سرشار صدیقی
سرشار صدیقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز شاعر اور ادبی نقاد تھے۔
سرشار صدیقی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 25 دسمبر 1926ء کانپور ، اتر پردیش ، برطانوی ہند |
وفات | 7 ستمبر 2014ء (88 سال) کراچی ، پاکستان |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
ملازمت | نیشنل بینک آف پاکستان |
تحریک | ترقی پسند تحریک |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمسرشار صدیقی کی پیدائش 25 دسمبر 1926ء کو کانپور، اتر پردیش، برطانوی ہند میں ہوئی۔ وہ ترقی پسند تحریک کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں بھی سرگرم رہے۔ پاکستان منتقل ہونے کے بعد کراچی میں رہائش اختیار کی۔ وہ نیشنل بینک آف پاکستان کراچی میں مطبوعات کے انچارج رہے۔ 9 نثری کتابوں کے علاوہ ان کے بارہ شعری مجموعے شائع ہوئے۔ انھوں نے ایک طویل منظوم تمثیل بھی لکھی۔ ایک مفتی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد طبیب تھے اور وہ طیبہ کالج دہلی میں لیکچرار تھے۔ ان کے گھر کا ماحول ملا جلا تھا نہ بہت مذہبی اور نہ بہت آزاد خیالی تھی۔ خاندانی روایات کے مطابق مکتب سے تعلیم کا آغاز کیا۔ جامعہ العلوم کانپور میں تجوید القرآن مکمل کی۔ یہ مدرسہ مولانا سید سلیمان ندوی کا قائم کیا ہوا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے فیض عام اسکول، پھر پریزیڈنسی ہائی اسکول کلکتہ اور حلیم مسلم کالج کانپور سے تعلیم مکمل کی۔ جب سرشار صدیقی کو قرآن کے حفظ کے لیے بٹھایا گیا تو دوسرے دن ان کے خوبصورت بال مکتب میں قینچی سے کاٹ دیے گئے۔اس کے بعد انھوں نے مکتب جانا چھوڑ دیا ان کا کہنا تھا کہ اسکول کے زمانے میں جب میرے پاس جیب خرچ ختم ہو جاتا تو والدین سے چھپا کر درسی کتابیں اونے پونے بیچ کر اپنا خرچ پورا کرتا تھا۔ چٹورا ہونے کی بنا پر انھیں اس قسم کی حرکتیں کرنی پڑتی تھیں۔ اس قسم کا ایک اور واقعہ انھوں نے بتایا کہ میچ کھیلنے کے لیے اسکول کے سارے بچے اپنی کتابیں جماعت کی الماری میں رکھ کر فیلڈ میں چلے جاتے میں ایک دوست کی مدد سے بچوں کے بستوں سے قیمتی کتابیں نکال کر کتب فروش کے ہاں بیچ دیتا اور حاصل ہونے والی رقم سے مٹھائی خرید کر تمام کھلاڑیوں میں تقسیم کر دیتا۔ سرشار صدیقی نے بچپن ہی سے بچوں کے لیے کہانیاں لکھنی شروع کر دی تھیں۔ انھوں نے اسکول کے زمانے ہی میں معارف، نگار، مولوی اور زمانہ جیسے معتبر علمی جریدے پڑھنے شروع کر دیے تھے۔ اسکول کے زمانے میں انھوں نے ڈرامے اور مشہور نظموں کے ٹیبلو لکھے۔ جنہیں وقتاً فوقتاً اسکول کی سٹیج پر پیش کیا جاتا تھا۔ حافظ ولی اللہ سے انھوں نے قرآن مجید پڑھا۔ پریزیڈنسی اسکول کلکتہ میں مشہور ترقی پسند شاعر پرویز شاہدی ان کے استاد تھے۔ جنہیں وہ کبھی بھول نہ پائے۔ انھوں نے سرشار صدیقی کی شاعری کے حوالے سے تربیت کی اور انھیں اس قابل بنایاکہ وہ عوامی اور اجتماعی سطح پر انسانی مسائل کا تجزیہ کر سکیں حلیم مسلم کالج میں پرنسپل عبدالشکور ‘ پروفیسر اویس احمد ادیب اور پروفیسر عبدالعلیم شیرکوٹی کا ذکر انتہائی محبت اور احترام سے کرتے تھے۔[1]
وفات
ترمیمسرشار صدیقی 87 برس کی عمر میں 7 ستمبر 2014ء کو کراچی میں وفات پا گئے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ پروفیسرجہاں آرا لطفی ربط = https://www.jasarat.com/sunday/2018/09/09/271237/ (9 ستمبر 2018)۔ "سرشار صدیقی ایک رہ نورد شوق ="۔ روزنامہ جسارت سنڈے میگزین