عبد السلام ندوی (پیدائش: 16 فروری 1883ء– وفات: 4 اکتوبر 1955ء) دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ کے اولین فارغ فضلا میں سے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی کے چہیتے شاگرد، مصنف، ادیب، شاعر اور مؤرخ تھے، دار المصنفین شبلی اکیڈمی کے بانیان میں سے تھے۔[1]

عبد السلام ندوی
معلومات شخصیت
پیدائش 16 فروری 1883ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعظم گڑھ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 4 اکتوبر 1955ء (72 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دار المصنفین شبلی اکیڈمی ،  اعظم گڑھ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم ندوۃ العلماء (1906–1910)  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ شبلی نعمانی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ادیب ،  مصنف ،  مورخ ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی اور تعلیم

ترمیم

عبد السلام ندوی اعظم گڑھ کے "موضع علاء الدین پٹی" میں 16 فروری 1883ء کو بروز جمعہ پیدا ہوئے، ان کے والد شیخ دین محمد فارسی، ہندی اور قدیم ہندوانہ حساب کے بڑے ماہر تھے، اسلامیات اور دینیات کے بھی خاصے عالم تھے، شرح جامی تک عربی تعلیم حاصل کی تھی۔ متوسط درجے کا زمیندار، کاشتکار اور تاجر خاندان تھا۔

عبد السلام ندوی نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی، اس کے بعد عربی کی تعلیم کے لیے کانپور، آگرہ اور غازی پور بھی گئے۔ متوسطہ کی تعلیم کے بعد 1906ء میں 23 سال کی عمر میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں درجہ پنجم میں داخلہ لیا۔ 1909ء میں تکمیل ادب میں داخلہ ہوا، 1910ء میں فراغت کے بعد وہیں عربی ادب میں استاد مقرر ہو گئے۔[2]

قلمی و تصنیفی زندگی

ترمیم

عبد السلام ندوی کے اندر شعر و ادب اور لکھنے پڑھنے کا ذوق بچپن سے تھا، علامہ شبلی نعمانی نے ان کی اس صلاحیت کو بھانپ لیا تھا اور تصنیف و تالیف کی بہترین تربیت کی تھی، شبلی نے ان کے متعلق پیشین گوئی کی تھی کہ وہ آگے چل کر اچھے مصنف ہوں گے۔ انھوں نے پہلا مضمون ندوہ میں داخلہ کے بعد ہی 1906ء میں "تناسخ" پر لکھا تھا، علامہ شبلی کو یہ مضمون اس قدر پسند آیا کہ انھوں نے بلا اصلاح کیے اس کو "الندوہ" رسالہ میں تعریفی نوٹ کے ساتھ شائع کیا اور پانچ روپئے انعام بھی دیا۔ فراغت کے بعد "الندوہ" کے سب ایڈیٹر پھر ایڈیٹر بنائے گئے۔ علامہ شبلی نے جب سیرت النبی کی تالیف کا کام شروع کیا تو مولانا عبد السلام کو اپنا لٹریری اسٹنٹ بنایا۔ منشی محمد امین مہتمم صیغۂ ریاست بھوپال عورتوں پر کتاب لکھنا چاہتے تھے اور علامہ شبلی سے رہنمائی اور مواد کے طالب تھے تو علامہ شبلی نے اس کے لیے مولانا عبد السلام ندوی کا نام پیش کیا اور لکھا کہ اگر انھیں کچھ مدت کے لیے بلا لیں تو پورا کام چل جائے گا، وہ وسیع النظر اور استخراج کا پورا ملکہ رکھتے تھے۔ 1912ء میں وہ شبلی نعمانی کے تربیت یافتہ اور اپنے رفیق مولانا ابو الکلام آزاد کے ساتھ "الہلال" کلکتہ سے وابستہ ہو گئے اور ڈیڑھ دو سال تک الہلال میں کام کرتے رہے۔ 1914ء میں جب الہلال کو بند کر دیا گیا اور اسی سنہ میں علامہ شبلی کی وفات بھی ہوئی تو وہ اپنے استاد کے خوابوں کی تکمیل کے لیے دار المصنفین شبلی اکیڈمی گئے اور وہاں سید سلیمان ندوی اور مسعود علی ندوی کے ساتھ اس کی تعمیر وترقی میں لگ گئے، ان کا شمار اس کے مؤسسین اور بانیین میں ہوتا ہے۔ ایک بہترین ادیب، مصنف اور محقق تھے، علامہ شبلی نعمانی سے خصوصی مناسبت اور تعلق تھا، علامہ نے اپنے بمبئی کے سفر میں انھیں کو ساتھ لیا تھا، ان کی تحریر میں علامہ شبلی کا طرز تحریر جھلکتا تھا۔[3]

