سورہ النجم

قرآن مجید کی 53 ویں سورت

قرآن مجید کی 53 ویں سورت جس میں 3 رکوع اور 62 آیات ہیں۔

  سورۃ 53 - قرآن  
سورة النجم
Sūrat al-Najm
سورت النجم
----

عربی متن · انگریزی ترجمہ


دور نزولمکی
دیگر نام (انگریزی)The Unfolding
عددِ پارہ27 واں پارہ
اعداد و شمار3 رکوع, 62 آیات, 360 الفاظ, 1433 حروف

نام

پہلے ہی لفظ والنجم سے ماخوذ ہے۔ یہ مضمون کے لحاظ سے سورت کا عنوان نہیں ہے بلکہ محض علامت کے طور پر اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانہ نزول

بخاری، مسلم، ابو داؤد اور نسائی میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ اول سورۃ انزلت فیھا سجدۃ النجم (پہلی سورت جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی النجم ہے)۔ اس حدیث کے جو اجزاء اسود بن یزید، ابو اسحاق اور زہیر بن معاویہ کی روایات میں حضرت ابو مسعود سے منقول ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی وہ پہلی سورت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قریش کے ایک مجمع عام میں (اور ابن مردویہ کی روایت کے مطابق حرم میں) سنایا تھا۔ مجمع میں کافر اور مسلمان سب موجود تھے۔ آخر میں جب آپ نے آیت سجدہ پڑھ کر سجدہ فرمایا تو تمام حاضرین آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے اور مشرکین کے وہ بڑے بڑے سردار تک، جو مخالفت میں پیش پیش تھے، سجدہ کیے بغیر نہ رہ سکے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کفار میں صرف ایک شخص امیہ بن خلف کو دیکھا اس نے سجدہ کرنے کی بجائے کچھ مٹی اٹھا کر پیشانی سے لگا لی اور کہا کہ میرے لیے بس یہی کافی ہے۔ بعد میں میری آنکھوں نے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل ہوا۔

اس واقعے کے دوسرے عینی شاہد حضرت مطلب بن ابی وداعہ ہیں جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے۔ نسائی اور مسند احمد میں ان کا اپنا بیان یہ نقل ہوا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سورہ نجم پڑھ کر سجدہ فرمایا اور سب حاضرین آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے تو میں نے سجدہ نہ کیا اور اسی کی تلافی اب میں اس طرح کرتا ہوں کہ اس سورت کی تلاوت کے وقت سجدہ کبھی نہیں چھوڑتا۔

ابن سعد کا بیان ہے کہ اس سے پہلے رجب 5 نبوی میں صحابہ کرام کی ایک مختصر سی جماعت حبش کی طرف ہجرت کر چکی تھی۔ پھر جب اسی سال رمضان میں یہ واقعہ پیش آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قریش کے مجمع عام میں سورہ نجم کی تلاوت فرمائی اور کافر و مومن سب آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے، تو حبش کے مہاجرین تک یہ قصہ اس شکل میں پہنچا کہ کفار مکہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ اس خبر کو سن کر ان میں سے کچھ لوگ شوال 5 نبوی میں مکہ واپس آ گئے۔ مگر یہاں آ کر معلوم ہوا کہ ظلم کی چکی اسی طرح چل رہی ہے جس طرح پہلے چل رہی تھی۔ آخر کار دوسری ہجرت حبشہ واقع ہوئی جس میں پہلی ہجرت سے بھی زیادہ لوگ مکہ چھوڑ کر چلے گئے۔

اس طرح یہ بات قریب قریب یقینی طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ یہ سورت رمضان 5 نبوی میں نازل ہوئی۔

تاریخی پس منظر

زمانہ نزول کی اس تفصیل سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کیا حالات تھے جن میں یہ سورت نازل ہوئی۔ ابتدائے بعثت کے بعد سے پانچ سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف نجی صحبتوں اور مخصوص مجلسوں ہی میں اللہ کا کلام سنا سنا کر لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دیتے رہے تھے۔ اس پوری مدت میں آپ کو کبھی کسی مجمع عام میں قرآن سنانے کا موقع نہ مل سکا تھا، کیونکہ کفار کی سخت مزاحمت اس میں مانع تھی۔ ان کو اس امر کا خوب اندازہ تھا کہ آپ کی شخصیت اور آپ کی تبلیغ میں کس بلا کی کشش اور قرآن مجید کی آیات میں کس غضب کی تاثیر ہے۔ اس لیے وہ کوشش کرتے تھے کہ اس کلام کو نہ خود سنیں، نہ کسی کو سننے دیں اور آپ کے خلاف طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلا کر محض اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کے زور سے آپ کی دعوت کو دبا دیں۔ اس غرض کے لیے ایک طرف تو وہ جگہ جگہ یہ مشہور کرتے پھر رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہک گئے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے درپے ہیں۔ دوسری طرف ان کا یہ مستقل طریقِ کار تھا کہ جہاں بھی آپ قرآن سنانے کی کوشش کریں وہاں شور مچا دیا جائے تاکہ لوگ یہ جان ہی نہ سکیں کہ وہ بات کیا ہے جس کی بنا پر آپ کو گمراہ اور بہکا ہوا آدمی قرار دیا جا رہا ہے۔

