عبد الصمد رحمانی

امارت شرعیہ کے دوسرے نائب امیر شریعت، محقق اور قلم کار

عبد الصمد رحمانی (1890ء- 1973ء) ایک ہندوستانی عالم دین، فقیہ، مصنف، محقق، مؤرخ، مجاہد آزادی اور امارت شرعیہ کے دوسرے نائب امیر شریعت تھے۔ دار العلوم دیوبند کے رکن شوریٰ اور خانقاہ رحمانی کے تاسیسی فرد تھے، یہ جمعیۃ علماء ہند کے نائب ناظم اور مسلم انڈپینڈنٹ پارٹی کے ذمہ دار اعلیٰ رہ چکے تھے۔

نائب امیر شریعت ثانی، مولانا

عبد الصمد رحمانی
ناظم، امارت شرعیہ
برسر منصب
1930
پیشروابو المحاسن محمد سجاد
نائب امیر شریعت ثانی
برسر منصب
1945 تا 1973ء
پیشروابو المحاسن محمد سجاد
ذاتی
پیدائش1890ء
بازید پور، پٹنہ، بہار، بھارت
وفات14 مئی 1973(1973-50-14) (عمر  82–83 سال)
مذہباسلام
قومیتہندوستانی
والدین
  • شیخ سخاوت حسین (والد)
مدرسہجامع العلوم کانپور
مدرسہ سبحانیہ الہ آباد
انوار العلوم گیا
بنیادی دلچسپیقرآن حدیث ، فقہ، رد فرق باطلہ
قابل ذکر کامامارت شرعیہ کی ترقی وترویج، نائب امیر شریعت کی حیثیت سے ہزاروں ملی فلاحی کام، چھپن سے زائد کتابوں کی تصنیف
اساتذہابو المحاسن محمد سجاد
مولانا قطب الدین غور غشتی
مولانا حکیم محمد صدیق باڑھ
مرتبہ
شاگرد

ولادت ترمیم

ان کی ولادت بازید پور قصبہ باڑھ ضلع پٹنہ میں ایک معزز گھرانے میں 1890ء عیسوی مطابق 1308 ہجری میں ہوئی۔ [1] [1]ان کی عمر پانچ سال کی ہوئی، تو ان کے والد محترم شیخ سخاوت حسین کا سایہء عاطفت سر سے اٹھ گیا، ان کی والدہ محترمہ بی بی صغریٰ نے پرورش و پرداخت کی، ان کی تعلیم کا عمدہ انتظام کیا۔ [2] [3]

ابتدائی تعلیم ترمیم

ان کی تعلیم کا آغاز گھر پر ہوا، نورانی قاعدہ اور ناظرہ قرآن گھر پر ہی پڑھا، تھوڑے بڑے ہوئے، تو یہ روز اپنے گھر بازید پور سے قصبہ باڑھ تک پڑھنے کے لیے مولانا حکیم محمد صدیق کے پاس جاتے، حاصل کی۔ [4]

عربی کی ابتدائی کتابیں ہدایہ النحو تک حکیم محمد صدیق صاحب سے ہی پڑھی، حکیم صاحب قصبہ باڑھ میں مطب چلاتے تھے۔ [2]

کانپور کا سفر ترمیم

ہدایۃ النحو کا سال 1909ء مطابق 1327 ھ تھا، [4] اسی سال درمیان میں تنہا گھر سے نکلے، کانپور کا ٹکٹ لے کر جامع العلوم کانپور پہنچ گئے اور یہیں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔[2]

الہ آباد کا سفر ترمیم

کانپور سے مدرسہ سبحانیہ الہ آباد میں وسط سال میں پہنچ گئے، جہاں اس وقت ابو المحاسن محمد سجاد کی تدریس کے سلسلے میں بڑی شہرت تھی، ابو المحاسن نے امتحان لے کر مدرسہ سے باہر ان کی تعلیم کا نظم فرمادیا، کافیہ تک پڑھنے کے بعد شرح جامی سے مولانا کے حلقہ درس میں شامل ہو گئے،[2] بہرحال 1911ء میں ابو المحاسن محمد سجاد کے ساتھ مولانا رحمانی گیا تشریف لائے، 1915ء میں دورۂ حدیث شریف سے فارغ ہوئے۔ [3] [4]

محمد علی مونگیری سے بیعت و خلافت ترمیم

مروجہ نصاب کی تکمیل کے بعد اصلاح قلب کی خاطر مولانا نے خود کو محمد علی مونگیری سے وابستہ کر لیا اور انھیں کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا اور روحانی فیض حاصل کی۔ [5]

خانقاہ رحمانی ترمیم

1916ء میں اپنے پیر و مرشد محمد علی مونگیری کی خواہش پر معقولات کی تعلیم چھوڑ کر اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے، [4] ابتدا میں ان کو کتب خانے کی ذمہ داری ملی، پھر افتاء کا اہم شعبہ انھوں نے سنبھالا اور فقہ و فتاویٰ کا کام احسن طریقے پر انجام دیا، جامعہ رحمانی قائم ہوا تو اس میں تدریسی فرائض بھی انجام دئے۔[6]

