سکندر اعظم کی موت کے بعد یونانیوں کی کونسل نے سلوکس کو بابل کا حکمران منتخب کیا، جو خود کو نکوٹار (Nocoter) کا فاتح کہتا تھا۔ کیوں کہ اس نے مصر کے یونانی حکمران بطلیموس کی مدد سے شام فتح کر لیا بلکہ اس نے ایران کارخ یا اسے فتح کرکے مشرقی علاقوں کو اپنے تسلط میں لے آیا اور نو سال کی جدوجہد کے بعد 302 ؁ ق م میں اس کی حکومت سیر دریا کے کنارے سے پنجاب تک پھلی ہوئی تھی، جس کی مشرقی حدود برصغیر سے ملتی تھی۔[7]

سلوقی سلطنت
Βασιλεία τῶν Σελευκιδῶν
Basileía tōn Seleukidōn
312 BC–63 BC
Tetradrachm of Seleucus I – the horned horse, the elephant and the anchor all served as symbols of the Seleucid monarchy.[1][2] of سلوقی سلطنت
The Seleucid Empire (light blue) in 281 BC on the eve of the murder of Seleucus I Nicator
The Seleucid Empire (light blue) in 281 BC on the eve of the murder of Seleucus I Nicator
دار الحکومت
عمومی زبانیں
مذہب
حکومتعصر ہیلینستی بادشاہت
Basileus 
• 305–281 BC
Seleucus I (first)
• 65–63 BC
Philip II (last)
تاریخی دورعصر ہیلینستی
• 
312 BC
301 BC
192–188 BC
188 BC
167–160 BC
141 BC
129 BC
• 
63 BC
رقبہ
303 BC[6]3,000,000 کلومیٹر2 (1,200,000 مربع میل)
301 BC[6]3,900,000 کلومیٹر2 (1,500,000 مربع میل)
240 BC[6]2,600,000 کلومیٹر2 (1,000,000 مربع میل)
175 BC[6]800,000 کلومیٹر2 (310,000 مربع میل)
100 BC[6]100,000 کلومیٹر2 (39,000 مربع میل)
ماقبل
مابعد
Macedonian Empire
Maurya Empire
Province of Syria
Parthian Empire
Greco-Bactrian Kingdom
Hasmonean kingdom
Osroene

سلوکس نے اب ہندوستان پر چڑھائی کرنی چاہی، کیوں کہ قدرتاََ اس کے دل میں خواہش تھی کہ اپنے آقا کی ہندی مقبوضات اپنے قبضہ میں لے لے۔ اس کے لیے اس نے 305 ؁ ق م میں ہند و پاک کی طرف قدم بڑھایا اور سکندر کے مقبوضہ علاقے فتح کرنے کی کوشش کی، مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور پنجاب کی سرزمین پر چندر گپت سے شکست کھانے کے بعد ایک شرمناک معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا۔ جس کے تحت وہ نہ صرف ہندی مقبوضات سے بلکہ کابل، قندھار، ہرات اور بلوچستان سے بھی دستبردار ہو گیا۔ نیز تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لیے اس نے اپنی بیٹی کی شادی چندر گپت سے کردی۔ اس نے اپنا ایک سفیر میگھستینز (Maghasthenes) کو چندر گپت کے دربار بھیجا۔[8] چندر گپت نے اس کی بات رکھنے کے لیے محض پانسو ہاتھیوں کا تحفہ بھیجا۔[9]

سکندر کے زمانے سے باختر یونانیوں کی نوآبادی تھی۔ سلوکس نے چندر گپت سے شکست کھانے کے بعد جو شرمناک معاہدہ کیا تھا، اس سے بلخ کے یونانیوں کو خدشہ تھا کہ چندر گپت بلخ فتح کرنے کے لیے پیش قدمی کرے گا، اس لیے باختریہ کے یونانیوں نے سلوقیوں کے خلاف بغاوت کردی۔[10] انطیوکس اعظم (223 تا 187 ق م) نے ایک طویل مقابلے کے بعد باختریہ کی خود مختاری تسلیم کرلی۔[11]