ان حالات میں ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حرم پاک میں، جہاں قریش کے لوگوں کا ایک بڑا مجع موجود تھا، یکا یک تقریر کرنے کھڑے ہو گئے اور اس وقت اللہ تعالٰی کی طرف سے آپ کی زبانِ مبارک پر یہ خطبہ جاری ہوا جو سورہ نجم کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کلام کی شدت تاثیر کا یہ حال تھا کہ جب آپ نے اسے سنانا شروع کیا تو مخالفین کو اس پر شور مچانے کا ہوش ہی نہ رہا اور خاتمے پر جب آپ نے سجدہ فرمایا تو وہ بھی سجدے میں گر گئے۔ بعد میں انھیں سخت پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ ہم سے کیا کمزوری سر زد ہو گئی اور لوگوں نے بھی انھیں اس پر مطعون کرنا شروع کیا کہ دوسروں کو تو یہ کلام سننے سے منع کرتے تھے، آج خود اسے نہ صرف کان لگا کر سنا بلکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ سجدہ بھی کر گذرے۔ آخر کار انھوں نے یہ بات بنا کر اپنا پیچھا چھڑایا کہ صاحب ہمارے کانوں نے افرءیتم اللٰت و العزٰی، و منٰوۃ الثالثۃ کے بعد محمد کی زبان سے یہ الفاظ سنے تھے تلک الغرانقۃ العلٰی، و ان شفاعتھن لترجٰی (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت ضرورت متوقع ہے)، اس لیے ہم نے سمجھا کہ محمد ہمارے طریقے پر واپس آ گئے ہیں، حالانکہ کوئی پاگل آدمی ہی یہ سوچ سکتا تھا کہ اس پوری سورت کے سیاق و سباق میں ان فقروں کی بھی کوئی جگہ ہو سکتی ہے جو ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے کانوں نے سنے ہیں۔

موضوع اور مضمون

تقریر کا موضوع کفار مکہ کو اُس رویے کی غلطی پر متنبہ کرنا ہے جو وہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابلے میں اختیار کیے ہوئے تھے۔

کلام کا آغاز اس طرح فرمایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہکے اور بھٹکے ہوئے آدمی نہیں ہیں، جیسا کہ تم ان کے متعلق مشہور کرتے پھر رہے ہو اور نہ اسلام کی یہ تعلیم اور دعوت انھوں نے خود اپنے دل سے گھڑ لی ہے، جیسا کہ تم اپنے نزدیک سمجھے بیٹھے ہو، بلکہ جو کچھ وہ پیش کر رہے ہیں وہ خالص وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔ جن حقیقتوں کو وہ تمھارے سامنے بیان کرتے ہیں وہ ان کے قیاس و گمان کی آفریدہ نہیں بلکہ ان کی آنکھوں دیکھی حقیقتیں ہیں۔ انھوں نے اس فرشتے کو خود دیکھا ہے جس کے ذریعے سے ان کو یہ علم دیا جاتا ہے۔ انھیں اپنے رب کی عظیم نشانیوں کا براہ راست مشاہدہ کرایا گیا ہے۔ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں سوچ کر نہیں دیکھ کر کہہ رہے ہیں۔ ان سے تمھارا جھگڑنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی اندھا آنکھوں والے سے اس چیز پر جھگڑے جو اسے نظر نہیں آتی ہے اور آنکھوں والے کو نظر آتی ہے۔

اس کے بعد علی الترتیب تین مضامین ارشاد ہوئے ہیں :

