سلطنت اشکانیان
سلطنت اشکانیان یا سلطنت پارثاوا یا پارت یا پارث (انگریزی: Parthian Empire) فارس یا ایران کی ایک قدیم سلطنت جس میں ایران کے موجودہ صوبہ جات خراسان اور گرگان اور وسطی ایشیا کا ایک ملک ترکمانستان کا جنوبی علاقہ شامل تھا۔ اس کو آسان اردو میں "پارثی سلطنت" بھی کہا جاتا ہے جو بعد ازاں اور بھی وسیع ہو گئی تھی-
سلطنت اشکانیان | |||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
247 قبل مسیح–224 عیسوی | |||||||||
دار الحکومت | مدائن,[1] ہگمتانہ, Hecatompylos ، سوسن، متھراداتکرت، Asaak | ||||||||
عمومی زبانیں | اشکانی زبان، فارسی، آرامی،[2] اکدی[1] | ||||||||
مذہب | زرتشتیت خطۂ بابل[3] | ||||||||
حکومت | جاگیردارانہ بادشاہت[4] | ||||||||
شہنشاہ | |||||||||
• 247–211 ق-م | Arsaces I (پہلا) | ||||||||
• 208–224 | Artabanus V (last) | ||||||||
مقننہ | Megisthanes | ||||||||
تاریخی دور | کلاسیکی عہد | ||||||||
• | 247 قبل مسیح | ||||||||
• | 224 عیسوی | ||||||||
کرنسی | یونانی دراخما | ||||||||
| |||||||||
موجودہ حصہ | افغانستان آرمینیا آذربائیجان بحرین جارجیا ایران عراق کویت پاکستان قطر سعودی عرب سوریہ ترکیہ ترکمانستان متحدہ عرب امارات |
ابتدائی تاریخ
ترمیمپارتی ادر ماد اور پارس کی طرح وسط ایشیا سے آئے تھے اور ان کی طرح آریا نسل سے تھے۔ پارتھیا کا ذکر سب سے پہلے دارا عظم کے کتبے میں ملتا ہے۔ [5]جسٹین Jasttain کے خیال میں پارتی سیکاتی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اسٹرابو Strabous کا خیال ہے کہ پارثی سیکاتی قبیلے کی ایک شاخ ہیں جو داہیDbes میں رہتے تھے۔ یہ لوگ داہی کو چھور کر خوارزم آئے جو کے خراسان کے شمال میں واقع ہے۔ پھر وہاں سے کر خراسان میں سکونت اختیار کرلی۔ [6]
سکندرنے ہخامنشی خاندان کا خاتمہ کیا تو پارثی بھی محکوم ہو گئے۔ سکندرکے جانشین سلوکی Seleucids ہوئے، مگر پارت کے ایک سردار اشک Asaak یا ارشک Arsaces نے سیاسی قوت حاصل کرنے کے بعد 249 ق م میں سلوکی خاندان کے خلاف بغاوت کرکے سمرقند سے مرو کا علاقہ آزاد کرالیا اور ایک نئے خاندان کی بنیاد ڈالی۔ کچھ عرصہ تک اشکانی حکومت سلوکیوں کے متوازی چلتی رہی اور دونوں کے درمیان جنگ و جدل کا سلسلہ جاری رہا۔ سلوکس حکمران انطیوکس اعظم یا انطیوکس سوم Antiochus The Garet Or Antiochus 3ed نے اشکانی فرمانروا ارشک سومArsaces 3ed کو شکست دے کر اس کے پایہ تخت پر قبضہ کر لیا۔ مگر یہ قبضہ زیادہ دیر تک جاری نہ رکھ سکا اور پارتیوں کی قزاخانہ جنگ سے مجبور ہوکر صلح کر لی اور ارشک کو پارتھیا کا بادشاہ تسلیم کر لیا اور ارشک نے انطیوکس کو ہمدان کا علاقہ واپس کر دیا، جس پر اس نے قبضہ کر لیا تھا۔[7]
توسیع اور استحکام
ترمیمارشک ششم یا مہردادا اول Arsaces 6th Mithradates 1th (170۔ 138 ق م) نے سلوقی حکمرانوں کی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آرمینیا، خوزستان، پارس اور بابل پر قبضہ کر لیا۔ نیز سلوکی بادشاہ دمیترس دوم(Demetius 2nd) کو شکست دے کر گرفتار کر لیا۔ اس واقع کے بعد سلوکی حکومت عملی طور پر ایران سے ختم ہو گئی، پھر بھی چھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔
اس خاندان کا دوسرا نامور بادشاہ ارشک ہفتم یا ف رہاد دومArsaces 7th or Phrates 2ed (138۔ 125 ق م) تھا جو باپ کی موت کے بعد ایران کے تخت پر بیٹھا۔ سلوکیوں کے مکمل اخراج کا سہرا اس کے سر رہا۔ دمیترس دوم Demetius 2edکی گرفتاری کے بعد سلوکس ہفتم Selecus 7th تخت پر بیٹھا۔ 139 ق م میں ایک بڑی فوج کے ساتھ ایران کی طرف بڑھا اور تین کامیاب جنگوں کے بعد اس نے آرمینا، سلوکیہ اور بابل پر قبضہ کر لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انطیوکس کی تاریخ دہرائی جائے گی اور اشکانی اطاعت پر مجبور ہوں گے۔ ف رہادنے بھی اپنی کمزوری محسوس کرتے ہوئے مصالحت کی کوشش کی۔ مگر انطوکس فتوحات کے نشے میں سرشار تھا۔ مصالحت کے لیے ایسی سخت شرائط پیش کیں کہ ف رہاد منظور نہ کرسکا مجبوراً آمادہ جنگ ہوا۔ ہمدان کے قریب سلوکیوں اور اشکانیوں کی آخری فیصلہ کن جنگ ہوئی۔ جس میں انطوکس مارا گیا اور اس کے ساتھ ہی ایران سے یونانی حکومت ہمیشہ ہی ختم ہو گئی۔ سلوکی سیادت شام کے صوبوں تک محدود ہوکر رہے گئی۔
اس واقعہ کے بعد سک قبائل نے اشکانی علاقوں میں لوٹ مار کردی۔ اس لیے ف رہاد کو ان کی طرف توجہ کرنی پڑی اور ف رہاد سھتیوں سے جنگ کرتا ہوا مارا گیا۔ ارشک نہم یا مہر داد دومMithradates 2ed Arsaces 9th or (124۔ 80) میں سک قبائل کی سرکوبی کی اور اپنی حدودیں مشرق میں پنجاب تک وسیع کر لیں۔ [8]
رومیوں سے چبقلش
ترمیمپھر مہرداد اس نے آرمینا کے جو علاقے اشکانی حکومت کے قبضہ سے نکل گئے تھے دوبارہ فتح کیے۔ مگر آرمینا پرسلوکیوں کا دعویٰ تھا، اس لیے دونوں حکومتوں میں کشمکش شروع ہو گئی اور جب رومیوں نے شام پر قبضہ کیا تو یہ کشمکش رومیوں کی طرف منتقل ہو گئی۔ [9]
80 ق م میں مہرداداکی موت واقع ہو گئی اور اس کے بعد اشکانیوں کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ ایک طرف خانہ جنگی شروع ہو گئی اور دوسری طرف رومیوں سے جنگوں کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ ارشک سیزدہم Arsaces 13th کے عہد میں حران کے مقام پر رومیوں کو شکست ہوئی اور رومی سلار کراسوس Carassus 53 ق م میں مارا گیا۔ اس واقع کے سترہ سال کے بعد 36 ق م میں دوسری جنگ ہوئی، اس میں بھی رومیوں کو شکست ہوئی اور رومی سالار انطونی Antony جان بچا کر بھاگ نکلا، مگر رومی آرمینا پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ [10]
ان دوشکستوں نے رومیوں کی ایشیا کی طرف پیش قدمی روک دی، مگر اس کامیابی کے باجود اشکانی حکومت کمزور ہوتی چلی گئی۔ پھر بھی یہ دو سو سال تک قائم رہی۔ اشکانی عہد کو مسعودی اور دوسرے مورخین نے ملوک الطوف کا دور بتایا ہے۔ اس کو اپنی انحاط کی آخری منزلوں پر ایک نئی طاقت کا سامنا کرنا پڑا۔ جو اسی ایران کی سرزمین سے ابھر رہی تھی اور ساسانی کے نام سے مشہور ہوئی۔ اشکانی حکومت اس کا مقابلہ نہیں کرسکی اور 475 سال کے طویل عہد حکومت کے بعد اشکانیوں نے ساسانیوں کے لیے جگہ خالی کردی۔ [11]
دار الحکومت
ترمیماشکانیوں کا پہلا دار الحکومت ہکاتم پیلس Hecatompylus تھا، جس کا صیح تعیّن نہیں ہو سکا، غالباً دامغان کے جنوب میں قومس کے قریب واقع تھا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تک رے، پھر ہمدان ان کا دار الحکومت رہا۔ آخری عہد میں انھوں نے طیسفون Ctesiphonکو اپنا دار الحکومت بنایا۔ [12]