پارتھیا ایک سردار اشک نے سلوقی خاندان سے بغاوت کر کے سمر قند سے مرو تک کا علاقہ آزاد کرالیا تھا۔ کچھ عرصہ تک دونوں کی حکومتیں متوازی چلتی رہیں اور دونوں کے درمیان جنگ و پیکار کا سلسلہ جاری رہا۔ سلوکس حکمران انطیوکس اعظم یا انطوکس سوم نے اشکانی فرمانروا ارشک سوم کو شکست دے کر اس کے پایہ تخت پر قبضہ کر لیا، مگر زیادہ دن تک تسلط قائم نہیں رکھ سکا اور پارتھیوں کی قزاقانہ یعنی گوریلا جنگ سے تنگ آکر مجبوراََ اس نے صلح کرلی اور اشک کو پارتھیا کا بادشاہ تسلیم کر لیا اور ہمدان کا علاقہ جس پر اس نے قبضہ کر لیا تھا واپس کر دیا۔[12]

اس دوران سلوقیوں میں تخت نشینی کے لیے آپس میں خانہ جنگی چھڑ گئیں۔ ارشک ششم یا مہرداد اول نے اس خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آرمینیا، خوزستان، پارس اور بابل پر قبضہ کر لیا، نیز سلوقی فرمانروا دمیترس دوم کو گرفتار کر لیا، جس کے بعد ایران سے سلوکی حکومت عملی طور پر ختم ہو گئی، پھر بھی چھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔[13]

139 ؁ ق م میں دمیترس دوم کی گرفتاری کے بعد سلوکس ہفتم ایک بڑی فوج کے ساتھ ایران کی طرف بڑھا اور فرہاد دوم سے تین کامیاب جنگوں کے بعد آرمینیا، سلوکیہ اور بابل پر قابض ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انطیوکس اعظم کی تاریخ دہرائی جائے گی اور اشکانی اطاعت کے لیے مجبور ہوں گے۔ فرہادبھی اپنی کمزوری محسوس کرتے ہوئے مصالحت کی کوشش کیں۔ مگر انطیوکس نے مصالحت کے لیے ایسی سخت شرائط رکھیں کہ فرہاد منظور نہ کرسکا اور مجبوراََ جنگ پر آمادہ ہو گیا۔ آخر ہمدان کے قریب سلوکیوں اور اشکانیوں کی فیصلہ کن جنگ ہوئی، جس میں انطیوکس ماراگیا۔ اس کے ساتھ ایران سے یونانی حکومت ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی اور سلوقی صرف شام تک محدود ہو گئے۔ آخر 64 ؁ ق م میں رومیوں نے شام کا الحاق اپنی سلطنت سے کرکے سلوکیوں کا نام و نشان مٹادیا۔[14]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Cohen, Getzel M; The Hellenistic Settlements in Syria, the Red Sea Basin, and North Africa, p. 13.
  2. Lynette G. Mitchell; Every Inch a King: Comparative Studies on Kings and Kingship in the Ancient and Medieval Worlds, p. 123.
  3. Grainger 2020، صفحہ 130, 143
  4. ^ ا ب Richard N. Frye, The History of Ancient Iran, (Ballantyne Ltd, 1984), 164.
  5. Julye Bidmead, The Akitu Festival: Religious Continuity and Royal Legitimation in Mesopotamia, (Gorgias Press, 2004), 143.
  6. ^ ا ب پ ت ٹ Rein Taagepera (1979)۔ "Size and Duration of Empires: Growth-Decline Curves, 600 B.C. to 600 A.D."۔ Social Science History۔ ج 3 شمارہ 3/4: 121۔ DOI:10.2307/1170959۔ ISSN:0145-5532۔ JSTOR:1170959
  7. پروفیسر مقبول بیگ درخشانی۔ تاریخ ایران، جلد اول، 217 تا 219
  8. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 297
  9. ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 104
  10. پروفیسر مقبول بیگ درخشانی۔ تاریخ ایران، جلد اول، 234
  11. ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 041
  12. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 75۔76
  13. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 77
  14. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 77۔ 78)