امارت شرعیہ میں آمد ترمیم

محمد علی مونگیری کے انتقال کے بعد 1927ء میں اپنے استاد ابو المحاسن سید محمد سجاد کی ایماء پر خانقاہ رحمانی سے پٹنہ امارت شرعیہ منتقل ہو گئے،[7] یہ امارت شرعیہ کے ناظم بنائے گئے، بعد میں افتاء کے فرائض انجام دئے، تحقیق و تصنیف کے میدان میں کام کیا، ابو المحاسن محمد سجاد کے انتقال کے بعد امارت شرعیہ کے نائب امیر منتخب ہوئے۔[6]

جمعیۃ علمائے ہند کے نائب ناظم ترمیم

جب جمیعۃ علما ہند نے سول نافرمانی( حرب سلمی) کی تجویز پاس کی اور اکابر علما کی گرفتاری شروع ہوئی تب یہ 14 اکتوبر 1930 ء میں جمیعۃ علما ہند کے نائب ناظم اور مرکزی دفتر کے ذمہ دار اعلیٰ مقرر ہوئے۔ [6] [8]

مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے ناظم ترمیم

1935 ء کے ایکٹ کے تحت جب1937ء میں الیکشن ہوا، تو ابو المحاسن محمد سجاد نے مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے نام سے ایک جماعت بنائی اور ساڑھے تین ماہ کے وزارت بھی بنائی، [7] اس پورے زمانے میں مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے دفتری امور کی ذمہ داری عبد الصمد رحمانی کے سپرد رہی۔[9]

نائب امیر شریعت ثانی ترمیم

ابو المحاسن محمد سجاد کے تقریباً چار سال بعد 8 ربیع الثانی 1364 ھ مطابق مارچ 1945ء کو یہ نائب امیر شریعت ثانی مقرر کیے گئے۔ [10]

دار العلوم دیوبند کے رکن شوریٰ ترمیم

1954 ء میں یہ دار العلوم دیوبند کے رکن شوریٰ منتخب ہوئے اور تا حیات اس منصب پر فائز رہے۔ [11]

تصنیفی خدمات ترمیم

مولانا کا اصل ذوق تصنیف و تالیف کا تھا، ان کی تمام تصانیف علمی جواہر پاروں اور تحقیقی شگوفوں سے پر ہیں، یہ فقہ اسلامی پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے، یہ تقریباً 56 کتابوں کے مصنف ہیں۔[4] ان میں چند قابل ذکر درج ذیل ہیں

  • کتاب الفسخ و التفریق
  • کتاب العشر و الزکوۃ
  • ازالہ شبہات از مسئلہ عشر و زکوٰۃ
  • اسلامی حقوق اور مسلم لیگ
  • ہندوستان اور مسئلہ امارت
  • اسلام میں عورت کا مقام
  • قرآن محکم
  • تیسیر القرآن
  • پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم
  • صحابہ کی انقلابی جماعت
  • حیات سجاد
  • تاریخ امارت[6]

وفات ترمیم

10 ربیع الثانی 1393ھ مطابق 14مئی 1973ء روز پیر ساڑھے گیارہ بجے دن خانقاہ رحمانی میں ان کا وصال ہوا، [12] 15 مئی 1973 ء میں ساڑھے نو بجے دن میں نماز جنازہ منت اللہ رحمانی نے پڑھائی اور خانقاہ رحمانی کی قبرستان میں ان کو سپرد خاک کیا گیا۔ [13]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب غالب شمس قاسمی (28 دسمبر 2022ء)۔ "مولانا عبد الصمد رحمانی کی حیات کا نقش نا تمام"۔ deoband online۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2023 
  2. ^ ا ب پ ت انیس الرحمن قاسمی۔ حیات سجاد (1998 ایڈیشن)۔ پٹنہ: شعبۂ نشر و اشاعت امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ۔ صفحہ: 27 
  3. ^ ا ب قاسمی 1998, p. 27.
  4. ^ ا ب پ ت ٹ غالب شمس قاسمی (25 دسمبر 2022ء)۔ "مولانا عبد الصمد رحمانی کی حیات کا نقش نا تمام"۔ abulmahasin.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2023 
  5. مفتی ثناء الہدی قاسمی (30 ستمبر 2022ء)۔ "مولانا عبد الصمد رحمانی"۔ qindeel۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2023 
  6. ^ ا ب پ ت عبد الصمد رحمانی۔ ہندوستان اور مسئلہ امارت (2015 ایڈیشن)۔ پٹنہ: شعبہ نشر و اشاعت امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ۔۔ صفحہ: 8 
  7. ^ ا ب عبد الصمد رحمانی۔ قرآن محکم (1966ء ایڈیشن)۔ دیوبند: مکتبہ دارالعلوم دیوبند ۔۔ صفحہ: 8–14 
  8. نظام الدین قاسمی۔ تذکرہ اکابر (2012 ایڈیشن)۔ نندوربار: جامعہ اشاعت العلوم اکل کواں۔۔ صفحہ: 179 
  9. رحمانی 2015, p. 8.
  10. ظفیر الدین مفتاحی۔ امارت شرعیہ دینی جد و جہد کا روشن باب (1974 ایڈیشن)۔ پٹنہ: شعبہ نشر و اشاعت امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ۔۔ صفحہ: 115 
  11. محمد اللّٰہ قاسمی۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (2020 ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی دار العلوم دیوبند۔۔ صفحہ: 756 
  12. رام نگری 1973, p. 1-8.
  13. شاہد رام نگری، مدیر (21 مئی 1973)۔ "یادگار سلف نائب امیر شریعت حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی کا وصال"۔ نقیب۔ پٹنہ: امارت شرعیہ۔ 15 (14): 1، 8، 10