ابو اسحاق محمد بن ہارون رشید عربی: أبو إسحاق محمد بن هارون الرشيد جو عام اپنے لقب معتصم باللہ عربی: المعتصم بالله کے نام سے جانے جاتے ہیں خلافت عباسیہ کا آٹھویں خلیفہ تھا جس کا دور خلافت 833ء سے 842ء میں اپنی موت تک رہا۔ [1] بمطابق ہجری تقویم 218ہجری میں تخت نشیں ہوا اور بدستور 227ہجری تک خلیفہ رہا۔ اُس کے عہدِ خلافت میں مسئلہ خلق قرآن کے فتنے کا عروج رہا۔


المعتصم باللہ
خلافت عباسیہ کا آٹھواں خلیفہ
7 اگست 833ء – 5 جنوری 842ء
پیشرومامون الرشید
جانشینالواثق باللہ
نسلالواثق باللہ، المتوکل علی اللہ، محمد، احمد ، علی، عبد اللہ
مکمل نام
ابو اسحاق محمد بن ہارون الرشید المعتصم باللہ العباسی
خاندانخلافت عباسیہ
والدہارون الرشید
والدہماردہ
پیدائش17 اکتوبر 796ء
خلد محل، بغداد، خلافت عباسیہ، موجودہ عراق
وفات5 جنوری 842ء (عمر 45 سال)
عباسی سامرا، سامرا، خلافت عباسیہ، موجودہ عراق
تدفینجوثق محل، عباسی سامرا، سامرا، موجودہ عراق
مذہبسنی اسلام

۔[2]

نام و کنیت / لقب ترمیم

نام محمد بن ہارون الرشید ہے۔ کنیت ابو اسحاق اور لقب المعتصم باللہ العباسی ہے۔[3] مورخین نے اِسے المعتصم باللہ کے نام سے پکارا ہے۔

ولادت ترمیم

المعتصم کی ولادت بروز پیر 10 شعبان 180ھ مطابق 17 اکتوبر 796ء کو بغداد کے خلد محل میں ہوئی۔[3] اُس وقت المعتصم کا باپ ہارون الرشید بحیثیتِ خلیفہ تھا اور ہارون الرشید کے عہدِ حکومت کے دسویں سال المعتصم باللہ کی ولادت ہوئی۔

حلیہ ترمیم

المعتصم باللہ کا رنگ سفید سرخی مائل تھا جبکہ داڑھی گھنی تھی۔ قد متوسط تھا۔

تعلیم و تربیت ترمیم

عباسی خلیفہ ہارون الرشید المعتصم کو بہت چاہتا تھا۔ اِسی چاہت کے سبب ایک تعلیم یافتہ غلام ہر وقت المعتصم کے ساتھ رہتا جو اُسے پڑھاتا رہتا۔ جب وہ غلام فوت ہو گیا تو ہارون الرشید نے کہا: محمد! ( المعتصم کا اصلی نام محمد ہے) اب تمھارا غلام بھی مرگیا، اب بتلاو۔ المعتصم نے کہا: ہاں! وہ مرگیا اور میں کتاب کی بلاء سے چھوٹ گیا۔ بعد ازاں وہ تعلیم سے بہرہ مند نہ ہو سکا اور اَن پڑھ ہی رہا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کچھ کچھ پڑھ لیتا تھا اور اِسی قدر لکھ بھی لیتا تھا مگر بہ نسبت دوسرے خلفاء کے وہ غیر تعلیم یافتہ ہی رہا۔[3]

ہارون الرشید، امین الرشید اور مامون الرشید کے عہد حکومت میں ترمیم

المعتصم ہارون الرشید کی وفات کے وقت صرف 13 سال کا تھا۔ 809ء میں جب امین الرشید برسر اِقتدار آیا تو المعتصم شاہی محل میں امین الرشید کی کفالت میں رہا۔ 813ء میں جب مامون الرشید خلیفہ بن کر بغداد میں داخل ہوا تو تب المعتصم 17 سال کا تھا۔ المعتصم بڑا قوی اور شجاع تھا، علاوہ اَزیں وہ صاحب معلومات بھی تھا۔ مامون الرشید اُسے اُس کی شجاعت کی بنا پر دل لگاو کے سبب ساتھ رکھا کرتا تھا۔ مامون الرشید نے المعتصم کو شام اور مصر کا والی مقرر کر دیا۔ اِسی شجاعت و عظمت کے سبب مامون الرشید نے اپنے بیٹے عباس کو خلافت سے محروم کرتے ہوئے المعتصم کو ولی عہد مقرر کیا۔

