شارب ردولوی
پروفیسر ڈاکٹر شارب ردولوی (پیدائش: یکم ستمبر 1935ء - وفات: 18 اکتوبر 2023ء ) بھارت سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ادبی نقاد، محقق اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی میں شعبہ اردو کے پروفیسر تھے۔ اپنے علمی وادبی سفر کے آغاز ہی میں ڈاکٹر شارب ردولوی ترقی پسند تحریک سے منسلک ہو گئے تھے۔ سجاد ظہیر، احتشام حسین، علی سردار جعفری اور دیگر احباب کے زیر اثر وہ اشترا کی فکر سے بھی قریب رہے ہیں۔
شارب ردولوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 ستمبر 1935ء رودولی ، اتر پردیش ، برطانوی ہند |
وفات | 18 اکتوبر 2023ء (88 سال) لکھنؤ ، بھارت |
شہریت | برطانوی ہند بھارت |
عملی زندگی | |
مادر علمی | لکھنؤ یونیورسٹی |
تعلیمی اسناد | پی ایچ ڈی |
ڈاکٹری مشیر | احتشام حسین |
پیشہ | استاد جامعہ ، ادبی نقاد ، محقق |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
ملازمت | دیال سنگھ کالج، دہلی ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمشارب ردولوی یکم ستمبر 1935ء کو رودولی، اترپردیش، برطانوی ہندوستان میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام مسیب عباس تھا لیکن شارب ردولوی کے قلمی نام سے شہرت پائی۔ان کے والد حکیم حسن عباس اور دادا حکیم غلام حسین کا شمارہ فارسی و عربی کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔ دورانِ تعلیم انہوں نے پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب، پروفیسر احتشام حسین، پروفیسر نور الحسن ہاشمی اور پروفیسر آل احمد سرور کے علم سے استفادہ کیا۔ انہوں نے 1965ء میں پروفیسر احتشام حسین کی نگرانی میں جدید اردو تنقید:اصول و نظریات کے عنوان سے مقالہ لکھ کر لکھنؤ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ اس سے قبل شارب ردولوی کا دہلی یونیورسٹی کے دیال سنگھ کالج میں بہ حیثیت لکچرر تقرر ہو چکا تھا۔ نومبر 1975ء سے مئی 1979 ء تک وزارت تعلیم و سماجی بہبود حکومت ہند کے ترقی اردو بیورو میں پرنسپل پبلی کیشن افسر کی حیثیت سے کام کیا۔ 1979ء میں وہاں سے مستعفی ہو کر دیال سنگھ کالج، دہلی واپس آگئے۔ 12 جنوری 1990 ء کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی کے ہندوستانی زبانوں کا مرکز میں بحیثیت ریڈر ان کا تقرر ہوا۔ 15 ستمبر 1993ء کو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ہندوستانی زبانوں کا مرکز میں پروفیسر مقرر ہوئے اور وہیں سے 2000ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ ان کے ادبی سفر کا آغاز ایک تخلیقی فن کار کی حیثیت سے ہوا۔ بچپن ہی سے ان کا رجحان شاعری کی طرف تھا۔ ان کے استاد مولوی حبیب الرحمن نے جو خود ایک اچھے شاعر تھے، ان میں شعری ذوق پیدا کیا۔ ابتداء ہی سے ان میں ناموزوں، موزوں اشعار کی شناخت کا شعور موجود تھا۔ ملک کے مختلف علاقوں کی متعدد شعری محفلوں میں شرکت بھی کی۔[1] عمدہ شعری ذوق رکھنے کے باوجود شارب ردولوی کی ادبی حلقے میں شناخت ایک ممتاز تنقید نگار کی حیثیت سے ہوئی۔ دراصل دوران تعلیم ہی پروفیسر احتشام حسین کی صحبت میں ان کا تنقیدی شعور نہ صرف بیدار ہو چکا تھا۔ ان کا تحقیقی مقالہ بھی ادبی تنقید ہی سے متعلق تھا۔ تعلیمی مصروفیات کے ساتھ ان کی علمی مصروفیات کا بھی آغاز ہو چکا تھا۔ پہلا مضمون روزنامہ سیاست ( کانپور) میں شائع ہوا تھا۔ ان کی ابتدائی نگارشات روز نامہ قومی آواز (لکھنؤ) ماہنامہ نیا دور (لکھنؤ)، ہفت روزہ آثار (کلکتہ) میں شائع ہوتی رہیں۔ ڈاکٹر شارب نے اپنی طالب علمی کے زمانے ہی میں 1955ء میں لکھنو یونی ورسٹی سے ایک پندرہ روزه اخبار پاسبان طلبہ نکالا تھا جو 1956 ء میں کسی سبب بند ہو گیا۔ اسی سال کچھ عرصہ بعد روز نامہ اردو (لکھنو) کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ ان کے متعد د ادبی اور تنقیدی مضامین، مقالے، ریویو مختلف رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی پہلی تصنیف مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر 1959ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر مطبوعات میں گل صدرنگ (1960ء)، جگر فن اور شخصیت (1961ء)، افکار سودا (1961ء)، جدید اردو تنقید : اصول و نظریات (1968ء)، مطالعۂ ولی (1972ء) ، تنقیدی مطالعے (1984ء)، آزادی کے بعد دہلی میں اردو تنقید (1991ء)، انتخاب غزلیات سودا (1992ء)، اردو مرثیه (دوسرا ایڈیشن 1993ء)، ترقی پسند شعری فکر اور اردو شعراء، مرثیہ اور مرثیہ نگار، معاصر اردو تنقید: مسائل و میلانات (1994ء)، تنقیدی مباحث (1995ء)، ہندوستانی ادب کے معمار اسرار الحق مجاز اور تنقیدی عمل شامل ہیں۔ اپنی تصنیفی مصروفیات کے علاوہ ڈاکٹر شارب علمی وادبی تقریبات میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔ انہوں نے پچاس سے زائد ملکی و بین الاقوامی کانفرنسوں، سیمیناروں میں شرکت کی ہے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کے عوض انہیں ادبی اکادمیوں اور تعلیمی اداروں نے اعزازات و انعامات سے نوازا ہے۔ وہ خود متعدد تعلیمی اداروں اور کمیٹیوں کے فعال رکن رہے ہیں ۔ انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے مختلف پروگراموں میں شرکت کے علاوہ فلموں کے اسکرپٹ بھی لکھتے ہیں۔[2]
اہل علم کی آراء
ترمیم” | ڈاکٹر شارب ردولوی کا شمار سید احتشام حسین کے تلاندہ ارشد میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اُردو تنقید میں سائنٹفک تجزیہ اور معروضی طرز فکر کو رواج دیا جو احتشام حسین کے تنقیدی اسلوب کا امتیازی عصر رہا ہے۔ قدیم ادب کے نمونے ہوں یا جدید اور معاصر ادب کے رجحانات وہ یکساں سہولت سے ان کا جائزہ لیتے ہیں اور اکثر صحیح نتائج تک پہنچتے ہیں۔ (پروفیسر قمر رئیس) | “ |
وفات
ترمیمڈاکٹر شارب ردولوی 18 اکتوبر 2023ء کو اپولو ہسپتال، لکھنؤ، بھارت میں انتقال کر گئے۔ [3][4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ڈاکٹر نکہت ریحانہ، شاب ردولوی، مشمولہ: ترقی پسند ادب کے معمار، ترتیب و مقدمہ: قمر رئیس، سٹی بک پوائنٹ کراچی، 2013ء، ص 309
- ↑ ڈاکٹر نکہت ریحانہ، شارب ردولوی، مشمولہ: ترقی پسند ادب کے معمار، ص 310
- ↑ مجتبیٰ حسین (22 اکتوبر 2023ء)۔ "شارب ردولوی کا روم روم لکھنؤ کی تہذیب کاساختہ، پرداختہ اور پروردہ ہے"۔ روزنامہ انقلاب، بھارت
- ↑ "Sharib Rudaulvi, Urdu poet, critic and flag-bearer of Ganga-Jamuni tehzeeb, passed away" (بزبان انگریزی)۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 19 اکتوبر 2023ء