اسلام آباد میں سید پور گاؤں دامنِ کوہ کے قریب مارگلہ پہاڑی کی ڈھلوان پر واقع ہے۔ لگ بھگ پانچ صدیاں قبل 1530ء میں مرزا فتح علی نے اس گاؤں کی بنیاد ڈالی تو اس کا نام فتح پور باؤلی رکھا گیا۔ سید پور ویلج کی تاریخ بہت قدیم بیان کی جاتی ہے اور اس کا ذکر ہندوؤں کی قدیم ترین کتب میں بھی ملتا ہے۔ راجا محمد عارف منہاس اپنی کتاب ”پاکستان کے آثار قدیمہ‘‘ میں لکھتے ہیں: ”خطہ پوٹھوہار میں ہندوؤں کے تین متبرک تیرتھ ہیں، سید پور، ٹلہ جوگیاں اور راج کٹاس۔‘‘ کشمیری دانشور اوپ ٹالا کے مطابق سید پور کے مقام پر سنسکرت کی پہلی یونیورسٹی قائم ہوئی تھی جہاں رام، سیتا اور لکشمن بن باس کے دوران آئے تھے۔ آج بھی سید پور میں رام سیتا اور لچھمن کنڈ موجود ہیں۔ اس تالاب سے دو نہریں نکلتی تھیں ایک کو ہندو اور دوسری کو مسلمان استعمال کرتے تھے۔ تاریخ میں درج ہے کہ یہاں پر رام جی، سیتا جی، لکشمن جی اور ہنومان جی نے بن باس کے دوران قیام کیا۔ ہندوستان سے مغلوں کو شیر شاہ سوری کے ہاتھوں جب دیس بدر کیا گیا تو یہاں کے گکھڑوں نے اپنی وفاداریاں نہ بدلیں۔ مغل بادشاہ ہمایوں اس وفاداری کا صلہ دینے کے لیے زندہ نہ رہا لیکن اس کے بیٹے جلال الدین محمد اکبر نے باپ کا قرض اتارا اور یہ گاؤں سلطان سید خاں گکھڑ کو شیر شاہ سوری کے خلاف ڈٹے رہنے کی خدمات کے عوض دان کر دیا۔ یوں فتح پور باؤلی سید پور ہو گیا۔ تاریخ میں اس گاؤں کی خوب صورتی کے حوالوں میں بہتی ندی، چشموں اور پھلوں کے باغات کا ذکر ملتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں جس کا بھی اس بستی سے گذر ہوا وہ اسے دل دے بیٹھا۔ شہزادہ سلیم ابھی نور جہاں کی محبت میں گرفتار نہیں ہوا تھا جب اس نے کابل کی مہم پر جاتے ہوئے اس گاؤں میں پڑاؤ ڈالا۔ یہ اس گاؤں کے حسن کا جادو تھا یا سیاسی مجبوری لیکن ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس نے سید خاں گکھڑ کی بیٹی سے شادی بھی کی تھی۔ اکبر کا مشہور جرنیل مان سنگھ 1580ء میں کابل جا تے ہوئے راولپنڈی میں ٹھہرا تو سید خان نے اسے سید پور آنے کی دعوت دی۔ مان سنگھ سید پور کے نظاروں سے بہت متاثر ہوا. اس نے سید خان کو تجویز دی کہ اگر یہاں ایک مندر بنایا جائے تو اس کے اخراجات وہ برداشت کرے گا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں یہاں ہندوؤں کی خاصی آبادی ہوئی ہو گی۔ چنانچہ نہ صرف یہاں مندر بلکہ دو کمروں پر مشتمل دھرم شالہ بھی بنایا گیا اور اس کے ساتھ گزرنے والے چار نالوں کو بھی پختہ کیا گیا جو مارگلہ کے دامن سے پھوٹتے تھے اور چشموں کا پانی لیے ہوئے نیچے کی زمینوں کو سیراب کرتے تھے۔ اس وقت یہ نالے ”رام کنڈ‘‘، ”لکشمن کنڈ‘‘، ”سیتا کنڈ‘‘ اور ”ہنو مان کنڈ‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ بعد ازاں راولپنڈی کے ایک متمول تاجر بسنت رام نے یہاں ایک آشرم بنوایا اور دھرم شالہ کی بھی توسیع کرائی۔ اس کے علاوہ جن جن افراد نے اس تعمیر نو میں چندہ دیا ان کے نام آج بھی یہاں فرش پر کندہ ہیں۔ تقسیم کے وقت جب ہندو یہاں سے جانے لگے تو مندر کا انتظام و انصرام رام لال، رادھو اور دیوان کے پاس تھا جو جاتے ہوئے مندر سے لکشمی اور کالی کی مورتیاں ساتھ لے گئے تھے۔ راولپنڈی کے گزٹ 1893ء میں لکھا ہے کہ ”سید پور گاؤں جو مارگلہ کے دامن میں اپنے خوب صورت چشموں کی وجہ سے مشہور ہے، وہاں ایک سالانہ ہندو میلہ رام کنڈ کے آستانے پر ہوتا ہے جس میں کم و بیش 8 ہزار لوگ شرکت کرتے ہیں۔‘‘

گاؤں میں ایک بڑے دروازے سے داخل ہوں تو ساتھ ساتھ آرٹ اینڈ کرافٹ کی چند دکانیں نظر آتی ہیں۔ اس سے ذرا آگے 3 گنبدوں والی قدیم مسجد ہے۔ یہ مسجد کب تعمیر ہوئی؟ معلوم نہیں، لیکن گاؤں کے بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے یہ مسجد موجود تھی۔ مسجد کے پرانے گنبد آج بھی قائم ہیں لیکن جگہ کم پڑ جانے کی وجہ سے پرانی مسجد کے ساتھ نیا ہال تعمیر کر لیا گیا ہے۔ مسجد کے آگے چھوٹا سا میدان ہے جو اب گاڑیوں کی وسیع پارکنگ کے کام آتا ہے۔ اسی پارکنگ کے پار بائیں جانب ایک چھوٹا سا احاطہ ہے، جس میں یہی دو منزلہ عمارت مان سنگھ کا دھرم شالہ ہے۔ اس احاطہ میں دھرم شالہ کے علاوہ جامن کے پیڑ کے سائے تلے جھانسی دیوی کا مندر ہے۔ مقامی لوگ اس مندر کی تعمیر بھی راجا مان سنگھ کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن ضلع راولپنڈی کا 1894ء کا گزٹ کچھ اور روایت بیان کرتا ہے۔ اس گزٹ کے مطابق یہ مندر اس وقت لگ بھگ سو سال پہلے تعمیر ہوا تھا۔

حوالہ جات ترمیم