مولانا سید شاہ وارث حسن کوڑوی کی پیدائش کوڑہ جہان آباد ضلع فتحپور میں مشہور بزرگ سید شاہ مخدوم قطب الدین سالار بڈھ کے خاندان میں ہوئ، آپ مولانا رشید احمد گنگوہی سے بیعت اور مجاز بیعت و ارشاد تھے۔ آپ تعلیم حاصل کرنے کے بعد لکھنؤ کی ٹیلہ والی مسجد (ٹیلہ شاہ پیر محمد) میں ہی درس و تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے۔[1] آپ کی مزار مبارک لکھنؤ کی ٹیلہ والی مسجد (ٹیلہ شاہ پیر محمد) میں موجود ہے۔

  • آپ کے مشہور خلفاء میں سید محمد ذوقی شاہ شامل ہیں، جنھوں نے آپ کے ملفوظات پر 276 صفحہ کی کتاب شمامۃالعنبر مرتب کی ہے
مضامین بسلسلہ

تصوف

واقعہ ترمیم

امام اہل سنت مولانا عبدالشکور فاروقی لکھنوی اور مولانا وارث حسن کوڑوی نے سید مظہر حسین عرف ملھن میاں سے کوڑہ جہان آباد میں فارسی درسیات کی تکمیل کی تھی، مولانا وارث حسن کوڑوی جب لکھنؤ تشریف لائے تو انھوں نے دیکھا کہ ان کے کوڑہ کے رفیق درس مولانا عبد الشکور فاروقی مستقل طور پر شیعوں کے خلاف علمی طریقہ سے خدمت انجام دے رہے ہیں، اسی زمانہ میں ایک واقعہ مولانا عبد الشکور فاروقی کی تکفیر کا بھی پیش آیا اور چونکہ مولانا وارث حسن کوڑوی مرجع خلائق تھے، اس لیے ان کے سامنے بھی یہ استفتاء پیش کیا گیا، جس کو آپنے یہ فرما کر مسترد کر دیا کہ "اگر مولانا عبد الشکور کافر ہو گئے تو پھر لکھنؤ میں کوئی مسلمان نہیں" نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ چاک کر کے پیش کرنے والے کے حوالے کر دیا۔ انہی حالات سے متاثر ہو کر مولانا وارث حسن نے مسند امام احمد بن حمبل اور مؤطا امام مالک سے خلفائے راشدین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی روایت کا انتخاب کیا اور ان کی شرح لکھنے کا آغاز فرمایا، مولانا کی یہ علمی خدمت اگر مکمل ہو کر طبع ہو جاتی تو ایک بڑا کارنامہ ہوتا، مگر افسوس کہ مولانا کی مشغولیت اور مصروفیت اس کام کی تکمیل میں حائل ہو گئی.

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم