صابر ظفر

شاعر، نغمہ نگار

صابر ظفر (پیدائش:12 ستمبر، 1949ء) پاکستان کے نامور شاعر ہیں جن کے گیتوں اور غزلوں پر پاکستان کے مشہور گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔

صابر ظفر

معلومات شخصیت
پیدائش 12 ستمبر 1949ء (75 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کہوٹہ ،  راولپنڈی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ رئیس امروہوی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  نغمہ نگار ،  غنائی شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

صابر ظفر 12 ستمبر، 1949ء کو کہوٹہ، راولپنڈی، پاکستان میں عبد الرحیم کے گھر پیدا ہوئے۔ انھوں نے شاعری کی ابتدا 1968ء سے کی۔ صابر ظفر نے دوسال بذریعہ ڈاک رئیس امروہوی سے اصلاح لی۔ ماہنامہ اپنی زمین میں کچھ عرصہ بطور معاون مدیر کام کیا۔[2]

ادبی خدمات

ترمیم

صابر ظفر عہد حاضر کے ایک اہم غزل گو شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں دو مختلف جہتیں ہیں۔ روایتی غزل ان کا بنیادی حوالہ ہے اور گیت نگاری میں بھی انھیں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔[3]

صابر ظفر حساس دل اور سادہ طبیعت کے مالک ہیں، ان کی غزلیں غلام علی، منی بیگم، نیرہ نور، گلشن آرا سید نے گائیں۔ گیت گانے والے گلوکاروں میں نازیہ حسن، زوہیب حسن، محمد علی شہکی، سجاد علی، شہزاد رائے، نجم شیراز، حدیقہ کیانی، فاخر، راحت فتح علی خان، شفقت امانت علی خان، وقار علی اور دیگر شامل ہیں۔ صابر ظفر کے لکھے ہوئے درجنوں گیت پاکستانی ڈراموں کے ٹائٹل سونگ بن چکے ہیں جنہیں بہت مقبولیت ملی، ان میں سرفہرست میری ذات ذرہ بے نشاں ہے۔ دو قومی گیتوں کو بھی بہت شہرت ملی، پہلا ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار تھا، جو 1996 کا ٹائٹل سونگ، دوسرا ہالی وڈ کی فلم جناح کا ٹائٹل سونگ تھا۔[3]

صابر ظفر غزل کی روایت کو مضبوط کرنے والے عہد حاضر کے شعرا میں ایک نمایاں شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں زندگی اپنی تلخ حقیقتوں کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔[3]

تصانیف

ترمیم
  • ابتدا
  • دُھواں اور پھول
  • پاتال
  • جتنی آنکھیں اچھی ہوں گی
  • دریچہ بے صدا کوئی نہیں
  • لہو ترنگ
  • دُکھوں کی چادر
  • بارہ دری میں شام
  • عشق میں روگ ہزار
  • ایک تری یاد رہ گئی باقی
  • بے آہٹ چلی آتی ہے موت
  • چین اک پل نہیں
  • اپنے رنگوں میں ڈوب جانے والے
  • محبت کا نیل کنٹھ
  • کوئی لو چراغ قدیم کی
  • نامعلوم
  • پرندوں کی طرح شامیں
  • محبت دور کی آواز تھی
  • سانول موڑ مہاراں
  • زنداں میں زندگی امر ہے
  • خاموش بدن کی خود کلامی
  • ہر چیز کلام کر رہی ہے
  • ستارہ وار سخن
  • آئینوں کی راہداریاں
  • اباسین کے کنارے
  • غزل خطاطی
  • صندل کی طرح سلگتے رہنا
  • سب اپنے خیال کی دھنک
  • غزل اندر غزل
  • گردش مرثیہ
  • پلکوں میں پروئی ہوئی رات
  • سر بازار می رقصم
  • جمال ماورائے جسم و جاں
  • رانجھا تخت ہزارے کا
  • اساطیر کم نما
  • آوارگی کے پر کھلے
  • غزل نے کہا
  • لہو سے دستخط
  • شہادت نامہ
  • مذہب عشق (کلیات)