خلافت اور تخت نشینی ترمیم

جمعرات 18رجب218ھ مطابق 7 اگست833ء کو عباسی خلیفہ مامون الرشید نے اِنتقال کیا تو طرطوس میں ہی اُمرائے حکومت نے مامون الرشید کی ولی عہدی کے مطابق المعتصم کی بیعت کرلی مگر لشکریوں یعنی افواج نے شورو غوغا کیا کہ مامون الرشید کے بیٹے عباس بن مامون الرشید کو بحیثیتِ خلیفہ تخت نشیں کیا جائے۔ المعتصم نے عباس بن مامون الرشید کو دربارِ شاہی میں طلب کیا۔ عباس نے حاضر ہوکر بطیب خاطر اپنے چچا المعتصم کی بیعت کرلی تو شاہی افواج میں مچا ہنگامہ ختم ہو گیا۔[4]

قلعہ طوانہ کی اِنہدامی ترمیم

مامون الرشید نے طوانہ کی جس قلعہ بندی کا حکم اپنے اواخر ایام میں دیا تھا۔ المعتصم نے اُسے اِسی حالت میں منہدم کردینے کا حکم دے دیا۔ اُس کی وجہ سے وہاں جس قدر اسلحہ اور دوسرا سازو سامان جمع کر لیا گیا تھا اُس میں سے جو بار کرکے لایا جاسکا وہ لے آیا۔ اور باقی کو جلا دیا گیا اور جن لوگوں کو مامون الرشید نے وہاں آباد کیا تھا، انھیں اپنے اپنے وطن جانے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ واقعہ ماہِ شعبان 218ھ میں ہوا۔[4][5]

بابک خرمدین کا انجام ترمیم

مامون الرشید نے مرتے وقت المعتصم کو وصیت کی تھی کہ خرمیوں سے غفلت نہ کرنا ورنہ اُن کا فتنہ بہت خطرناک ہے۔ 218ھ مطابق 833ء میں ہی اصفہان، ہمدان، ماسیزان اور مہرجانقذق کے ہزا رہا پہاڑی باشندے بابک خرمدین کے مذہب میں داخل ہو گئے۔ اور سب نے مجتمع ہوکر ہمدان کے علاقہ میں علم بغاوت بلند کر دیا۔ المعتصم نے اِن کے مقابلے میں بہت سی افواج روانہ کیں۔ آخری فوج اسحاق بن ابراہیم بن مصعب کی امارت میں اِس سال ماہِ شوال میں روانہ کی گئی اور اسحاق بن ابراہیم کو تمام علاقہ جبال کا امیر بھی مقرر کر دیا گیا تھا۔ اسحاق بن ابراہیم ماہِ ذیقعد میں اِس جماعت کے مقابلہ پر روانہ ہوا اور 8 ذو الحجہ کو اِس فتح کا مراسلہ بشارت بغداد میں پڑھا گیا۔ صرف ہمدان کے علاقہ میں اُس نے ساٹھ ہزار مرتدین کو جو بابک خرمدین کے پیروکار بن گئے تھے، قتل کر دیا گیا۔ باقی خرمی رومی علاقوں کو بھاگ نکلے۔[4] اتوار 11 جمادی الاول 219ھ مطابق 24 مئی 834ء کو اسحاق بن ابراہیم علاقہ جبال سے خرمیوں اور دوسرے اَمان حاصل کردہ قیدیوں کے ساتھ بغداد آیا۔ خواتین اور بچوں کو چھوڑ کر اسحاق بن ابراہیم نے خرمیوں کی اِن تمام لڑائیوں میں اُن کے تقریباً ایک لاکھ آدمی قتل کردیے تھے۔[6]

