عبد الکریم خان
استاد عبد الکریم خان (انگریزی: Abdul Karim Khan) (پیدائش: 11 نومبر، 1882ء - وفات: 27 اکتوبر، 1937ء) سنگیت رتن کا خطاب پانے والے کیرانہ گھرانے کے شہرۂ آفاق ہندوستانی کلاسیکی گائیک تھے۔ انھیں سنگیت کے روحانی منصب کا احساس ودیعت ہوا تھا۔ انھوں نے تعصب سے رہا ہو کر اپنے گانے میں اسلامی روحیانیت اور ہندو روحانیت کو باہم یک جان کیا۔[1] ان کے شاگردوں میں پنڈت سوائی گندھرو، سریش بابو، استاد وحید خان، حفیظ اللہ خان، ہیرا بائی بروڈکر، روشن آرا بیگم وغیرہ شامل ہیں۔
سنگیت رتن | |
---|---|
استاد عبد الکریم خان | |
अब्दुल करीम खाँ | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 11 نومبر 1872ء کیرانہ، مظفر نگر، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان |
وفات | 27 اکتوبر 1937 | (عمر 54 سال)
قومیت | ہندوستان |
اولاد | سوریش بابو مانے ، ہیرابائی بڑودکر ، سراسوتی رانی |
عملی زندگی | |
پیشہ | استاد موسیقی ، گلو کار |
وجہ شہرت | کلاسیکی گلوکاری |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی و فن
ترمیمعبد الکریم خاں صاحب 11 نومبر، 1882ء کو کیرانہ، مظفر نگر، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[2]۔ کیرانہ کا قصبہ کوروکھیشتر کے قریب واقع ہے جہاں کوروں اور پانڈوؤں میں جنگ ہوئی تھی۔ ان کے والد کالے خان صاحب سارنگی میں اپنا مقام رکھتے تھے۔ موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ والد کی ناگہانی وفات کے بعد استاد عبد اللہ خان اور پھر استاد حیدر خان سے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے[3]۔ ابتدائی 1908ء میں عبد الکریم خان مہاراجا بڑودا کے درباری گائیک ہو گئے۔ وہیں شاہی خانوادے کی تارہ بائی سے عشق ہو گیا۔ دونوں کو بڑودہ چھوڑ کر بمبئی میں پناہ لینا پڑی۔ اس دوران انھوں نے موسیقی کی تعلیم کے باقاعدہ ادارے قائم کیے۔ پونے کے قریب میرج میں مستقل سکونت پزیر ہوئے۔ دربارِ ریاست میسور سے سنگیت رتن کا خطاب پایا۔ 1922ء میں تارہ بائی نے استاد عبد الکریم سے علاحدگی اختیار کی۔ جس گلے سے سُر کا چشمہ بہتا تھا اس پہ ب رہا کے گز کا باریک تار پھرگیا، استاد کی گائیکی میں ملال اور سوز کی لکیریں گہری ہوگئیں۔[3]
عبد الکریم خاں صاحب نے سُر لگانے کا انوکھا طریقہ ایجاد کیا جس سے سُر میں ایک پُر ہیبت گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ اس طریقے کا گُر یہ ہے کہ آواز پورا دہانہ پھاڑ کر نہ نکالی جائے، دہن صرف اتنا کھلے کہ گلے سے آواز سرسوتی بین کی آواز کی طرح ایک باطنی گونج بن کر نکلے اور یوں احساس ہو کہ یہ آواز جذبے کی مہیب اور پراسرار گہرائیوں سے آ رہی ہے۔ اس ترکیب سے کیرانہ گھرانے کے اونچے مدھ سا میں انھوں (عبد الکریم خاں صاحب) نے گمبھیریا پیدا کی اور اسے شاندار بنا دیا۔[4]
خاں صاحب گیانیوں کی تلاش میں رہتے تھے۔ کرناٹک کے راگیوں سے بھی ان کے روابط تھے اور ان سے انھوں نے کرناٹک کے راگ اخذ کر کے شمالی ہندوستان میں رائج کیے، ان میں گورکھ کلیان، ابھوگی اور ہنس دھن بے حد دلآویز راگ ہیں۔[4]
استاد عبد الکریم خاں صاحب رابندر ناتھ ٹیگور کے ساتھ شعر کی نزاکتوں اور فزکس میں نوبل انعام یافتہ سی وی رامن سے موسیقی کے صوتیاتی اصولوں پر علمی مکالمہ کیا کرتے تھے۔ استاد عبد الکریم کی گائیکی میں الوہی کیفیت تھی، سرگم کی چتر کاری میں وارفتگی اور عبودیت میں فاصلہ نہیں رہتا تھا۔ گاتے وقت استاد کریم کی سر ور کی کیفیت سننے والوں پر یوں اترتی تھی جیسے کوئی عارف اپنے پیروکاروں میں گیان کے موتی بانٹتا ہے۔ استاد عبد الکریم وسطی ہندوستان کے پہلے گائیک تھے جنھوں نے جنوبی ہند کی راگ ودیا کو سمجھا بھی اور اپنی گائیکی میں سمویا بھی[3]۔ عبد الکریم خاں صاحب کی مخملیں آواز تھی اور جو جھلمل کمخواب میں ہوتی ہے، ان کی آوز میں بھی تھی۔ اس گنگاجمنی آواز میں مسلم اور ہندو تہذیبیں گھل مل کر موجزن تھیں۔[5]
ان کے مرغوب راگوں میں تلنگ، بھیرویں، شنکرا، بھیم پلاسی، جھنجوٹی، ماروا، بسنت، درباری، مالکوس، گوجری، کومل رکھب آساوری اور ابھوگی کانڑاشامل ہیں۔[5]
وفات
ترمیم1937ء میں جنوبی ہندوستان کی یاترا پر تھے۔ ریل گاڑی میں طبیعت کچھ ناساز ہوئی۔ ایک گمنام سے اسٹیشن پر اتر پڑے اورٹالسٹائی کی طرح پلیٹ فارم پر 27 اکتوبر کو دم توڑ دیا[2]۔ ان کی شاگرد روشن آرا بیگم راوی تھیں کہ استاد کریم آخری وقت میں راگ درباری کے سروں میں کلمہ پڑھ رہے تھے۔ استاد فیاض خان کو خان صاحب عبد الکریم کے ناگہانی انتقال کی خبر ملی تو بے ساختہ کہا ہندوستان میں سُر مرگیا۔[3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ڈاکٹر داؤد رہبر: باتیں کچھ سُریلی سی، ص 35، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، 2001ء
- ^ ا ب "استاد عبد الکریم خان، آئی ٹی سی سنگیت ریسرچ اکیڈمی کولکتہ بھارت"۔ 01 اپریل 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2017
- ^ ا ب پ ت -مہا-گیانی-سر-یلے-نو-رتن-وجاہت-مسعود۔3778/ سنگیت رتن استاد عبد الکریم خان،وجاہت مسعود، القلم آن لائن فورم، پاکستان[مردہ ربط]
- ^ ا ب ڈاکٹر داؤد رہبر: باتیں کچھ سُریلی سی، ص 39، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، 2001ء
- ^ ا ب ڈاکٹر داؤد رہبر: باتیں کچھ سُریلی سی، ص 40، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، 2001ء