نمونۂ کلام

ترمیم

غزل

میں نہ چاہوں کسی فانی میں فنا ہوجانا تم اگر ملنا مجھے، میرے خدا ہوجانا
بول بن جاؤں کوئی، گیت کوئی بن جاؤں چاہتا ہوں ترے ہونٹوں سے ادا ہوجانا
ایک احساس رفاقت کو سُبک رکھتا ہےکبھی خوشبو تو کبھی تیرا ہَوا ہوجانا
رنگِ تنہائی لپکتا ہے تمہیں چَھونے کو ہو اگر بس میں تمہارے تو جُدا ہوجانا
اب خموشی کی سزا ملتی رہے گی شاید ہے مکّرر تو کٹھن کُن کی صدا ہوجانا
دلِ وحشی کا چلن ورنہ بغاوت ہے ظفر عشق سکھلاتا ہے راضی بہ رضا ہوجانا

غزل

کوئی تو ترکِ مراسم پہ واسطہ رہ جائےوہ ہم نوا نہ رہے صورت آشنا رہ جائے
میں سوچتا ہوں مجھے انتظار کس کا ہےکواڑ رات کو گھر کا اگر کُھلا رہ جائے
کسے خبر کہ اسی فرش ِ سنگ پر سو جاؤں مِرے مکاں میں بستر مرا بچھا رہ جائے
ظفر ہی بہتری اس میں کہ میں خموش رہوں کُھلے زبان تو عزت کسی کی کیا رہ جائے​

غزل

اِسی لیے کبھی خُوش ہیں کبھی ہیں مُضطر ہم کسی کو یاد نہیں اور کسی کو ازبر ہم
ہمارے حال کو پُہنچے اگر، تو جانے کوئی غُبارِ غم سے نہاں ہیں درُونِ منظر ہم
خُدا ہو چاہے صنم، سب کچھ اپنے آپ میں ہے اور اپنے آپ میں رہتے نہیں ہیں اکثر ہم
یہ نم گرفتہ و لُکنت زدہ، ہمارا سُخن قبُول کر کہ تِری حمد کے ہیں خُوگر ہم​
بشکلِ ہجرتِ دائم روانہ ہونا ہے ظفر لپیٹ کے رکھنے لگے ہیں بستر ہم

غزل

نہ ترا خدا کوئی اور ہے نہ مرا خدا کوئی اور ہےیہ جو قسمتیں ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے
ترا جبر ہے مرا صبر ہے تری موت ہے مری زندگی مرے درجہ وار شہید ہیں، مری کربلا کوئی اور ہے
کئی لوگ تھے جو بچھڑ گئے کئی نقش تھے جو بگڑ گئے کئی شہر تھے جو اجڑ گئے، ابھی ظلم کیا کوئی اور ہے
نہ تھا جس کو خانہ خاک یاد ہوا نذر آتش و ابر و باد کہ ہر ایک دن دن سے الگ ہے دن جو حساب کا کوئی اور ہے​
ہوئے خاک دھول تو پھر کھلا یہی بامراد ہے قافلہ وہ کہاں گئے جنہیں زعم تھا کہ راہ وفا کوئی اور ہے
یہ ہے ربط اصل سے اصل کانہیں ختم سلسلہ وصل کا جو گرا ہے شاخ سے گل کہیں تو وہیں کھلا کوئی اور ہے
وہ عجیب منظر خواب تھا کہ وجود تھا نہ سراب تھا کبھی یوں لگا نہیں کوئی اور، کبھی یوں لگا کوئی اور ہے
کوئی ہے تو سامنے لائیے ، کوئی ہے تو شکل دکھائیے ظفر آپ خود ہی بتائیے، مرے یار سا کوئی اور ہے

حوالہ جات

ترمیم