مبصرین کی آرا

ترمیم
  • پرفیسر محمود الٰہی لکھتے ہیں:
علامہ شبلی نعمانی کی رفاقت جن دانشوروں کو نصیب ہوئی ان میں مولانا عبد السلام کو کئی جہتوں سے اہمیت حاصل ہے، انھوں نے دار المصنفین کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا، وہ فنا فی العلم تھے، انھیں مذہبیات پر پورا عبور حاصل تھا اور اردو زبان وادب کو پروان چڑھانے کا سلیقہ انھیں آتا تھا
  • حاجی معین الدین ندوی لکھتے ہیں:
ادب و انشا میں وہ نہایت ممتاز تھے، علامہ شبلی کی یہ وراثت ان کے حصہ میں زیادہ آئی تھی، چمنستان ادب میں ان کا قلم بڑا سبک خرام تھا، ذہن بڑا اخاذ پایا تھا، سرکاری مطالعہ سے کتابوں کا جوہر کھینچ لیتے تھے۔۔۔۔۔۔لیکن طبیعت شاعرانہ اور تخیل پرست تھی، ہلکے پھلکے مضامین کو وہ ادبی حسن ولطافت سے پورا کر دیتے تھے، قلم اتنا پختہ اور منجھا ہوا تھا کہ قلم برداشتہ لکھتے تھے اور لکھنے کے بعد مسودہ پر نظر ثانی اور حک واصلاح کی ضرورت بہت کم پیش آتی تھی۔[4]
  • مہدی افادی لکھتے ہیں:
شبلی تاریخ کے معلم اول تھے اور عبد السلام ندوی تاریخ ادب اردو کے معلم اول تھے
  • مولانا سعید انصاری لکھتے ہیں:
عبد السلام ندوی پہلے مصنف ہیں جنھوں نے باقاعدہ تصنیف کا کام سیکھا، انھوں نے طلبائے ندوہ میں سب سے پہلے مضمون نویسی پر انعام پایا، سب سے پہلے علامہ شبلی کا طرز تحریر اختیار کیا اور سب سے زیادہ کامیاب رہے

کتابیں

ترمیم

عبد السلام ندوی نے مختلف موضوعات پر سیکڑوں مضامین اور ہزاروں صفحات لکھا ہے، ان کی مستقل تصنیفات ایک درجن سے زائد ہیں، اہم تصانیف حسب ذیل ہیں:

  • اسوۂ صحابہ (دو جلدیں) 1922ء
  • اسوۂ صحابیات 1922ء
  • سیرت عمر بن عبد العزیز
  • حکمائے اسلام (دو جلدیں) 1956ء
  • شعر الہند (دو جلدیں)
  • اقبال کامل۔ 1929ء
  • امام رازی۔ 1953ء
  • تاریخ فقہ اسلامی (عربی کتاب "التشریع الاسلامی لمحمد خضری" کا ترجمہ)
  • ابن خلدون (عربی سے ترجمہ)
  • انقلاب الامم (عربی سے ترجمہ)
  • القضاء فی الاسلام۔ 1950ء
  • اسلامی قانون فوجداری۔ 1950ء
  • فقرائے اسلام
  • ابن یمین
  • التربیۃ الاسقلالیہ۔ 1926ء
  • تاریخ الحرمین الشریفین
  • شعر العرب
  • تاریخ التنقید

وغیرہ ان کی اہم کتابیں ہیں، اس کے علاوہ معارف اور دوسرے رسائل میں ان کے متنوع مضامین کی تعداد اس قدر ہے کہ صرف ان کے عنوانات کی فہرست کے لیے کئی صفحات درکار ہوں گے۔

وفات

ترمیم

مولانا عبد السلام ندوی کا انتقال 4 اکتوبر 1955ء کو دار المصنفین شبلی اکیڈمی کے احاطہ ہی میں ہوا اور اپنے استاد علامہ شبلی مرحوم سے متصل سرہانے مدفون ہیں۔

علمی کمالات واوصاف

ترمیم

مولانا عبد السلام کے اوصاف واخلاق پر ہم ان کے رفیق دار المصنفین حاجی معین الدین ندوی کی کتاب "ادبی نقوش" کے تفصیلی مضمون سے چنندہ عبارتیں اقتباس کی شکل میں پیش کرتے ہیں:

مولانا (عبد السلام ندوی) طبعاً خاموش، گوشہ نشین اور نام و نمود سے بے نیاز تھے اور اس کے جو مواقع بھی ان کو ملتے اس سے بھی فائدہ نہ اٹھاتے تھے، پروپیگنڈے کے فن سے تو بالکل ناواقف تھے۔ ان کا دائرہ عمل دار المصنفین کے اندر تالیف و تصنیف تک محدود رہا حتی کہ خالص علمی اجتماعات میں بھی تقریر، مقالہ خوانی یا صدارت کی نوبت شاید ہی کبھی آئی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا کا اصل ذوق ادب اور شعر و شاعری تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن اس ذوق کے باوجود شاعری ان کا مستقل مشغلہ نہ تھا، بلکہ کبھی کبھی تفنناً یا اعظم گڑھ کے مشاعروں کے لیے کہہ دیتے تھے۔۔۔۔۔۔۔