221ھ میں ایک بار پھر خرمیوں کا فتنہ عروج کو پہنچ گیا تو المعتصم نے اپنے سب سے بڑے ترکی سپہ سالار افشین کو بابک خرمدین کی مہم پر متعین کرنا چاہا۔ اُس کی روانگی سے قبل ہی ابو سعید محمد بن یوسف کو اردبیل بھیجا تاکہ وہ اُن قلعوں کی مرمت کروائے جو خرمیوں کے ہاتھوں تباہ ہوئے تھے۔ اِس اثناء میں بابک خرمدین اور اُس کے خرمی سردار عصمت نے متعدد حملے کیے۔ ابوسعید محمد بن یوسف نے انھیں ہر حملے میں شکست دی۔

عباسی ترکی سپہ سالار افشین اور بابک خرمدین کے درمیان عرصہ مدید تک معرکے ہوتے رہے۔ افشین بھاری کمک لے کر اُس کے مقابلے کو روانہ ہوا۔ بابک خرمدین کو معلوم ہوا تو وہ شب خون مارنے کو نکلا۔ افشین کو اِس کی خبر ہو گئی اور اُس نے اپنی حسن تدبیر سے بفاء الکبیر کو وہاں سے نکال لیا اور بابک خرمدین کا مقابلہ ترکی سپہ سالار ہشیم سے ہو گیا۔ ہشیم کو مقابلہ میں ناکامی ہوئی تو افشین نے بابک خرمدین کے عقب سے حملہ کر دیا۔ بابک خرمدین کی تمام فوج اِس معرکہ میں کام آگئی۔ بابک خرمدین بے سرو سامانی کے عالم میں معدودے چندے افراد کے ہمراہ وہاں سے بھاگا تو شہر موقان پہنچا۔ وہاں بقیہ لشکر کو لے کر مقام بد پر آ پہنچا۔ ماہِ ربیع الاول 222ھ مطابق فروری/مارچ837ء کو افشین نے بابک خرمدین کے مرکزی مقام " بد " پر حملہ کر دیا اور کافی تاخت و تاراج کی۔

بغداد میں المعتصم نے جعفر خیاط کی سرکردگی میں ایک عظیم الشان لشکر مع تیس لاکھ درہم مصارف فوج دے کر روانہ کیا۔ فریقین میں سخت خونریزی ہوئی۔ آخر کار افشین اور جعفر خیاط کی مشترکہ فوج غالب آگئی اور مقام " بد " میں داخل ہو گئی۔ محلات میں آگ لگا دی گئی۔ بابک خرمدین یہاں سے بھاگ نکلا۔ ابو الساج نے اُس کا تعاقب کیا۔ بابک خرمدین کی ماں اور اُس کا بھائی معاویہ گرفتار کر لیے گئے۔ بابک خرمدین جبال آرمینیاء میں جا چھپا۔ افشین کے جاسوس اُس کے تعاقب میں پیچھے پیچھے تھے۔ سہل بن سباط نے بابک خرمدین کو دیکھ لیا تو اُس کی تعظیم و تکریم کے بہانے میں اُسے اپنے قلعہ میں لا کر رکھا اور اِس کی خبر افشین کو دے دی۔ دوسرے دن شکار کے بہانے بابک خرمدین کو جنگل میں لا کر افشین کے سپہ سالاروں کے ہاتھ گرفتار کروا دیا۔ بابک خرمدین افشین کے سامنے پیش کیا گیا۔ اُس نے اِسے قید خانہ بھجوا دیا۔ اِس خدمت کے صلہ میں سہل بن سباط کو ایک لاکھ درہم اور اُس کے بیٹے معاویہ بن سہل کو ایک ہزار درہم دیے گئے اور سہل بن سباط کو جواہرات سے مرصع ایک پیٹی کمربند کی دی گئی۔ افشین نے تمام رُوداد المعتصم کے حضور بھیجی۔ خلیفہ نے افشین کو سامرا طلب کیا۔ ماہِ شوال 222ھ مطابق ستمبر/اکتوبر 837ء کو افشین مقام برزند سے سامرا کو روانہ ہوا۔ ہر منزل پر خلیفہ کے حکم سے افشین کی کمالِ عزت افزائی کی جاتی۔ ایک قاصد خاص خلیفہ کا معہ خلعتِ فاخرہ اور ایک راس عربی گھوڑے کے افشین سے ملتا۔ جس وقت افشین سامرا پہنچا تو ولی عہد شہزادہ الواثق باللہ مع سرداران اور اراکین سلطنت کے اِستقبال کو آیا اور کمال توقیر سے قصر شاہی " مطیرہ " میں ٹھہرایا۔ اور اِسی قصر شاہی میں بابک خرمدین کو بھی رکھا گیا۔ خلیفہ المعتصم کے حکم سے افشین کے سر پر تاج رکھا گیا۔ اور قیمتی خلعت پہنائی گئی۔ بیس لاکھ درہم بطور صلہ مرحمت کی گئے اور دس لاکھ درہم لشکریوں میں تقسیم کیے گئے۔ پیر 7 صفر 223ھ مطابق 7 جنوری 838ء کو خلیفہ کے حکم کے مطابق بابک خرمدین کو دربارِ شاہی میں طلب کیا گیا اور اُس کے ہاتھ پیر کاٹ دینے کا حکم جاری ہوا۔ فوراً حکم کی تعمیل ہوئی اور بابک خرمدین کا سر خراسان بھیج دیا گیا اور بقیہ لاش کو سامرا میں صلیب پر چڑھا دیا گیا۔ بابک خرمدین کے پنجہ ظلم سے 60 ہزار 600 مسلمان خواتین اور اُن کو بچوں کو حالت یرغمالی سے آزاد کروایا گیا۔ اُس کے بھائی عبد اللہ کو بغداد میں صلیب پر چڑھا دیا گیا۔[7][8][9]

