عزیز احمد
پروفیسرعزیز احمد (پیدائش: 11 نومبر 1914ء - وفات: 16 دسمبر 1978ء) اردو کے مشہور ترقی پسند افسانہ نگار، ناول نگار اور پروفیسر تھے۔
عزیز احمد | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 11 نومبر 1914ء [1] بارہ بنکی ضلع ، برطانوی ہند |
وفات | 16 دسمبر 1978ء (64 سال)[2] ٹورانٹو ، کینیڈا |
شہریت | پاکستان [3] برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد |
پیشہ | مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
اعزازات | |
فیلو رائل سوسائٹی کینیڈا |
|
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیمپروفیسرعزیز احمد 11 نومبر 1914ء کو ضلع بارہ بنکی، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[4]۔[5] ان کے والد کا نام بشیر احمد تھا۔ وہ ایک اچھے وکیل تھے انھوں نے وکالت کے سلسلے میں ریاست حیدرآباد،دکن کا رُخ کیا تو پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ پروفیسرعزیزاحمدنے ابتدائی تعلیم ضلع عثمان آباد،مہاراشٹر میں مکمل کی۔گورنمنٹ کالج اورنگ آباد سے انٹر اور 1928ء میں جامعہ عثمانیہ سے ایف اے کیا۔1934ء میں اعزاز کے ساتھ بی اے (آنرز ) کیا۔ بعد ازاں مولوی عبدالحق کی کوششوں سے عزیز احمد کو اعلی تعلیم کے لیے وظیفہ ملا اوروہ 1935ء میں انگلستان چلے گئے ۔1938ء میں لندن یونیورسٹی سے بی اے (آنرز ) کی ڈگری لی۔ اور کچھ وقت یورپ کی سیروسیاحت میں گزارا۔ اسی عرصہ میں وہ فرانس کے سوربون یونیورسٹی سے بھی منسلک رہے۔ عزیز احمد 1941ء تا 1945ء شہزادی درشہوار کے پرائیوٹ سیکرٹری رہے۔ 1946ء میں وہ ایک بار پھر جامعہ عثمانیہ سے منسلک ہو گئے۔ اور اپنے گذشتہ ہدے پر کام کرنے لگے۔ 1949ء تک درس و تدریس میں مشغول رہے۔ 1949ء میں تقسیم ہند کے بعدء میں وہ استعفے ٰ دے کر پاکستان چلے گئے اور حکومت پاکستان کے فلم و مطبوعات کے محکمے کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ اس محکمے سے وہ 1957ء تک وابستہ رہے۔ 1957ء میں وہ لندن یونیورسٹی کے اسکول میں اردو اور ہندی اسلام کے شعبے میں لیکچر مقرر ہوئے۔ جہاں وہ 1962ء تک رہے۔ 1962ء میں وہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ہو کر ٹورنٹو یونیورسٹی (کینیڈا ) کے شعبہ اسلامیات سے وابستہ ہو گئے۔ 1965ء میں انھیں پروفیسر بنا دیا گیا اوروہ باقی عمر اسی عہدے پرکام کرتے رہے۔ ان کے کام کی اہمیت اور وقعت کے پیش نظر انھیں رائل سوسائٹی آف کینڈا کا فیلو مقرر کیا گیا۔ 1972ء میں یونیورسٹی آف لندن نے ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کو ڈی لٹ کی ڈگری سے نوازا۔ عزیز احمد کئی زبانیں جانتے تھے۔ اردو ،انگریزی فرانسیسی اور زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ جبکہ ترکی، اطالوی اور جرمن زبانوں میں گفتگو کر لیتے تھے۔ آخری عمر میں نارویجن زبان سیکھ رہے تھے۔ عزیز احمد کی پہلی تنقیدی تصنیف ’’ترقی پسند ادب ‘‘ہے۔ عمر کے آخری ایامّ کینیڈا میں ہی گذرے،16 دسمبر 1978ء کو وہیں انتقال ہوا۔[6]
ادبی زندگی
ترمیمعزیز احمد کی علمی و ادبی زندگی کا آغاز جامعہ عثمانیہ کی تعلیم کے دوران ہی ہوا۔ 1943ء میں ان کی تین اہم منظومات پر مشتمل ایک مجموعہ منظر عام پر آیا جس کا نام "ماہ لقا اور دوسری نظمیں" تھا۔
تقسیم ہند
ترمیمتقسیم ہند کے بعد 1949ء میں عزیز احمد پاکستان آ گئے۔ یہاں پر وہ محکمہ فلم اور پبلی کیشنز میں ڈائریکٹر اور حکومت کے دیگر مختلف اعلی عہدوں پرفائز رہے۔ محکمہ مطبوعات کی ملازمت کے دوران کئی اردو، انگریزی رسالے ان کے زیر انتظام پاکستان سے شائع ہوئے جن میں ماہ نو اور ہلال تھے۔ 1958ء میں عزیز احمد لندن چلے گئے اور اسلول آف اورینٹل میں پڑھانے لگے ۔1960ء میں وہ وہاں سے ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات سے منسلک ہو گئے اور آخر دن تک وہیں رہے۔ ان کی اہم تصانیف میں مختلف ناول شامل ہیں۔ جن میں گریز، مرمر اور خون، ہوس، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی اور شبنم ہیں۔
وفات
ترمیمعزیز احمد 16 دسمبر، 1978ء کوٹورانٹو، کینیڈا میں انتقال کر گئے او وہیں مدفون ہوئے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ https://www.rekhta.org/authors/aziz-ahmad
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — https://data.bnf.fr/ark:/12148/cb120665831 — اخذ شدہ بتاریخ: 31 دسمبر 2019 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — ناشر: فرانس کا قومی کتب خانہ — BnF catalogue général — اخذ شدہ بتاریخ: 27 مارچ 2017
- ↑ رؤف خیر (2012)۔ حق گوئی و بے باکی (ہارڈ بائنڈ) (تنقیدی مضامین)۔ دہلی: Educational Publishing House۔ صفحہ: 45-55۔ ISBN 978-93-5073-082-9 الوسيط
|pages=
و|page=
تكرر أكثر من مرة (معاونت) - ↑ عزیز احمد، کینیڈین انسائیکلوپیڈیا
- ↑ عزیز احمد۔ سوانح اور تصانیف از: طاہر سرور