وہ ایک علمی مجذوب اور اپنی خصوصیات میں یگانہ تھے، وہ نہایت نیک سیرت، بے نفس اور مرنجا مرنج انسان تھے۔ ان کی ذات سے کبھی کسی کو ادنی تکلیف بھی نہیں پہنچی، حقوق العباد سے ان کا دامن اتنا پاک تھا کہ کسی کا ادنی حق بھی ان کے ذمہ نہ تھا، معاملات کے صاف تھے۔۔۔۔۔۔۔ بڑے قانع و بے نیاز تھے، حصول دنیا کی کبھی کوشش نہیں کی، شہرت سے دور بھاگتے تھے، مصنفین اور اہل قلم کے طبقہ میں ان کی جیسی بے نیازی کی مثال مشکل سے مل سکتی ہے۔ نہ کبھی اپنے بارے میں (باجودیکہ کے بے شمار کمالات تھے) نہ تو لکھا اور نہ کسی کو لکھنے کی اجازت دیتے، کہتے تھے: "میرے حالات ہی کیا ہیں اور مرنے کے بعد ان کو لکھنے سے کیا حاصل"۔

سیاست اور ریا ونفاق کے نام سے ناآشنا تھے، ان کا ظاہر وباطن ایک تھا جو دل میں وہی زبان پر، ان کی زندگی ایک کھلی کتاب تھی۔ سادہ اور صاف گو تھے۔ احترام اور مدارات کے لیے کسی بڑے اہتمام کے قائل نہ تھے، وہ اصلی احترام یہی سمجھتے تھے کہ ان سے کوئی ناگوار بار نہ کی جائے۔ وہ رسوم وقیود سے بے پروا اپنے حال میں مست و سرشار رہتے تھے، دار المصنفین کے احاطہ میں اکثر چلا کرتے تھے، رات میں ٹہل ٹہل کر اشعار پڑھتے، خصوصاََ چاندنی راتوں میں پوری رات جاگتے تھے، اکثر زیر لب باتیں کرتے رہتے۔۔۔۔ ذاتی مسائل کے علاوہ دنیا کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہ تھی، سیاست سے کوئی لگاؤ نہیں تھا،(صرف علمی، تصنیفی اور تحقیقی کاموں سے مطلب رکھتے تھے)۔ حتی کہ اخبار بھی محض وقت گزاری اور بیکاری کے مشغلہ کے طور پر دیکھتے تھے۔

بعض چیزوں میں قدامت پسند اور بعض میں جدت پسند تھے، جدید تمدن کی اکثر چیزوں کو پسند کرتے تھے، بعض پرانے طرز کے علما کے متعلق بڑی دلچسپ اور ظریفانہ رائیں رکھتے تھے اور ان پر بڑی دلچسپ تنقید کرتے تھے۔۔۔۔۔ انگریزی تمدن اور انگریزی حکومت کی شان وشوکت کی بنا پر انگریزوں کے بڑے مداح تھے اور حکمرانی انگریزوں پر ختم سمجھتے۔ ان کا ماننا تھا جس حکومت میں حسن انتظام، شان وشوکت، امن وامان اور خوش حالی ہو وہی اصلی حکومت ہے۔

ان میں بعض ایسے اوصاف تھے جو اس زمانہ میں ناپید ہیں، آج کل کتنے تسبیح ومصلی والے ایسے ہیں جن کا دامن حقوق العباد سے پاک اور معاملات میں صاف ہو اور جن سے کسی انسان کو ایذا نہ پہنچی ہو، مولانا عبد السلام صاحب کا دامن ان تمام معاملات میں معصوم بچوں کی طرح بے داغ تھا (باقی بشری کمزوریوں سے کوئی انسان بھی مستثنیٰ نہیں ہے)، ان کے ذمہ کسی کا ادنی حق بھی نہ تھا بلکہ اپنی حق تلفی پر بھی وہ خاموش رہتے تھے، ان کی ذات سے کسی کو ادنی تکلیف بھی نہیں پہنچی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "آرکائیو کاپی"۔ 2020-07-03 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-07-01
  2. ادبی نقوش از شاہ معین الدین احمد ندوی، ادارہ فروغ اردو لکھنؤ ستمبر 1960ء، بار اول، صفحہ 353
  3. ادبی نقوش از شاہ معین الدین احمد ندوی، صفحہ؛ 354، 355، 356
  4. ادبی نقوش از شاہ معین الدین احمد ندوی، ادارہ فروغ اردو لکھنؤ ستمبر 1960ء، بار اول، صفحہ 356-357