علویوں کا دعویٰ خلافت ترمیم

المعتصم کے عہد میں اہل بیت کے سربراہ محمد بن القاسم بن علی بن عمر بن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب تھے۔ محمد بن القاسم مدینہ منورہ میں رہا کرتے تھے۔ بہت عابد و زاہد اور نیک سیرت مشہور تھے۔ امامیہ شیعہ فرقہ کے نویں امام محمد تقی المعروف بہ محمد الجواد 24 سال کی عمر میں 30 ذیقعد 220ھ مطابق 29 نومبر 835ء کو بغداد میں فوت ہوئے۔ اُن کے نکاح میں مامون الرشید کی بیٹی ام الفضل تھی۔ جب امام موصوف فوت ہوئے تو ام الفضل واپس شاہی محل بغداد میں اپنے چچا المعتصم کے پاس آ گئی اور یہیں رہنے لگی۔ اہل بیت کے بزرگ محمد تقی فوت ہوئے تو شیعوں نے اُن کے سات سالہ بیٹے علی نقی کو اپنا اِمام قرار دیا۔ زیدیہ جماعت نے محمد بن القاسم کو اپنا اِمام بنالیا۔ ایک فتنہ پرور خراسانی مدینہ منورہ آیا تو وہ محمد بن القاسم کے یہاں مدینہ منورہ میں اُن کے پاس ہی رہنے لگا۔ اُس نے یہ خیال محمد بن القاسم کے ذہن میں مستحکم کر دیا کہ " آپ ہی مستحق خلافت ہیں "۔ جو لوگ خراسان سے حج کرنے آئے اُن کو امام موصوف کے پاس لا کر بیعت کروائی۔ پھر تو کچھ عرصہ بعد معتقدین کی کثرت ہوتی گئی۔ وہ خراسانی امام محمد بن القاسم کو لے کر جرجان چلا گیا اور مصلحتاً کچھ روز روپوش رہے۔ جب روساء اور اُمراء نے بھی بیعت کرلی تو اُس نے امام محمد بن القاسم کو ظہور کی رائے دی اور لوگوں کو علانیہ " رضاء من آل محمد " کی دعوت دینے لگا۔ عبد اللہ بن طاہر نے اِس طوفان بغاوت کو روکنے کی طرف توجہ دی۔ طالقان کے اطراف میں متعدد لڑائیاں لڑی گئیں اور ہر لڑائی میں امام محمد بن القاسم کو ہزیمت اُٹھانا پڑی۔ آخر امام محمد بن القاسم پیچھے ہٹ گئے اور شہر نساء چلے گئے۔ وہاں پہنچے تو نساء کے عامل نے انھیں گرفتار کرکے عبد اللہ بن طاہر کے پاس بھیج دیا۔ عبد اللہ بن طاہر نے انھیں بغداد المعتصم کے پاس پہنچا دیا۔ یہ ماہِ ربیع الثانی 219ھ مطابق اپریل/مئی834ء کو المعتصم کے سامنے حاضر کیے گئے۔ المعتصم نے انھیں مسرور الکبیر ،یعنی خلیفہ ہارون الرشید کے خدمت گار کے پاس سامرا میں قید کروا دیا۔ جس مقام پر قید کیا گیا اُس کی وسعت تین گز لمبی تھی اور دو گز چوڑی تھی۔ تین دن اِس کوٹھڑی میں رکھا گیا بعد ازاں حجرے میں منتقل کر دیا گیا اور کھانا بھی جاری رہا مگر پہرہ بٹھا دیا گیا۔ عید الفطر کی شب 9 اکتوبر834ء کو محمد بن القاسم روشندان کی رسی کے ذریعہ سے روشندان تک چڑھ کر قید خانے سے فرار ہوئے۔ جب قید خانہ کے خادم صبح کھانا لے کر پہنچے تو وہ غائب ہو چکے تھے۔ حکومتی اعلان کے مطابق اُن کی نشان دہی کرنے والے کو ایک لاکھ درہم اِنعام دینے کا وعدہ کیا گیا، منادیوں نے منادی کی مگر اُن کا قطعی پتہ نہ چلا۔ محمد بن القاسم یوں غائب ہوئے کہ وہ پھر دوبارہ منظر عام پر نہیں آ سکے۔ شیعوں کی زیدیہ جماعت انھیں امام مہدی کہتی ہے کہ زندہ غائب ہو گئے ہیں۔ امام محمد بن القاسم کے غائب ہوتے ہی اُن کے پیروکاروں کی تعداد منتشر ہو گئی۔[10]

