عبد الشکور لکھنوی

ہندوستانی عالم دین

مولانا عبد الشکور لکھنوی 23 ذی الحجہ 1293ھ بمطابق 8 جنوری 1877ء کو لکھنؤ سے 11 کلومیٹر دور "اودھ" کے تاریخی اورمردم خیز قصبہ "کاکوری" ضلع لکھنؤ بوقت صبح صادق مولوی حافظ ناظر علی صاحب کے گھر میں پیدا ہوئے ،آپ کی پیدائش کی خوش خبری حضرت مولانا عبد السلام ہنسوی صاحب (المتوفی1881ھ) نے پہلے ہی آپ کے والد ماجد کو دے دی تھی اور فرمادیا تھا کہ ان شاء اللہ تم کو ایک نیک فرزند عطا ہوگا، جس سے تمھارے گھر میں خیروبرکت ہوگی ۔ عقیقہ کے بعد حضرت شاہ صاحب ہنسوی ؒ نے اس بچہ پر باطنی توجہ بھی فرمائی اور کہا کہ بیج ڈال دیا گیا ہے اور ان شاء اللہ بار آور ہوگا۔ ان مبشرات کے ساتھ آپ کا بچپن گذرا،کم سنی کا زمانہ ختم ہوا اور سنِ شعور کو پہنچے تو والد ماجد نے اپنے پیر ومرشد حضرت شا ہ عبد السلام صاحب ؒ سے آپ کی بسم اللہ کرائی، اس موقع پر حضرت شاہ صاحب ؒ نے آپ کے لیے یہ دعا بھی فرمائی تھی "خدا تعالی برخور داررااز علومِ نا فعہ بہرہ و رگرداند" .

امام اہل سنت، مولانا
عبد الشکور لکھنوی
معلومات شخصیت
پیدائش 8 جنوری 1877ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کاکوری   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 21 مئی 1962ء (85 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فرقہ سنی
عملی زندگی
تلمیذ خاص عبد الحمید خان سواتی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت دار العلوم ندوۃ العلماء   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں سیرت خلفائے راشدین


تعلیم و تربیت

ترمیم

آپ کی ابتدائی تعلیم ضلع فتح پور میں ہوئی، قاعدہ بغدادی، پارہ عم اور فارسی کی چندابتدائی کتابیں مولوی عبد الوہاب ساکن ہنسوہ ضلع فتح پور سے پڑھیں ،اس کے بعد فارسی کی باقی کتب درسیہ مولانا سید مظہر حسین ؒ ، متوطن کوڑہ جہان آباد ضلع فتح پور سے شاہ وارث حسن کوڑوی کی رفاقت میں پڑھیں، انھوں نے بڑی توجہ اور دل سوزی سے پڑھایا اور فارسی لکھنے اور بولنے کی مشق بھی کرائی۔فارسی سے فراغت پانے کے بعد میزان،پنج گنج وزبدہ وغیرہ بھی وہیں پڑھیں، دوسری کتابیں مولوی سید تعشق حسین ؒ صاحب کوڑوی اور مولوی محمد یاسین خان صاحب ؒ ،ساکن گتنی ضلع پرتاب گڑھ سے تحصیل کوڑا اور فتح پور میں پڑھیں، اس کے بعد کچھ کتابیں فصول اکبری،شرح جامی،قطبی میرتک، فقہ میں شرح وقایہ اولین و ہدایہ آخرین، اصول فقہ میں اصول شاشی اور نور الانوار وغیرہ مختلف اساتذہ منجملہ مولا نا سید مظہر حسین صاحب ؒ سے ضلع فتح پور اور دیگر مقامات میں پڑھیں. آپ کے والد ماجد صاحب کو یہ بڑی تمنا تھی کہ آپ کو مسندِوقت علامہ ابو الحسنات ، مولانا عبد الحئی فرنگی محلی صاحب کی شاگردی میں دے دیں مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا ،چناں چہ1310ھ بمطابق1892ء میں جب آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے لکھنؤ پہنچے تو اس وقت حضرت مولانا فرنگی محلی صاحب رحمة اللہ علیہ وفات پاچکے تھے، لہذا ان کے شاگردِ رشید اور جانشین حضرت مولانا سید عین القضا ةصاحب کی خدمت میں آپ کی حاضری ہوئی ،اس طرح آپ اپنے اصلی مربی و استاد خصوصی مولانا سید عین القضاة صاحب ؒ کے حلقہٴ درس میں داخل کر دیے گئے۔ اس طرح مولانا عین القضاةصاحب ؒ کی خدمت میں رہ کر مسلسل سات سال تک آپ نے با ضابطہ بقیہ علوم وفنون کی تکمیل فرمائی.[1]

علم طب

ترمیم

علم طب کی تحصیل حکیم عبد الولی سے کی۔

تدریس

ترمیم

فراغت کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء میں تدریس پر مامور ہوئے اور ایک عرصہ تک پڑھاتے رہے۔ پھر لکھنؤ آکر اپنے استاد کے مدرسہ فارقیہ میں تدریس کرنے لگے اور ایک مدت تک پڑھاتے رہے۔ آپ نے لکھنؤ میں ایک تاریخی ادارہ قائم کیا جہاں فارض التحصیل علما کو مناظرے کی تربیت دی جاتی۔

بیعت و اجازت

ترمیم

آپ نے حضرت شاہ ابو احمد مجددی بھوپالی(خلیفہ شاہ عبد الغنی مجددی) کے ہاتھ پر بیعت کی اور خلافت حاصل کی۔

تصانیف

ترمیم

ان کی تصانیف میں مندرجۂ ذیل کتابیں بھی شامل ہیں:

  • علم الفقہ
  • ترجمہ اسد الغابہ
  • ترجمہ تاریخ طبری
  • ترجمہ ازالۃ الخفاء عن خلافت الخلفاء
  • مجموعہ تفسیر آیات الامامۃ و الخلافۃ
  • سیرت خلفاء راشدین
  • نفحۃ الجزیہ (سیرت النبیؐ کے موضوع پر)
  • سیرت الحبیب الشفیع من الکلام العزیز الرفیع

اہم کارنامے

ترمیم
  • اہل سنت اور صحابہ کرام کے دفاع میں کئی کامیاب مناظرے کیے۔
  • لکھنؤ میں دارالمبلغین قائم کیا اور مستند علما کو فرق باطلہ سے ٹکر لینے کے علمی انداز سکھائے۔
  • سینکڑوں علما نے آپ سے تربیت مناظرہ ٖحاصل کی۔

وفات

ترمیم

17 ذی قعدہ 1381ھ بمطابق 21 مئی 1962ء کو رحلت فرما گئے۔

حوالہ جات

ترمیم