سمبھاجی (14 مئی 1657ء – 11 مارچ 1689ء) مرہٹہ سلطنت کے دوسرے چھترپتی اور مرہٹہ سلطنت کے بانی شیواجی کے بڑے بیٹے تھے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہوئے اور نو برس تک حکومت کی۔ ان کے دور حکومت کا بیشتر وقت مغلوں، شیدیوں، میسور اور پرتگیزیوں سے لڑائی میں گذرا۔ سنہ 1689ء میں مغلوں نے سمبھاجی کو گرفتار کرکے قتل کر دیا۔ ان کے بعد مرہٹہ سلطنت کے تخت پر راجا رام اول متمکن ہوئے۔[1]

سمبھاجی
سمبھاجی
ساتویں صدی عیسوی کی سمبھاجی کی پینٹنگ
مرہٹہ سلطنت کے دوسرے چھترپتی
16 جنوری، 1681- 11 مارچ، 1689
پیشروشیواجی
جانشینراجا رام اول
شریک حیاتیسو بائی
نسلبھوانی بائی
شاہو اول
خاندانبھونسلے
والدشیواجی
والدہسائی بائی
پیدائش14 مئی 1657(1657-05-14)
قلعہ پورندر، نزد پونے، بھارت
وفاتمارچ 11، 1689(1689-30-11) (عمر  31 سال)
ضلع ٹول پور-ودھو۔ پونے، مہاراشٹر، بھارت
مذہبہندو مت

ابتدائی زندگی

ترمیم

سمبھاجی کی پیدائش پورندر قلعہ میں ہوئی۔ ان کی والدہ کا نام سائی بائی تھا جو شیواجی کی پہلی بیوی تھی۔ سمبھاجی جب دو برس کے تھے تو ان کی والدہ چل بسی چنانچہ دادی جیجا بائی کے ہاتھوں ان کی پرورش ہوئی۔ نو برس کی عمر میں سمبھاجی کو آمیر کے راجا جے سنگھ اول کے پاس سیاسی یرغمال کے طور پر بھیجا گیا جس سے دراصل معاہدہ پورندر پر عمل آوری کی ضمانت مقصود تھی۔ شیواجی نے 11 جون 1665ء کو مغلوں سے یہ معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ سمبھاجی مغل منصب دار بن گئے۔[2]

سمبھاجی اور ان کے والد شیواجی نے مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دربار میں 12 مئی 1666ء کو خود سپردگی کی۔ اورنگ زیب نے انھیں نظر بند کر دیا لیکن یہ کسی طرح 22 جولائی 1666ء کو بھاگ نکلے۔[3] تاہم 1666ء سے 1670ء کا عرصہ فریقین کے درمیان میں مصالحت، مفاہمت اور انتہائی دوستانہ ماحول میں گذرا۔ اسی دوران میں شیواجی اور سمبھاجی نے سلطنت بیجاپور کے خلاف جنگ میں مغلوں کا ساتھ دیا اور ان کی جانب سے اس جنگ میں شریک رہے۔[2]

شادی

ترمیم

سمبھاجی نے جیووبائی سے شادی کی، یہ شادی کم اور سیاسی اتحاد زیادہ تھا۔ مرہٹہ رسم کے مطابق انھوں نے اپنا نام یسوبائی کر لیا۔ یسوبائی پلاجی راؤ شرکے کی بیٹی تھی جو طاقت ور دیشمکھ راؤ رانا سوریہ جی راؤ کی شکست کے بعد شیواجی کی خدمت میں آئے تھے۔ اس شادی کے بعد شیواجی کے لیے کوکن کی ساحلی پٹی کا دروازہ کھل گیا۔[4]:4[4][5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Sailendra Sen (2013)۔ A Textbook of Medieval Indian History۔ Primus Books۔ ص 199–200۔ ISBN:978-9-38060-734-4
  2. ^ ا ب Bhawan Singh Rana (2004)۔ Chhatrapati Shivaji (1st ed. ایڈیشن)۔ New Delhi: Diamond Pocket Books۔ ص 64۔ ISBN:8128808265 {{حوالہ کتاب}}: |طبعة= يحتوي على نص زائد (معاونت)
  3. Stewart Gordon (1993)۔ The Marathas 1600–1818 (1. publ. ایڈیشن)۔ New York: Cambridge University۔ ص 74–78۔ ISBN:978-0-521-26883-7۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-06-05
  4. ^ ا ب J. L. Mehta (1 جنوری 2005)۔ Advanced Study in the History of Modern India: Volume One: 1707 – 1813۔ Sterling Publishers Pvt. Ltd۔ ص 47۔ ISBN:978-1-932705-54-6۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-07
  5. Bhawan Singh Rana (2004)۔ Chhatrapati Shivaji (1st ایڈیشن)۔ New Delhi: Diamond Pocket Books۔ ص 96–99۔ ISBN:81-288-0826-5۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-26