین کی گواہی کی مطابق سرزمین قفقاز میں دریائے خزر او ردریائے سیاہ کے درمیان پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے کہ جوایک دیوار کی طرح شمال او رجنوب کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے اس میں ایک ہی دیوار کی طرح کا درّہ موجود ہے جو مشہور درّہ داریال ہے ۔ یہاں اب تک ایک قدیم تاریخی لو ہے کی دیوار نظر آتی ہے ۔ اسی بنا پربہت سے لوگوں کا نظریہ ہے کہ دیوارِ ذوالقرنین یہی ہے ۔ یہ بات جاذب نظر ہے کہ وہیں قریب ہی”سائرس“ نامی ایک نہر موجود ہے اور” سائرس“ کا معنی” کورش“ ہی ہے( کیونکہ یونانی”کورش“ کو ”سائرس“کہتے تھے) ۔ ارمنی کے قدیم آثارمیں اس دیوار کو” بھاگ گورائی“ کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔ اس لفظ کا معنی ہے” درہ کوروش“ یا”معبرِ کورش“(کوروش کے عبور کرنے کی جگہ) ۔یہ سند نشان دہی کرتی ہے کہ اس دیوار کا بانی کوروش ہی تھا ۔ [5]

حوالہ جات ترمیم

  1. تفسیر تیسیر القرآن مولانا عبد الرحمن کیلانی
  2. تفہیم القرآن ابوالاعلی مودودی ج 3
  3. ابن جریر طبری۔ تاریخ طبری  [مکمل حوالہ درکار]
  4. معارف القران جلد 5 صفحہ 26 تفسیر سورہ کہف، http://www.elmedeen.com/read-book-1216&&page=47&viewer=pdf آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ elmedeen.com (Error: unknown archive URL)
  5. https://makarem.ir/main.aspx?reader=1&lid=4&mid=65330&catid=6483&pid=62058