سراج الدین ظفر
سراج الدین ظفر (پیدائش: 25 مارچ 1912ء - وفات: 6 مئی 1972ء) اردو زبان کے پاکستان سے تعلق رکھنے و الے نامور شاعر اور افسانہ نگار تھے۔
سراج الدین ظفر | |
---|---|
پیدائش | 25 مارچ 1912ء جہلم، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) |
وفات | 6 مئی 1972 ء (60 سال) کراچی، پاکستان |
آخری آرام گاہ | گورا قبرستان، کراچی |
قلمی نام | سراج الدین ظفر |
پیشہ | شاعر، افسانہ نگار |
زبان | اردو |
نسل | پنجابی |
شہریت | پاکستانی |
اصناف | نظم، غزل، افسانہ، مضامین |
نمایاں کام | غزال و غزل زمزمۂ حیات دریچے اور صحرا سفر کی عطا |
اہم اعزازات | آدم جی ادبی انعام |
حالات زندگی
ترمیمسراج الدین ظفر 25 مارچ، 1912ء کو جہلم، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے[1][2][3]۔ ان کی والدہ بیگم زینب عبد القادر خود بھی اردو کی ایک مشہور مصنفہ تھیں اور ان کے نانا فقیر محمد جہلمی سراج الاخبار کے مدیر اور حدائق الحنیفہ جیسی بلند پایہ کتاب کے مصنف تھے۔[3] 1928ء میں میٹرک اور 1930ء میں ایف سی کالج لاہور سے ایف اے کیا۔ پھر کالج کی تعلیم چھوڑ کرہوابازی کی تعلیم شروع کی اور دہلی فلائنگ کلب سے ہوابازی کا اے کلاس لائسنس حاصل کیا۔ والد کے ناگہانی انتقال کے وجہ سے یہ سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ 1933ء میں ایف سی کالج سے بی اے کیا۔ 1935ء میں ایل ایل بی کیا۔ ابتدا میں انھوں نے وکالت شروع کی، لیکن جلد ہی اس پیشہ سے ان کی طبیعت اکتا گئی۔ دوسری جنگ عظیم میں افسر کی حیثیت سے ہوائی فوج میں بھرتی ہو گئے اور دس برس تک متعدد عہدوں پر فائز رہے۔ 1950ء میں اس ملازمت کو خیرباد کہا اور تجارت کی طرف متوجہ ہو گئے،
ادبی خدمات
ترمیمسراج الدین ظفر نے افسانے بھی لکھے اور شاعری بھی کی۔ وہ لب و لہجے کے حوالے سے بے حد منفرد شاعر تھے۔ شباب اور شراب ان کا خاص موضوع تھا۔ نئی نئی زمینیں تلاش کرنا اور ادق قافیوں میں رواں دواں شاعری کرنا انہی کا اسلوب تھا۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے زمزمہ حیات اور غزال و غزل کے نام سے شائع ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ افسانوی مجموعہ آئینے اور مضامین کا مجموعہ نقوش ادب شائع ہو چکے ہیں۔[3]
تصانیف
ترمیم- غزال و غزل(1968ء/شاعری)
- زمزمۂ حیات(شاعری/1936ء)
- نقوش ادب(مضامین)
- آئینے(افسانے/1943ء)
نمونۂ کلام
ترمیمغزل
ساغر اٹھا کے زہد کو رد ہم نے کر دیا | پھر زندگی کے جزر کو مد ہم نے کر دیا | |
وقت اپنا زر خرید تھا ہنگام مے کشی | لمحے کو طول دے کے ابد ہم نے کر دیا | |
دل پند واعظاں سے ہوا ہے اثر پذیر | اس کو خراب صحبت بد ہم نے کر دیا | |
تسبیح سے سبو کو بدل کر خدا کو آج | بالاتر از شمار و عدد ہم نے کر دیا | |
مصروں میں گیسوؤں کی فصاحت کا بھر کے رنگ | اپنی ہر ایک غزل کو سند ہم نے کر دیا | |
تشبیہ دے کے قامت جاناں کو سرو سے | اونچا ہر ایک سرو کا قد ہم نے کر دیا[4] |
غزل
بغیر ساغر و یار جواں نہیں گزرے | ہماری عمر کے دن رائیگاں نہیں گزرے | |
ہجوم گل میں رہے ہم ہزار دست دراز | صبا نفس تھے کسی پر گراں نہیں گزرے | |
نمود ان کی بھی دور سبو میں تھی کل رات | ابھی جو دور تہ آسماں نہیں گزرے | |
نقوش پا سے ہمارے اگے ہیں لالہ و گل | رہ بہار سے ہم بے نشاں نہیں گزرے | |
ظفر کا مشرب رندی ہے اک جہاں سے الگ | مری نگاہ سے ایسے جواں نہیں گزرے[5] |
اعزازات
ترمیمسراج الدین ظفر کو ان کی کتاب غزال و غزل پر 1968ء میں آدم جی ادبی انعام ملا۔[3]
وفات
ترمیمسراج الدین ظفر 6 مئی، 1972ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئے۔ وہ کراچی میں فوجی قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔[2][3][1]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات ناموران پاکستان، اردو سائنس بورڈ لاہور، 2006ء، ص 353
- ^ ا ب سراج الدین ظفر، سوانح و تصانیف ویب، پاکستان
- ^ ا ب پ ت ٹ عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 355
- ↑ ساغر اٹھا کے زہد کو رد ہم نے کر دیا (غزل)، سراج الدین ظفر، ریختہ اردو ویب، ہندوستان
- ↑ بغیر ساغر و یار جواں نہیں گزرے (غزل)، سراج الدین ظفر، ریختہ اردو ویب، ہندوستان