شاکر علی (مصور)
پروفیسر شاکر علی (انگریزی: Shakir Ali) (پیدائش: 6 مارچ،1914ء - وفات: 27 جنوری، 1975ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے نامور مصور، خطاط، پاکستان میں تجریدی مصوری اور تجریدی خطاطی کے بانی اور نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل تھے۔
پروفیسر شاکر علی | |
---|---|
ستارۂ امتیاز | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 6 مارچ 1914 ء رام پور، برطانوی ہندوستان |
وفات | جنوری 27، 1975 لاہور، پاکستان |
ء
قومیت | پاکستانی |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصور |
وجہ شہرت | مصوری، خطاطی |
صنف | تجریدی مصوری، تجریدی خطاطی |
اعزازات | |
صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی ستارہ امتیاز |
|
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمشاکر علی 6 مارچ، 1914ء کورام پور، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ مصوری کی ابتدائی تعلیم جے جے اسکول آف آرٹس، بمبئی سے حاصل کرنے کے بعد وہ انگلستان چلے گئے جہاں انھوں نے فن مصوری کا تین سالہ کورس مکمل کیا۔ انھیں کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصور آندرے لاہوتے (Andre L'Hote) کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ 1951ء میں پاکستان آ گئے اور 1952ء میں میو اسکول آف آرٹس لاہور سے وابستہ ہو گئے جو بعد میں نیشنل کالج آف آرٹس کہلانے لگا۔ 1961ء میں وہ اسی کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور 1973ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔[1]
شاکر علی پاکستان میں تجریدی مصوری کے ساتھ ساتھ تجریدی خطاطی کے بانیوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے آیات قرآنی کو تجریدی انداز میں لکھنے کی جو بنا ڈالی اسے بعد ازاں محمد حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، اسلم کمال، شفیق فاروقی، نیر احسان رشید، اسماعیل گل جی اور شکیل اسماعیل نے بام عروج تک پہنچا دیا۔[1]
اعزازات
ترمیمحکومت پاکستان نے شاکر علی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں14 اگست، 1966ء کو صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی اور 1971ء میں ستارہ امتیاز عطا کیا[1]۔ پاکستان پوسٹ نے شاکر علی کی 100 سالہ جشن پیدائش کے موقع پر 10روپیہ مالیت کے ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا۔
وفات
ترمیمشاکر علی 27 جنوری، 1975ء کو لاہور، پاکستان میں وفات پا گئے اور لاہور میں گارڈن ٹاؤن (احمد بلاک) کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔[1] اور ان کی گارڈن ٹاون (ٹیپو بلاک) والی رہائش گاہ کو شاکر علی میوزیم میں بدل دیا گیا ہے
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت ص 403، پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء