سندھی ادب میں افسانے کا اِرتقا
سندھی زبان میں ادب کی جدید صنفیں (ناول، ڈرامے اور مضمون) انگریز کے دور میں داخل ہوئیں۔ اسی طرح افسانہ بھی اسی دور میں پروان چڑھا۔ لیکن اس کو سندھی افسانوں کا اٍرتقائی دور نہیں کہا جا سکتا۔
پہلا دور (1851ء سے 1925ء تک)
ترمیم1851ء میں سورٹھ راء ڈیاچ، شھزادے مانک کی کہانی، بھنبھی زمیندار کی کہانی وغیرہ کے نام سے کہانیاں لکھیں گئیں، لیکن ان کو باقائدہ افسانے کی ابتدا نہیں کہا جا سکتا۔
اس دور کے مصنف:
ترمیمدوسرا دور (1925 سے 1940 تک)
ترمیماس دور کو کو ترجمے کا دور کہا جا سکتا ہے۔ اس زمانے میں ہندی، بنگالی، گجراتی اور کئی دوسری زبانوں سے افسانوں کے ترجمے کیے گئے۔
اس دور کے مصنف:
ترمیمتیسرا دور (1940 سے 1947 تک)
ترمیمیہ دور سندھی افسانے کا ہنگامی دؤر جانا جاتا ہے۔ برطانوی راج کی انتہا تھی، آزادی کی تحریکیں زور پکڑ رہیں تھیں، جس کا بہت بڑا اثر افسانے پر پڑا۔
اس دور کے مصنف:
ترمیمنیا دور (1947 سے 1960تک)
ترمیمتقسیم کے بعد یہ دور بحران سے بہرپور تھا۔ کئی پبلشر اور مصنف کوچ کر گئے۔ کچھ سالوں بعد ترقی شروع ہوئی جو ابھی تک رواں دواں ہے۔
=== اس دور کے مصنف: ===۔ /فیض محمد فیض حیدری/
جدید دور (1960 سے آج تک)
ترمیمافسانے نے اپنی ترقی کی منزلیں طے کر کے بہت آگے تک پہنچ چکا ہے۔ اس دؤر میں کئی نئے تجربے بھی کیے گئے۔
اس دور کے مصنف:
ترمیماور بہت سارے مصنفوں اس صنف پر طبع آزمائی کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