شمس الدین سبزواری
آپ کا نام حضرت سید شمس الدین سبزواریؒ ہے لقب شمس الفقرا جبکہ والد کا نام سید صلاح الدینؒ ہے آپکاسلسلہ نسب حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام تک جا ملتا ہے۔آپ اولاد حضرت اسماعیل ؑ بن امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں مگر عقیدے کے لحاظ سے قطعا اسماعیلی نا تھے آپ اثنا عشریہ عقیدہ رکھتے تھے اور اسی کی تبلیغ فرمائی ، آپ کی کوششوں سے ہزاروں افراد نے شیعہ اثناء عشری عقائد کو قبول کیا اور آج بھی آپ کی اولاد و مریدین اسی عقیدے پر قائم ہیں
آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے حضرت سید شمس الدین محمد سبزواری ؒ بن حضرت سید صلاح الدین محمد نور بخشؒ بن حضرت سید اسماعیل ثانی ؒ بن حضرت سید علی مومن سبزواریؒ بن حضرت سید علی عرف خالدالدین ؒ بن حضرت سید محب الدین سبزواریؒ بن حضرت سید محمودسبزواریؒ بن حضرت سید محمد ؒ بن حضرت سید ہاشم علی ؒ بن حضرت سید احمد ہادیؒ بن حضرت سید منتظر باللہ ؒ بن حضرت سید عبد المجید ؒ بن حضرت سید غالب الدینؒ بن حضرت سید محمد منصور خاقانی ؒ بن حضرت سید اسماعیل ثانی ؒ بن حضرت سید محمد عریضی ؒ بن حضرت امام زادہ اسماعیل علیہ السلام بن حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام بن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بن امام علی زین العابدینؑ بن حضرت امام حسین علیہ السلام بن حضرت امام علی علیہ السلام
پیدائش اور تعلیم
ترمیمآپؒ کی پیدائش 560ھ مطابق 1165ء سبزوار میں ہوئی جس کی نسبت سے سبزواری کہلائے۔آپ ؒکے والد بزرگوار حضرت سید صلاح الدین محمدؒسبزوری اپنے زمانے کے ولی کامل مبلغ دین حق اور مجتہد وقت تھے۔آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی سیدہ فاطمہ ؒتھا ۔ آپؒ کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری آپؒ کے چچا حضرت سید عبد الہادیؒ کے سپرد کی گئی انھوں نے آپ کو بڑی توجہ سے تفسیر، حدیث اور دیگر علوم ظاہریہ کی تعلیم دی۔ 579ھ/1183ء میں جب آپ کے والد سید صلاح الدین محمد ؒ تبلیغ کے لیے بدخشاں روانہ ہوئے تو سید شمس الدین محمد سبزواریؒ کو بھی اپنے ساتھ لیتے گئے اور اُس وقت آپ کی عمر 19 سال تھی۔۔[1]
تبلیغ
ترمیمبدخشاں میں تبلیغ کے بعد تبت کوچک چلے گئے اور لوگوں کو اسلام کا درس دیا۔ وہاں سے کشمیر کا رخ کیا جہاں آفتاب پرستی عام تھی۔ حضرت سید صلاح الدین محمدؒ سبزواری اور حضرت سید شمس الدین سبزواریؒ کی کوششوں سے ہزاروں افراد نے شیعہ اثناء عشری عقائد کو قبول کر لیا۔ 586ھ/1190ء میں آپ واپس سبزوار چلے۔ [2]
ازدواج
ترمیم586ھ/1190ء میں سبزوار واپسی کے بعد نکاح کیا اور دو فرزند پیدا ہوئے جن کے نام سید نصیر الدین محمد اور سید علاؤ الدین احمد تھے۔ حضرت اید علاؤ الدین احمد زندہ پیر کے لقب سے مشہور ہوئے۔[2]
تبریز میں اقامت
ترمیمشمس الدین سبزواری کو تبریز نہایت پسند تھا، چنانچہ 600ھ/1204ء میں اپنے والد کی اجازت سے تبریز چلے گئے اور وہاں کے متعدد مقامات پر تبلیغ میں مصروف رہے۔ اسی وجہ سے آپ ؒ سرکار کو تبریزی بھی کہا جاتا ہے۔سرکار شمسؒ کو تبریز اس وجہ سے پسند تھا کیونکہ وہاں آپ کو اپنے جد حضرت علی علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی تھی جس کا احوال آپ نے اپنے اشعار میں کچھ یوں فرمایا۔
ہر کہ علیؑ را شناخت وانکہ خدا را شناخت
جس شخص نے علی ؑ کی معرفت پا لی اس نے اللہ کی معرفت کو پا لیا
راہبر ابن راہ شد ہا والے راہ واں خویش
وہ مسافروں کو راہ دکھانے والا بن گیا
شمس بہ تبریز دید حضرت عالی او
شمسؒ نے تبریز میں حضرت علی ؑ کی زیارت کی
سجدہ ہر دوم بدم بردر رحمان خویش
اس لیے ہر دم رحم کرنے والے کے در پر سجدہ بجا لاتا ہوں
اسماعیلی سرگرمیاں اور ملتان آمد
ترمیم- مزید پڑھیں: ہلاکو خان
1256ء میں تاتاری حکمران ہلاکو خان نے خوارزم کی فتوحات کے دوران قلعہ الموت پر بھی لشکر کشی کی اور رکن الدین خورشاہ، اسماعیلی پیشوا کو قتل کروا دیا جس سے اسماعیلی تبلیغ کی سرگرمیاں ختم ہوگئیں جبکہ 1258ء میں خلافت عباسیہ تاتاریوں کے ہاتھوں ختم ہوئی۔ سیاسی طور پر دنیائے اسلام میں سنی عقائد کی ترجمانی عام تھی اور اِسی عقائد کے برخلاف حضرت سید صلاح الدین کو اُن کے شیعہ اثنا عشری عقائد کی بنا پر 664ھ/1266ء میں قتل کر دیا گیا۔ والد کے قتل کے بعد شمس الدین سبزواری ہجرت پر مجبور ہو گئے اور بغداد چلے آئے جہاں خلافت عباسیہ کے خاتمے کے بعد طوائف الملوکی عام ہو چکی تھی۔ اِن دنوں احمد تکودارفرمانروائے عراق تھا۔بغداد میں علمائے وقت کو آپ کے شیعہ عقائد سے اختلافات ہو گئے، چنانچہ علمائے وقت کے اس اختلاف کے پیش نظر احمد تکودار شاہ عراق نے شاہی حکم کے تحت انھیں شہر بدر کر دیا۔ بغداد کے بعد کاظمین چلے آئے اور کچھ عرصہ قیام کرکے ہندوستان کی سرحد سے داخل ہوتے ہوئے 664ھ کے اختتام/1266ء میں ملتان پہنچے۔ ملتان میں اسماعیلوں کا اقتدار کئی برس تک رہا تھا، اگرچہ جن دنوں حضرت سید شمس الدین سبزواری ملتان آئے، تب تک اسماعیلی حکومت ختم ہو چکی تھی لیکن پھر بھی اعتقادی کشش یہاں باقی تھی۔ آپ کی کوششوں سے ہزاروں ہندو گھرانے شیعہ اثنا عشریہ اعتقاد کو قبول کرتے ہوئے مسلمان ہو گئے
وفات
ترمیمشمس الدین سبزواری کی وفات 114 سال کی عمر میں 28 صفر 674ھ مطابق 3 مارچ 1276ء کو ملتان میں ہوئی۔ مرقد پر دربار 1330ء میں تعمیر کیا گیا جو مربع نما ہے اور اس کی بلندی 30 فٹ ہے، وسط میں ایک بلند گنبد ہے جس پر سبز کاشی کار مزین کام کیا گیا ہے۔یہ مزار دریائے راوی کی پرانی گزرگاہ کے قریب قلعہ ملتان کے مشرق میں نصف میل کے فاصلہ پر واقع تھا، امتدادِ زمانہ کے باعث دریائے راوی اپنا مقام بدل گیا۔یہ مزارکا علاقہ عام و خاص باغ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
غلط العام روایت
ترمیم- مزید پڑھیں: شاہ شمس تبریزی
عوام میں آپ کا نام شاہ شمس تبریزی کی نسبت سے شمس تبریزی مشہور ہے جو صریحاً غلط ہے۔ آپ سبزواری ہیں۔ محمد دین فوق مؤلف کتاب شمس تبریز نے لکھا ہے کہ:
" مولانا شمس تبریز کے والد بزرگوار کا نام علاؤ الدین تھا اور ملتان والے شمس سبزواری ہیں، اُن کا نام شمس تبریزی نام غلط مشہور ہو گیا ہے، دراصل اُن کا نام مخدوم شمس الدین محمد سبزواری تھا، سبزواری سبزوار (علاقہ غزنی) میں امام جعفر الصادق کے بیٹے اسماعیل کی اولاد سے 560ھ میں پیدا ہوئے۔[3][4]