بعض مورخین ان کا دار الحکومت اساک Asaka بتاتے ہیں، جسے موجودہ قوجان یا بخیود سے مطابقت دی جاتی ہے۔ بعض مورخین کے نزدیک ان کا دارلحکومت نسا تھا۔ یہ اب ترکستان میں ہے اور عشق آباد اور فیروز کے مابین واقع تھا۔ یہاں کھدائیوں سے اشکانی عہد کے آثار دریافت ہوئے ہیں۔ ان آثار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اشکانی دار الحکومت رہے چکا ہے۔ قرن اسلامی کے بعض مورخین لکھتے ہیں کہ ان کا دار الحکومت رے تھا۔ مگر پیری شا Peerisha کا کہنا ہے کہ اشکانی بادشاہوں نے رے میں کچھ عرصہ تک اقامت اختیار کی تھی۔ یونانی مورخین کا کہنا ہے کہ اشکانی بادشاہوں کا دربار کسی ایک شہر میں مستقلاً نہیں لگتا تھا، بلکہ شہر شہر بدلتا رہتا تھا، مگر مرکزیت طیسفون کو حاصل تھی۔ [13]
مذہب
ترمیماشکانی بادشاہوں کے مذہب کے بارے میں بہت کم معلومات میسر آئی ہیں۔ تاریخوں سے اس قدر پتہ چلتا ہے کہ وہ پارت میں وارد ہونے سے پہلے دوسرے آریوں کی طرح مناظر فطرت کی پوجا کیا کرتے ہوں گے۔ یعنی آب و آتش، خاک و باد، آفتاب و ماہتاب اور برق و رعد وغیرہ کی پرستش کرتے ہوں گے۔ خاص کر متھر ایعنی سورج کی نظر و نیاز زیادہ دیتے تھے۔ بعد میں انھوں نے ایرانیوں کے زیر اثر ھرمز Hormuz کی پوجا کرنے لگے اور ھرمز ان کا سب سے بڑا محافظ بن گیا۔ ان کا مذہب بہت سی باتوں میں زرتشتی مذہب سے ملتا جلتا تھا، گو انھوں نے بعد میں زرتشتی مذہب بھی اختیار کر لیا تھا۔ لیکن ساتھ ساتھ دوسرے دیوتاؤں کی پوجا بھی کرتے تھے۔ پارتی زرتشتوں کے برخلاف اپنے مردے نظر آتش کرتے تھے۔[14]اشکانی فرمانروؤں کے مذہب کی تفصیل نہیں معلوم ہے، مگر چند ایسے شواہد ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ واردان دوم کے عہد تک وہ قدیم آریائی مذہب پر قائم رہے اور آریائی معبودں کے علاوہ وہ اپنے اباء اجداد کی بھی پرستش کیا کرتے تھے۔ بلاش اول کے عہد میں زرتشتی دین کو سرکاری مذہب قرار دیا گیا، نیز اوستا کی تدوین ثانی کی کوشش کی گئی اور اس کی تفسیر بھی لکھی گئی۔ ساتھ ساتھ آریائی پروہتوں یعنی مغMage کی اہمیت کم کردی گئی اور ان کی جگہ محافظین آتشکدہ یعنی آوروان Athrawan نے لے لی۔ [15]
حکومت و انتظامیہ
ترمیماس عہد کی دوسری حکومتوں کی طرح اشکانی باشاہت بھی شخصی، موروثی اور مطلق العنان تھی اور بادشاہ تمام طاقتوں کا سرچشمہ تھا، وہی واضع قانون تھا اور قانون کو نافذ کرنے والا بھی۔ عدالت ہو فوج ہر صیغے کے اعلیٰ اختیارت اسے حاصل تھے۔ وہ تمام قانونی اور دستوری بندشوں سے آزاد تھا۔ اس کی زات رائے زنی و تنقید سے بالاتر تھی۔ وہ اپنے اعمال میں خود مختار تھا اور کسی دینوی طاقت کے وہ جواب دہ نہیں تھا۔ ملکی مصالح کے پیش نظر وہ بوقت ضرورت اپنے امرا سے مشورے طلب کیا کرتا تھا اور یہ محض اس کی دور بینی اور دور اندیشی موقوف تھا، ورنہ کوئی فرد یا مجلس اس کی حاکمانہ حثیت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی تھی۔ شاہی احکامات و ہدیات ہرکاروں کے ذریعے بھیجے جاتے تھے اور ہر ستراپی میں ایسے لوگ بھی متعین تھے جو بادشاہ کو پوشیدہ طور پرخبریں بھیجا کرتے تھے۔ بادشاہ کو ان پر اعتماد تھا اور ان کے ذریعہ وہ سلطنت کے حالات سے باخبر رہتا تھا۔ چونکہ اشکانی مذہب پر ایمان رکھتے تھے اور رعایا کے ہم نسل تھے، اس لیے ملکی رسم و رواج اور مذہبی قوانین کا بھی پاس و لحاظ تھا۔ پھر بھی مذہبی قوانین کواس نافذ کرنے والا کوئی طاقت ور طبقہ نہیں تھا مذہبی قوانین کی پیشوائی کا بھی بادشاہ کو حق حاصل تھا۔ [16]
انتظامی لحاظ سے مملکت علاقوں یا صوبوں میں بٹی ہوئی تھی، جس کوسٹراپی Satrapy کہتے تھے۔ ہر سٹراپی پر ایک سٹراپ Satrap مقرر تھا .۔ اس کی تقریری براہ راست بادشاہ کے ہاتھ میں تھی۔ وہ اپنے حلقہ میں آزادنہ حکومت کرتا تھا اور صرف بادشاہ کو جواب دہ تھا۔ ہر سٹراپی میں فوجیں بھی رہتی تھیں جن کا تعق سٹراپ سے ہوتا تھا۔ بوقت ضرورت بادشاہ ہر صوبے سے طلب کر سکتا تھا۔ صوبے کی مالیات کا تعلق بھی سٹراپ سے تھا، وہ مقرر رقم بادشاہ کو دیا کرتا تھا۔ شاہی احکامات و ہدایات ہر کارے کے ذریعہ بھیجی جاتی تھیں۔ ہر سٹراپی میں ایسے لوگ متعین تھے جو بادشاہ کو براہ راست پوشیدہ طور پر خبریں بھیجا کرتے تھے۔
مرکزی انتظامیہ و نیم خود مختار بادشاہ
ترمیمایسے کچھ آثار ظاہر ہوتے ہیں کہ اشکانی بادشاہ مختیار کل نہیں ہوتے تھے۔ اعلیٰ اختیارات کی تین مجلسوں کاپتہ چلتا ہے، جس سے بادشاہ امور سلطنت میں مشورہ کرنا ہوتا تھا۔ ایک مجلس شاہی خاندان کے افراد پر مشتمل تھی اور ہر بالغ شہزادہ خود بخود اس کا رکن بن جاتا تھا۔ دوسری مجلس دینی رہنماؤں پر مشتمل ہوتی تھی، جسے مجلس مغزان کہتے تھے۔ تیسری مجلس کا نام مجلس سہتان تھا، جس میں پہلی دو مجلسوں کے نمائندے شریک ہوا کرتے تھے، تاہم بادشاہ مختارکل ہوتا تھا۔ مجلس سہتان جس کو بادشاہ کا اہل سمجھتی تھی اسے بادشاہ بنا لیتی تھی۔ لیکن بادشاہ کے فوت ہونے پر بیٹا نابالغ ہو یا باشاہت کے لیے ناہل ہو تو مجلس متوفی بادشاہ کے بھائی یا چچا کو باشاہ منتخب کر لیتی تھی۔ ان مجلسوں کو بادشاہوں کے اختیارات پر قید وبند عائد کرنے حاصل تھا۔ بھر بھی ان مجلسوں کی نوعیت اور حقیقت کے بارے میں پورا علم نہ ہونے کی وجہ سے ان پر سیر بحث نہیں کی جا سکتی ہے۔ [17]
امرا
ترمیماشکانی عہد میں اکثر ستراپیوں نے نیم آزادی حاصل کرلی تھی۔ بادشاہ ان کے داخلی معاملات میں کم ہی دخل دیتا تھا۔ اور ان کو اپنے طور پر زندگی بسر کرنے کی آزادی تھی، مگر سیاسی معملات میں وہ بادشاہ کے ماتحت تھے۔ اشکانی بادشاہوں نے انھیں آزادی دے رکھی تھی۔ ممکن ہے انھوں نے مرکزی حکومت کی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے اس نظام کو گوارا کر لیا اور اس پر اکتفاکیا کہ ماتحت سٹراپیاں انھیں مقرر خراج اور وقت ضرورت پر فوج فراہم کر دیا کریں۔ یہی وجہ ہے مسعودی نے اشکانیوں کے دور کو طواف الملوک میں شمار کیا ہے۔ گبن Gibbon کا خیال ہے پارتی نظام یورپ کے جاگیرداری نظام سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ اشکانی عہد میں صوبہ داروں کو ویتا کسا Vitaxa کہتے تھے
عسکری