  • اولاً سامعین کو سمجھایا گیا ہے جس دین کی تم پیروی کر رہے ہو اس کی بنیاد محض گمان اور من مانے مفروضات پر قائم ہے۔ تم نے لات اور منات اور عزٰی جیسی چند دیویوں کو معبود بنا رکھا ہے، حالانکہ الوہیت میں برائے نام بھی ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ تم نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے رکھا ہے، حالانکہ خود اپنے لیے تم بیٹی کو عار سمجھتے ہو۔ تم نے اپنے نزدیک یہ فرض کر لیا ہے کہ تمھارے یہ معبود اللہ تعالٰی سے تمھارے کام بنوا سکتے ہیں، حالانکہ تمام ملائکہ، مقربین مل کر بھی اللہ سے اپنی کوئی بات نہیں منوا سکتے۔ اس طرح کے عقائد جو تم نے اختیار کر رکھے ہیں، ان میں سے کوئی عقیدہ بھی کسی علم اور دلیل پر مبنی نہیں ہے، بلکہ کچھ خواہشات ہیں جن کی خاطر تم بعض اوہام کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہو۔ یہ ایک بہت بڑی بنیادی غلطی ہے جس میں تم لوگ مبتلا ہو۔ دین وہی صحیح ہے جو حقیقت کے مطابق ہو اور حقیقت لوگوں کی خواہشات کی تابع نہیں ہوا کرتی کہ جسے وہ حقیقت سمجھ بیٹھیں وہی حقیقت ہو جائے۔ اس سے مطابقت کے لیے قیاس و گمان کام نہیں دیتا، بلکہ اس کے لیے علم درکار ہے، وہ علم تمھارے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو تم اس سے منہ موڑتے ہو اور الٹا اس شخص کو گمراہ ٹھیراتے ہو جو تمھیں صحیح بات بتا رہا ہے۔ اس غلطی میں تمھارے مبتلا ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ تمھیں آخرت کی کوئی فکر نہیں ہے،بس دنیا ہی تمھاری مطلوب بنی ہوئی ہے۔ اس لیے نہ تمھیں علم حقیقت کی کوئی طلب ہے، نہ اس بات کی کوئی پروا کہ جن عقائد کی تم پیروی کر رہے ہو وہ حق کے مطابق ہیں یا نہیں۔
  • ثانیاً لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ ہی ساری کائنات کا مالک و مختار ہے۔ راست رو وہ ہے جو اس کے راستے پر ہو اور گمراہ وہ جو اس کی راہ سے ہٹا ہوا ہو۔ گمراہ کی گمراہی اور راست رو کی راست روی اس سے چھپی ہوئي نہیں ہے۔ ہر ایک کے عمل کو وہ جانتا ہے اور اس کے ہاں لازماً برائی کا بدلہ برا اور بھلائی کا بدلہ بھلا مل کر رہنا ہے۔ اصل فیصلہ اس پر نہیں ہونا کہ تم اپنے زعم میں اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو اور اپنی زبان سے اپنی پاکیزگی کے کتنے لمبے چوڑے دعوے کرتے ہو، بلکہ فیصلہ اس پر ہونا ہے کہ خدا کے علم میں تم متقی ہو یا نہیں۔ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو تو اس کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ چھوٹے چھوٹے قصوروں سے وہ درگزر فرمائے گا۔
  • ثالثاً دین حق کے وہ چند بنیادی امور لوگوں کے سامنے پیش کیے گئے ہیں جو قرآں مجید کے نزول سے صدہا برس پہلے حضرت ابراہیم اور حضرت موسٰی علیہم السلام کے صحیفوں میں بیان ہو چکے تھے، تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نیا اور نرالا دین لے آئے ہیں، بلکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ یہ وہ اصولی حقائق ہیں جو ہمیشہ سے خدا کے نبی بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ اس کے ساتھ انہی صحیفوں سے یہ بات بھی نقل کر دی گئی ہے کہ عاد اور ثمود اور قوم نوح اور قوم لوط کی تباہی اتفاقی حوادث کا نتیجہ نہ تھی بلکہ اللہ تعالٰی نے اسی ظلم و طغیان کی پاداش میں ان کو ہلاک کیا تھا جس سے باز آنے پر کفار مکہ کسی طرح آمادہ نہیں ہو رہے ہیں۔

یہ مضامین ارشاد فرمانے کے بعد تقریر کا خاتمہ اس بات پر کیا گیا ہے کہ فیصلے کی گھڑی قریب آ لگی ہے جسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہے۔ اس گھڑی کے آنے سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے ذریعہ سے تم لوگوں کو اسی طرح خبردار کیا جا رہا ہے جس طرح پہلے لوگوں کو خبردار کیا گیا تھا۔ اب کیا یہی وہ بات ہے جو تمھیں انوکھی لگتی ہے؟ جس کی تم ہنسی اڑاتے ہو؟ جسے تم سننا نہیں چاہتے اور شور مچاتے ہو تاکہ کوئی اور بھی اسے نہ سننے پائے؟ اپنی اس نادانی پر تمھیں رونا نہیں آتا؟ باز آجاؤ اپنی اس روش سے، جھک جاؤ اللہ کے سامنے اور اس کی بندگی کرو۔

یہی وہ مؤثر خاتمۂ کلام تھا جسے سن کر کٹے سے کٹے منکرین بھی ضبط نہ کر سکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کلام الٰہی کے یہ فقرے ادا کر کے سجدہ کیا تو وہ بھی بے اختیار سجدے میں گر گئے۔