المعتصم باللہ بحیثیتِ خلیفہ و حکمران ترمیم

مامون الرشید کے زمانہ حکومت میں جو نظامِ سلطنت قائم ہوا تھا، المعتصم نے اُسی کو برقرا رکھا البتہ اُس نے فوج کے نظام کو بہت تقویت و ترقی دی۔ اِسی ترقی و تقویت سے اُسے کثیر فتوحات کا موقع بھی ملا۔ اِسی نظام کے بدولت اُس نے بادشاہانِ آذربائیجان، طبرستان، سیستان، اشیاصح، فرغانہ، طخارستان، صفہ اور شاہِ کابل کو بھی قید کیا۔ مغیرہ بن محمد کہتے ہیں کہ جتنے بادشاہ المعتصم کے دروازے پر جمع ہوئے، کبھی کسی بادشاہ کے وقت میں جمع نہ ہوئے تھے۔[11]

المعتصم باللہ کے عہد کی اولیات ترمیم

المعتصم پہلا بادشاہ ہے جس کے عہدِ حکومت میں باورچی خانہ کا خرچ دن دونا رات چوگنا ہو گیا حتیٰ کہ ایک ہزار دِینار روزانہ کا خرچ ہو گیا تھا۔[12]

المعتصم باللہ اور آٹھ کا ہندسہ ترمیم

المعتصم باللہ کو مثمن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ 8 کا ہندسہ اُس کی شخصیت کے ساتھ لازم و ملزوم ہو چکا تھا :