ترمیمقدیم ایرانیوں کا فوجی نظام آشوریوں کے عسکری نظام سے ماخوذ تھا۔ فوج کے دو حصے سوار اور پیادہ ہوتے تھے۔ اشکانیوں کی طاقت کا دارو مدار سواروں پر تھا اس اسی طاقت پر مملکت قائم تھی۔ پیادہ اور سواروں کے علاوہ رتھ بھی ہوتے تھے جن کو گھوڑے کھنچتے تھے۔ عموماً بادشاہ خود ہی لشکر کی قیادت کرتا تھا یا کوئی بآثر امیر۔ فوج کے ساتھ نقارے بجتے تھے اور بادشاہ اپنی کنیزوں کے جھرمٹ میں میدان جنگ میں جاتا تھا۔ لیکن اشکانیوں نے فوجی تنظیم کی طرف توجہ نہیں دی، اس لیے ان کے دور میں فوجی تنظیم میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی بلکہ ان کے عہد میں باضابطہ فوجوں کی تعداد گھٹ کر حفاظتی دستے تک محدود ہو گئی۔ جنگ کے وقت حسب قائدہ بادشاہ مختلف ساتراپیوں سے فوج طلب کر لیتا تھا۔ اس طرح ان کے ہتیار بھی وہی رہے جو اس پہلے ہخامنشی اور آشوریوں کے دور میں رہے، یعنی تیر کمان، خنجر، بھالے، برچھے، چھرے تلواریں نیزے کمند ڈھالیں، پوستین، ز رہیں اور خود شامل ہیں۔ [18]
سکے
ترمیماشکانی بادشاہوں کے سکے جو دستیاب ہوئے ہیں۔ ان کے سکے نقرئی اور برنجی تھے، انھوں نے میں کوئی طلائی سکہ جاری نہیں کیا۔ ان کے سکوں پر ان کی شکلیں نقش تھیں اور انھیں تخت پر بیٹھے دیکھایا گیا تھا، نیر ان پر ’شاہ بزرگ‘ اور شاہ شاہان‘ جیسے القاب تھے۔ یہ سکے مختلف اوزران اور قیمتوں کے اور ان سکوں کو ’درخم‘ کہتے تھے جو عربی میں درہم بن گیا۔ [19]
معاشرہ اور ثقافت
ترمیمملبوسات کے حالات کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن اس قدر پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ فوجی ملازمت پسند کرتے تھے۔ شکار ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ شکار کیے ہوئے جانور ان کی خوراک کا اہم حصہ تھے۔ شراب نوشی کا رواج عام تھا۔ شراب عام طور پر انگور کھجوروں سے کشید کی جاتی تھی۔ بانسری اور نقارہ ان کا پسندیدہ ساز تھے۔ رقص ان کی بڑی تقریب تھی۔ یہاں کے لوگ لمبے لمبے چوغے پہنتے تھے، جن کے ساتھ لمبے لمبے جیب ہوتے تھے۔ لباس کے رنگ مختلف ہوتے تھے۔ بعص کی پوشاکوں پر زری کا کام ہوتا تھا۔ ان کے بال عموماََ گھنگرویالے ہوتے تھے اور ڈاھاڑھیاں بھی رکھتے تھے۔[20] ایرانیوں میں سالانہ جشن منانے کا رواج رہا ہے، خصوصاً موسم بہار میں نوروز کا اور اور خزاں میں قہرگان کا جشن بڑے زور شور سے منایا جاتا تھا اور ایک دوسرے کو تحفہ تحائف بھیجتے تھے اور پر تکلف دعوتیں کرتے تھے۔ بیٹیوں کی پیدائش نامبارک خیال کی جاتی تھی۔ پانج سال تک کا بچہ ماں کی نگرانی میں رہتا تھا اس کی تعلیم و تربیت کا بار باپ ذمہ ہوتا تھا۔ [21]
فن تعمیر
ترمیماشکانی عہد کی تعمیرات کے نشانات بہت کم دریافت ہوئے ہیں۔ یونانی روایات کے مطابق انھوں ایک شہر ہیکاتم پیلس آباد تھا جو اوئل میں ان کا دار الحکومت تھا، مگر اب تک اس کا تعین نہیں ہو سکا۔ اس کا محل وقوع کا تعین ہو جائے تو اس کی کھدائی سے شاید ان کے تعمیرات پر کچھ روشنی دالی جا سکتی تھی۔ ان کی یادگاروں میں دریائے دجلہ کے کنارے الخصر کے مقامات پر محل کے کھنڈر ملے ہیں، جن کی بنیادیں تو ایرانی طرز کی ہیں لیکن محرابیں رومی انداز کی معلوم ہوتی ہیں۔ اس طرح کنگادر اور ہمدان میں معبدوں کے چھوٹے کمرے ہیں، ان کمروں کے بعد مربع شکل کے تین کمرے ہیں جن کے اوپر بیضاوی قبے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی معتدد کمرے ہیں جن کا طول عرض مختلف ہے۔ تنرئین کے لیے اس پر سرخ پلاسٹر کیا ہوا ہے۔ اس طرح فروز آباد کے قریب سروستان Sarvitan میں اس طرح کا ایک محل ہے۔ [22]
تجارت
