کیرت بابانی
کیرت بابانی (انگریزی: Kirat Babani) بھارت سے تعلق رکھنے والے سندھی زبان کے نامور مصنف، افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر، صحافی، مترجم، سماجی کارکن اور دانشور تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت منتقل ہو گئے تھے۔ انھیں ان کی کتاب دھرتی جو سڈ (دھرتی کی پکار) پر ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے 2006ء میں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز برائے سندھی ادب دیا گیا۔
کیرت بابانی | |
---|---|
(سندھی میں: ڪيرت چوئٿرام ٻاٻاڻي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 3 جنوری 1922ء ضلع نواب شاہ ، سندھ ، بمبئی پریزیڈنسی |
وفات | 7 مئی 2015ء (93 سال) الہاس نگر ، ممبئی ، بھارت |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) پاکستان (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج |
تعلیمی اسناد | فاضل القانون |
پیشہ | فعالیت پسند ، افسانہ نگار ، صحافی ، ناول نگار |
پیشہ ورانہ زبان | سندھی |
کارہائے نمایاں | دھرتی جو سڈ |
تحریک | ترقی پسند تحریک |
اعزازات | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمکیرت بابانی 3 جنوری 1922ء کو ضلع نوابشاہ (موجودہ ضلع شہید بینظیر آباد، سندھ)، بمبئی پریزیڈنسی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ولس ہائی اسکول سونی بازار نوابشاہ سے حاصل کی۔ میٹرک کے بعد ڈی جے کالج کراچی میں داخلہ لیا۔ یہاں وہ طلبہ سیاست میں بہت فعال رہے۔ ڈی جے کالج سے بی اے پاس کیا۔ پھر شاہانی لا کالج کراچی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ انڈین نیشنل کانگریس کی ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں بھی فعال کردار ادا کیا اور جیل بھی گئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ بھارت منتقل ہو گئے۔سندھ اور بعد ازاں بھارت میں ادب کی ترقی پسند تحریک کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ وہ پروفیسر رام پنجوانی کے قائم کردہ سندھی ادبی سرکل اور بعد میں پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کی سندھ شاخ میں سرگرم رہے۔ وہ شروع ہی سے اشتراکیت کے تصورات سے متاثر رہے ہیں اور جدید سندھی ادب میں حقیقت نگاری کے رویوں کی پاسداری کرتے رہے ہیں۔گوبند مالہی، تیرتھ بسنت، شیخ ایاز، اتم چندانی، شیخ عبد الرزاق راز، نارائن شیام، سوبھو گیان چندانی سگن آہوجا جیسے چوٹی کے ترقی پسند ادیبوں کے شریکِ سفر تھے۔ بھارت میں سندھی زبان کو قومی زبان درجہ دلانے والی تحریک میں کیرت بابانی نے رہنما کردار ادا کیا۔ کیرت کی اصل دلچسپی فکشن میں رہی۔ سندھ سے بھارت ہجرت کرنے والے شرنارتھیوں کی کیمپ لائف پر ان کی لکھی ہوئی کہانیاں آج بھی اپنا تاثر رکھتی ہیں۔ انھوں نے بعض نئے موضوعات پر بھی کہانیاں تحریر کیں جیسے معاشرتی شکست و ریخت کے زیرِ اثر انسانی نفسیات میں ہونے والی پیچیدگییوں کو انھوں نے اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ جنریشن گیپ جیسے موضوع بھی ان کی بعض کہانیوں میں موجود ہیں۔ ان کی معروف کہانی نہ لیلیٰ نہ مجنوں ایسے ہی نئے معروضی مسائل کے گرد گھومتی ہے۔ ان کی کہانیوں کا مجموعہ ھئو (وہ) اور درد جو دل میں نہ سمایو (درد جو دل میں نہ سمایا) بھارت میں سندھی ادب کے منتخب ترین مجموعوں میں بلند مقام پر فائز ہے۔ کیرت نے ملک راج آنند کے مشہور ناولوں قلی اور مالوہ کو سندھی میں ترجمہ کیا۔ کیرت کی خودنوشت کجھ بدھایم کجھ لکایم (کچھ بتایا کچھ چھپایا) بھی ایک منفرد اسلوب کی کتاب ہے، اس میں سندھ کی سرزمین اور ثقافت کے بارے میں ناسٹلجیائی اثرات ہونے کے باوجود ایک حقیقت پسندانہ طریق کاراختیار کیا گیا ہے۔ اس میں انھوں نے اپنی زندگی کی بابت اور اپنے خیالات کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ معلومات قلم بند کی ہیں۔[2]
وفات
ترمیمکیرت بابانی 7 مئی 2015ء کو الہاس نگر، بمبئی، بھارت میں وفات پا گئے۔[3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ http://sahitya-akademi.gov.in/awards/akademi%20samman_suchi.jsp#SINDHI — اخذ شدہ بتاریخ: 16 اپریل 2019
- ↑ سید مظہر جمیل، مختصر تاریخ زبان و ادب سندھی، ادارہ فروغ قومی زباناسلام آباد، 2017ء، ص 437
- ↑ "Pay Tribute to Mr Kirat Babani – Times of India"۔ indiatimes.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 نومبر 2021