وہ بنو عباس کا آٹھواں خلیفہ تھا۔ اُس کی ولادت برج عقرب میں ہوئی جو دائرۃ البروج کا آٹھواں برج ہے۔ ہارون الرشید کی آٹھویں اولاد تھا۔ اُس نے 8 سال 8 ماہ 8 یوم حکومت کی۔ 180ھ میں پیدا ہوا جس میں 8 کا ہندسہ نمایاں ہے یعنی کہ دوسری صدی ہجری کا آٹھواں عشرہ۔ 218ھ میں تخت نشیں ہوا اِس میں بھی 8 کا ہندسہ نمایاں ہے۔ 8 فتوحات کیں جن میں وہ کامیاب ہوا۔ 8 بڑے دشمنوں کوقتل کیا۔ اپنی وفات کے بعد 8 لڑکے اور 8 لڑکیاں پیچھے چھوڑیں۔ 8محل تعمیر کروائے اور 8 سرائیں بنوائیں۔ 8 لاکھ دینار سرخ اور 8 لاکھ درہم سفید چھوڑے۔ 8 ہزار گھوڑے اور 8 ہزار غلام اور 8 ہزار لونڈیاں متروکہ چھوڑا۔[12][13]

آخری ایام اور وفات ترمیم

یکم محرم الحرام 227ھ کو المعتصم کی بیماری کا آغاز ہوا۔ مرض الموت میں وہ یہ آیت تلاوت کرتا رہا: حَتّٰی اِذَا فَرِحُوْا بِمَا اُوْتُوْا اَخَذْنَا ھُمْ بَغْتَۃً۔ حالت نزع میں کہتا جاتا تھا کہ: " تمام حیلے جاتے رہے اب کوئی باقی نہیں رہا۔ کبھی یہ کہنے لگتا : " مجھے اِن لوگوں میں سے نکال لے چلو"۔ آخری دعا جو اُس نے کی وہ یہ تھی کہ: " اِلہ العالمین تو خوب جانتا ہے کہ میں تجھ سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے ڈرتا تھا۔ تجھ سے اُمید رکھتا تھا، اپنے سے نہیں "۔[14] آخر بروز جمعرات 18 ربیع الاول227ھ مطابق 5 جنوری 842ء کو 45 سال کی عمر میں المعتصم اپنے ہی تعمیر کردہ دار الحکومت سامرا میں فوت ہوا۔[15]

حوالہ جات ترمیم

  1. Bosworth 1993, p. 776.
  2. "عورتوں کی ہم جنس پرستی اور اسلامی ادب۔راشد یوسفزئی/آخری قسط"۔ مکالمہ۔ 28 اکتوبر، 2017۔ 01 جون 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جون 2019 
  3. ^ ا ب پ جلال الدین سیوطی: تاریخ الخفاء، صفحہ 374، ذکر تحت خلیفہ عباسی المعتصم باللہ العباسی۔
  4. ^ ا ب پ ابن جریر طبری: تاریخ الرسل و الملوک، جلد 6، صفحہ 370۔ طبع لاہور
  5. ابن خلدون: تاریخ ابن خلدون، جلد 7، حصہ دوم، صفحہ 126۔
  6. ابن جریر طبری: تاریخ الرسل و الملوک، جلد 6، صفحہ 371۔ طبع لاہور
  7. ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، جلد 6، تلخیص از صفحہ 371 تا 378، ذکر تحت سنۃ 221ھ - 223ھ، طبع لاہور۔
  8. ابن خلدون: تاریخ ابن خلدون، جلد 7، حصہ دوم، صفحہ 130 تا 142۔
  9. یعقوبی: تاریخ الیعقوبی، جلد 3، صفحہ 578۔
  10. ابن جریر طبری: تاریخ الرسل و الملوک، جلد 6، صفحہ 371۔ ذکر تحت سنۃ 219ھ، طبع لاہور۔
  11. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 377۔ ذکر تحت المعتصم باللہ العباسی
  12. ^ ا ب جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 378۔ ذکر تحت المعتصم باللہ العباسی
  13. ابن الاثیر: تاریخ الکامل، جلد 6 صفحہ 215۔
  14. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 377، ذکر تحت خلافۃ المعتصم باللہ العباسی۔
  15. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 376، ذکر تحت خلافۃ المعتصم باللہ العباسی۔
چھوٹی شاخ بنو ہاشم
پیدائش: اکتوبر 796ء وفات: 5 جنوری 842ء
مناصب سنت
ماقبل  خلیفہ اسلام
7 اگست 833ء5 جنوری 842ء
مابعد