ترمیمایرانیوں کو ان کے سیاسی عروج کے ساتھ تجارتی اہیت بھی حاصل ہوئی، مگر ایرانیوں نے تجارت کی طرف کبھی خود اپنا نے کی کوشش نہیں کی، ان کے ملک کی تجارت غیر ملکی فنیقیوں، یہودیوں، بابلیوں اور یونانیوں کے ہاتھ میں تھی۔ اگرچہ اہم اور بڑی شاہراہیں ان کے ملک سے گرتی تھیں اور مشرق اور مغرب کی تجارت ایران کے راستہ سے ہوتی تھی، اس لیے ایران کو اشکانی دور میں تجارتی اہمیت بھی حاصل تھی۔ کاروبار کی ہماہمی نے ایرانی شہروں کو تجارتی اہمیت حاصل ہو گئی تھی۔ چینی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ تجارتی استوار کرنے کے لیے چینی وفود اشکانی دربار میں آتے رہتے تھے اور رومی ممالک سے تجارت کرنے کے لیے اجازت نامے حاصل کرتے رہے۔ 79ء انھوں نے خلیج فارس اور خلیج عقبہ کے بحری راستوں کو استعمال کرنے کی اجازت طلب کی جو شاید منظور نہیں ہوئی۔[23]
زبان و ادب
ترمیماشکانیوں کے دور میں جو زبان وجود میں آئی اس کو وسط فارسی یا پہلوی کہتے ہیں۔ اس کو کتابی پہلوی بھی کہتے ہیں۔ (سدھیشورورما، آریائی زبانیں۔ 74) پہلوی ہخامنشی عہد کی قدیم فرنس سے نکلی تھی، مگر اس پر دوسری زبانوں کے گہرے اثرات پائے جاتے ہیں۔ موجودہ فارسی بھی اسی پہلوی سے مشتق ہے۔ اس وجہ سے اسے میانہ فارسی یعنی قدیم فارسی اور فارسی کے درمیان کی زبان بھی کہتے ہیں۔ یہ کلمہ پرتو سے مشقق ہے یعنی پارتوں کی زبان اور یہ زبان ساسانی عہد تک قائم رہی۔ [24]
تاریخ ایران کے ارمنی ماخذ سے پتہ چلتا ہے کہ پارت کو پہلے پہل شاہستان کہتے تھے۔ غالباََ اسی نسبت سے پہلوی یا پہلوانی کہنے لگے۔ پروفیسربراؤنProf Brown کا خیال ہے کہ رفتہ رفتہ پرتو تبدیلی سے پربہاؤ بنا پھر پربہاؤ پہلاوا بنا اور اسی نسبت سے یہ لوگ پہلوی کہلانے لگے اور وہاں کی زبان پہلوی کہلانے لگی۔ (پروفیسر مقبول بیگ درخشانی۔ تاریخ ایران، جلد اول، 224) اشکانی عہد کی کوئی کتاب دستیاب نہیں ہوئی ہے، پہلوی زبان کی چند کتابیں دستاب ہیں۔ محقیقن انھیں مسلم عہد کی بتاتے ہیں۔ [25][26]
فہرست شہاہان
ترمیم- ارشک اول ارشک Arsaces 249 ق م تا 247 ق م
- ارشک دوم تیر داد Tridates 247 ق م تا 214 ق م
- ارشک سوم اردوان اول214 Artabanus 1th ق م تا 196 ق م
- ارشک چہارم فری یا پت Fhriapatus 196 ق م تا 181 ق م
- ارشک پنجم فرہاد اولPhrastes 1th 181 ق م تا 170 ق م
- ارشک ششم مہر داد اعظمMithradates the Grat 170 ق م تا 138 ق م
- ارشک ہفتم فرہاد دومPhrastes 2ed 138 ق م تا 125 ق م
- ارشک ہشتم اردوان دومArtabanus 2ed 125 ق م تا 124 ق م
- ارشک نہم مہر داد دومMithradates 2ed 124 ق م تا 80 ق م
- ارشک دہم سندروگSenaruces 80 ق م تا 69 ق م
- ارشک یاز دہم ف رہاد سومPhrastes 3ed 69 ق م تا 60 ق م
- ارشک دواز دہم مہر داد سومMithradates 3ed 60 ق م تا 55 ق م
- ارشک سیز دہم ارُدُ اولOrotes 1th 55 ق م تا 37 ق م
- ارشک چہار دہم ف رہاد چہارمPhrastes 4th 37 ق م تا 2 ق م
- ارشک پانز دہم ف رہاد پنجمPhrastes 5th 2 ق م تا 2 ء
- ارشک شانز دہم ارد دومOrotes 2ed 2 ء تا 2 ء تا 6 ء
- زرشک ہف دہم وانان اولVonones 1th 6 ء تا 16 ء
- ارشک ہژ دہم اردوان سومArtabanus 3ed 16 ء تا 40 ء
- ارشک نوز دہم واردان اولVordanes 1th 40 ء تا 51 ء
- ارشک بیستم گودرزGotarzes 51 ء تا 51 ء
- ارشک بسیت و یکم واردان دوم Vordanes 2ed 51 ء تا 51 ء
