عائشہ بنت یوسف باعونیہ مرشدہ اور صوفی شاعرہ تھیں، یہ قرون وسطی کی پہلی خاتون صوفی شاعرہ تھیں،[1] وہ بیسویں صدی کی دیگر خواتین کی بہ نسبت بجا طور پر سب سے زیادہ عربی کلام لکھنے والی خاتون ہیں،[2] ان کی تحریروں میں ادبی صلاحیت، ان کے خاندان کا صوفیانہ رجحان صاف جھلکتا ہے۔ دمشق میں پیدا ہوئیں اور وہیں وفات پائیں، حالانکہ کا ان آبائی اصلی وطن اردن کا "باعون" شہر ہے، اسی کی طرف نسبت کی وجہ سے باعونیہ کہا جاتا ہے۔

عائشہ باعونیہ
(عربی میں: عائشة بنت يُوسُف الباعونية ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1460ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دمشق   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 21 دسمبر 1516ء (55–56 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دمشق   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ ادیب ،  شاعرہ ،  مصنفہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک تصوف   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالاتِ زندگی ترمیم

عائشہ باعونیہ کے والد یوسف (مولود 805/1402 قدس، متوفی 880/1475 دمشق) صفد، طرابلس، حلب اور دمشق کے قاضی القضاۃ تھے اور اپنے مشہور خاندان "باعونی" کے اہم رکن تھے۔ پندرہویں صدی عیسوی کے مشہور علما، فقہا اور شعرا میں شمار ہوتا تھا۔ عائشہ باعونیہ نے ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد محترم اور خاندان کے دوسرے ذی علم حضرات سے حاصل کیا، ان سے قرآن، حدیث، فقہ اور شعر پڑھا، آٹھ سال کی عمر سے پہلے ہی قرآن کو حفظ کر لیا تھا۔

عائشہ نے صوفی جمال الدین اسماعیل ہواری اور ان کے خلیفہ محی الدین یحیی اورماوی سے ملاقات کی اور ان سے روحانی فیض حاصل کیا، دونوں مرشد پندرہویں اور سولہویں صدی کے مشہور اور عظیم مرشد تھے۔

سنہ 1475 عیسوی میں عائشہ باعونیہ نے مکہ کا سفر کیا اور حج ادا کیا۔

عائشہ باعونیہ کی شادی احمد بن محمد بن نقیب اشرف (متوفی 909/1503) سے ہوئی، جو دمشق کے مشہور علمی خاندان "علید" سے تھے۔ ان سے دو اولاد، ایک لڑکا عبد الوہاب اور ایک لڑکی برکت ہوئی۔

قاہرہ میں ترمیم

سنہ 919 ہجری مطابق 1513 عیسوی میں عائشہ اور ان کے بیٹے دمشق سے قاہرہ ہجرت کر گئے، پھر 923ھ/1517ء میں دمشق واپس آ گئے۔ مصر جانے کا مقصد بیٹے کے عملی میدان کی حفاظت کرنا تھا، راستے میں "بلبیس" کے قریب ڈاکوؤں کے گروہ نے انھیں لوٹ لیا اور سارا سامان جس میں عائشہ کی کتابیں بھی شامل تھیں سب کو چھین لیا۔ قاہرہ میں ماں اور بیٹے محمود بن محمد بن اجا کی ضیافت میں تھے، جو مملوکی سلطان الاشرف قانصوہ غوری کے خاص معتمد اور وزیر خارجہ تھے۔ ابن اجا نے علمی اور فکری حلقوں میں شامل کرنے کے لیے عائشہ کی بہت مدد کی، عائشہ نے ان کے لیے ایک تعریفی قصیدہ بھی تحریر کیا تھا۔ قاہرہ میں عائشہ نے قانون کی تعلیم حاصل کی، انھیں قانون کی تعلیم دینے اور شرعی قوانین (فتاوی) جاری کرنے کا اجازت نامہ (لائسنس) میں ملا تھا اور ایک فقیہہ کی حیثیت مل گئی۔

وفات ترمیم

سنہ 922ھ مطابق 1516ء میں سلطان الاشرف قانصوہ غوری کی حلب میں جنگ مرج دابق میں شکست کے بعد عائشہ، اپنے بیٹے، ابن اجا، شمس سفیری اور دوسرے علما کے ساتھ قاہرہسے رخصت ہو گئیں۔ یہ ان کی زندگی کا غیر معمولی حادثہ تھا۔ عائشہ باعونیہ دمشق واپس چلی گئیں، جہاں سنہ 923ھ مطابق 1517ء میں وفات ہوئی۔

علمی کارنامے ترمیم

عائشہ باعونیہ بیسویں صدی کی سب سے زیادہ لکھنے والی خاتون ہیں، تھامس ایمیل ہومرین کے مطابق عائشہ کے بیشتر کام ابھی تک نا معلوم ہیں، پھر بھی جو کام منظر عام پر آئے ہیں ان میں سب کچھ یہ ہیں:

  • دیوان الباعونیہ
  • درر الغائص فی بحر المعجزات و الخصائص
  • الفتح الحقی من فیح التلقی
  • الفتح المبین فی مدح الامین
  • الفتح القریب فی معراج الحبیب
  • فیض الفضل و جمع الشمل
  • فیض الوفا فی اسماء المصطفی
  • الاشارات الخفیہ فی منازل العالیہ
  • مدد الودود فی مولد المحمود
  • الملامح الشریفہ فی الآثار اللطیفہ
  • المورد الاہنی فی المولد الاسنی
  • المنتخب فی اصول الرتب
  • القول الصحیح فی تخمیس بردۃ المدیح
  • صلاۃ السلام فی فضل الصلاۃ و السلام
  • تشریف الفکر فی نظم فوائد الذکر
  • الزبدۃ فی تخمیس البردہ

حوالہ جات ترمیم

  1. قطب الدين، طاهرة. Women Poets).pdf، في حضارة القرون الوسطى الإسلامية:موسوعة، طبعة من جوزيف و. ميري، جزئين (نيو يورك: روتليدج، 2006),  II 865-67 (صفحة 866) آرکائیو شدہ 7 فروری 2014 بذریعہ وے بیک مشین
  2. "'A'isha al-Ba'uniyya"۔ Wikipedia (بزبان انگریزی)۔ 2017-06-05۔ 10 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ  page 390