- ارشک بسیت و دوم بلاش اول و واردن چہارمVolagases 1th & Vordanes 4th 51 ء تا 77ء
- طوائف الملوکی اور خانہ جنگی 77 ء تا 107ء
- ارشک بسیت و سوم خسرو Volagases 107ء تا 133ء
- ارشک بیست و چہارم بلاش دومVolagases 2ed 133 ء تا 149ء
- ارشک بیست و پنجم بلاش سومVolagases 3ed 149 ء تا 191ء
- ارشک بیست و ششم بلاش چہارمVolagases 4th 191 ء تا 207ء
- ارشک بیست و ہفتم بلاش پنجمVolagases 5th 207ء تا 217ء
- ارشک بیست و ہشتم پنجم اردوانArtabanus 5th 107ء تا 224ء
- طوائف الملوکی اور خانہ جنگی 224 ء تا 228ء[27]
صنعت و حرفت
ترمیماشکانی عہد کی صنعت و حرفت کے متعلق بہت کم معلومات ہوسکیں ہیں۔ کچھ ایسے شواہد ملے ہیں چھوٹے بڑے کارخانے ملک میں قائم تھے، قالین اور رنگ برنگے پردوں کے لیے ایران اس وقت بھی مشہور تھا اس کے بنے ہوئے نقش زردوز اور رنگین سوتی اور ریشمی کپڑے دوسرے ملکوں میں بھیجے جاتے تھے اور وہ ضروف پر طرح طرح کے نقش و نگار بنانا جانتے تھے۔ وہ زرگری کے فن سے بھی واقف تھے۔ فنکارانہ حثیت سے قابل قدر ہیں، ان پر رنگ و روغن کا خوبصورت اور پائیدار تھا، ان کو دیکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سفال سازی نے انھوں نے غیر معمولی ترقی کی تھی اور بہت پہلے وہ اس فن سے آگاہ ہو گئے تھے۔ اشکانی عہد تک ظروف کے علاوہ رنگین انیٹوں کے بڑے بڑے کارخانے ملک میں قائم ہو چکے تھے۔ [28]
زراعت
ترمیمتمام پیشوں میں زراعت کا پیشہ ایرانیوں کے نذدیک سب سے مقبول اور محبوب تھا۔ یہ ایک مذہبی بیشہ تھا، جسے زرتشت نے مبارک بتایا تھا اور لوگوں کو اس کو اختیار کرنے کی ہڈایت کی تھی۔ چونکہ دین و دنیا کی دولت انحصار اس پر تھا، اس لیے اس کو ترقی دینے کی خاطر خواہ کوشش کی گئی۔ ملک دریاؤں کی کمی تھی اس کے لیے کاریزین نہری نظام کے ذریعہ پورا کیا گیا۔ باوجود اس اہمیت کے اشکانی عہد کا زرعی نظام دوسرے ملکوں سے مختلف نہیں تھا۔ زمین بڑے بڑے زمیندار اور جاگیر داروں کے درمیان بٹی ہوئی تھی، جن پر ان کو مالکانہ حقوق حاصل تھے۔ وہ حکومت کو مقرر لگان ادا کرکے تمام امور سے آزاد ہوجاتے تھے۔ ان زمین کو آباد کرنے کے لیے غلاموں اور ہاریوں کا ایک طبقہ موجود تھا، جو دائمی طور پر ان سے وابستہ ہونے کے باوجود اس سے مستفید ہونے کا کوئی حق نہیں رکھتا تھا، صرف زندہ رہنے کے لیے ہی کچھ اندوختہ حاصل ہوجاتا تھا۔[29]
حدود
ترمیمایران کے قدیمی ماخد سے پتہ نہیں چلتا ہے کہ ان کی سلطنت کی حدودیں کہاں سے کہاں تک تھیں۔ ان کی سلطنت کی کی حدود کا پتہ یونانی، ارمنی، رومی اور یہودی مورخین کی تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ اشکانی Arsacids عہد حکومت میں پارت (خراسان) دامغان، سہنان، ماد بزرگ یا عراق عجم، ہمدان، گروس، کرمان شاہان، نہاوند، نوسیرکات، عراق، یعنی سلطان آباد، ماد کوچک، قزدین، رے، اصفہان، یزد، خواستار گلپا نبگان، پیٹرا، کلاہ قدیم، بابل سے خلیج فارس تک، خوزستان، پارس،کرمان، سیستان، ساگارتی، شمالی ہند کاسلسلہ کوہ خراسان سے جیحوں تک کے علاقے شامل تھے۔ [30]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب Hala Mundhir Fattah (2009)۔ A Brief History Of Iraq۔ Infobase Publishing۔ صفحہ: 46۔ ISBN 978-0-8160-5767-2۔
One characteristic of the پارتھیاns that the kings themselves maintained was their خانہ بدوشic urge. The kings built or occupied numerous cities as their capitals, the most important being مدائن on the دریائے دجلہ، which they built from the ancient town of Opis.
- ↑ Michael L. Chyet (1997)۔ مدیران: Asma Afsaruddin، Georg Krotkoff، A. H. Mathias Zahniser۔ Humanism, Culture, and Language in the Near East: Studies in Honor of Georg Krotkoff۔ Eisenbrauns۔ صفحہ: 284۔ ISBN 978-1-57506-020-0۔
In the Middle Persian period (اشکانی اور ساسانی سلطنتیں)، آرامی was the medium of everyday writing, and it provided خط for writing Middle Persian, Parthian، Sogdian، and Khwarezmian.
- ↑ Maria Brosius (2006)۔ The Persians۔ روٹلیج۔ صفحہ: 125۔ ISBN 978-0-203-06815-1۔
The Parthians and the peoples of the Parthian empire were کثرت پرستی. Each ethnic group, each city, and each land or kingdom was able to adhere to its own gods, their respective cults and religious rituals. In بابل the city-god Marduk continued to be the main deity alongside the goddesses عشتار and Nanai, while Hatra's main god, the sun-god شمش, was revered alongside a multiplicity of other gods.
- ↑ Sheldon 2010, p. 231
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 75)
- ↑ (پروفیسر مقبول بیگ درخشانی۔ تاریخ ایران، جلد اول، 225)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 75۔ 76)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 78)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 79)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 79)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 80)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 76)
- ↑ (پروفیسر مقبول بیگ درخشانی۔ تاریخ ایران، جلد اول، 307)
- ↑ (پروفیسر مقبول بیگ درخشانی۔ تاریخ ایران، جلد اول، 310۔ 311)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 153)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم،118۔ 117 )
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 118۔ 119)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 128 تا 129)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 190)
- ↑ (پروفیسر مقبول بیگ درخشانی۔ تاریخ ایران، جلد اول، 309)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 167)
- ↑ (ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 180 تا 181)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 189)
- ↑ (ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 169 تا 170)
- ↑ (ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم،176)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 189)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 81 تا 83)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 187۔ 188)
- ↑ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 186۔ 187)
- ↑ (پروفیسر مقبول بیگ درخشانی۔ تاریخ ایران، جلد اول، 307)