سعد بن ابی وقاص

صحابہ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاتح ایران کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو زہرہ سے تھا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ننھیالی خاندان ہے اس لیے آپ رشتے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں زاد بھائی تھے۔ حمزہ بن عبدالمطلب کی والدہ آپ کی سگی پھوپھی تھیں۔ ہجرت مدینہ سے 30 برس پہلے پیدا ہوئے۔ نزول وحی کے ساتویں روز ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ترغیب دلانے پر مشرف با اسلام ہوئے۔ اور عمر بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ خصوصی کے فرائض انجام دیے۔

سعد بن ابی وقاص
(عربی میں: سعد بن أبي وقاص‎‎ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سعد بن أبي وقاص.png
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 595  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 674 (78–79 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گوانگژو[1]،  مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن گوانگژو[1]  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت Black flag.svg خلافت راشدہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عمر بن سعد  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ تاجر،  عسکری قائد  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری خلافت راشدہ  ویکی ڈیٹا پر (P945) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شاخ خلافت راشدہ کی فوج  ویکی ڈیٹا پر (P241) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عہدہ کمانڈر  ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام،نسب، خاندانترميم

سعدنام ،ابواسحق کنیت،والد کا نام مالک اورابووقاص کنیت والدہ کا نام حمنہ تھا، سلسلۂ نسب یہ ہے،سعد بن مالک بن وہیب بن عبدمناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن نضر بن کنانہ القرشی الزہری،چونکہ آنحضرت ﷺ کی نانہال زہری خاندان میں تھی، اس لیے حضرت سعد وقاص ؓ رشتہ میں آپ کے ماموں تھے،سرورِ کائنات ﷺ نے خود بھی بارہا اس رشتہ کا اقرار فرمایا تھا۔ [2]

اسلامترميم

حضرت سعدوقاص ؓ کا سنِ مبارک صرف انیس سال کا تھا کہ دعوتِ اسلام کی صدائے سامعہ نوازنے توحید کا شیدائی بنادیا، اورحضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوکر خلعتِ ایمان سے مشرف ہوئے۔ بخاری میں حضرت سعد ؓ سے روایت ہے کہ ان سے پہلے کوئی شخص مسلمان نہیں ہوا تھا اورایک دوسری روایت میں وہ اپنے کو تیسرا مسلمان بتاتے ہیں،لیکن محدثین عظام کی تحقیق کے مطابق چھ سات بزرگوں کو ان پر تقدم کا فخرحاصل ہوچکا تھا،البتہ یہ ممکن ہے کہ حضرت سعدوقاص ؓ کو ان کی اطلاع نہ ہو؛ کیونکہ کفار کے خوف سے انہوں نے اپنے ایمان لانے کا اعلان نہیں کیا تھا۔

استقامتترميم

حضرت سعد وقاص ؓ کی ماں نے لڑکے کی تبدیل مذہب کا حال سنا تو نہایت کبیدہ خاطر ہوئیں،بات چیت،کھانا پینا سب چھوڑ بیٹھیں،چونکہ وہ اپنی ماں کے حددرجہ فرماں بردار اوراطاعت شعار تھے،اس لیے یہ سخت آزمائش کا موقع تھا،لیکن جو دل توحید کا لذت آشنا ہوچکا تھا وہ پھر کفر وشرک کی طرف کس طرح رجوع ہوسکتا تھا،ماں مسلسل تین دن تک بے آب ودانہ رہیں، لیکن بیٹے کی جبینِ استقلال پر شکن تک نہ پڑی،خدائے پاک کو یہ شانِ استقامت کچھ ایسی پسند آئی کہ تمام مسلمانوں کے لیے معصیتِ الہیٰ میں والدین کے عدم اطاعت کا ایک قانون عام بنادیا گیا۔ [3]" وَاِنْ جَاہَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا"[4]

مکہ کی زندگیترميم

اسلام قبول کرنے کے بعد ہجرت نبوی ﷺ تک مکہ میں ہی مقیم رہے گویہ سرزمین عام مسلمانوں کی طرح ان کے لیے مصائب وشدائد سے خالی نہ تھی،تاہم استقلال کے ساتھ ہر قسم کی سختیاں جھلتے رہے۔ حضرت سعدوقاص ؓ کفار کے خوف سے عموماً مکہ کی ویران وسنسان گھاٹیوں میں چھپ کر معبود حقیقی کی پرستش وعبادت فرمایا کرتے تھے،ایک دفعہ ایک گھاٹی میں چند صحابہ ؓ کے ساتھ مصروف عبادت تھے،اتفاق سے کفار کی ایک جماعت اس طرف آنکلی، اوراسلام کا مذاق اُڑانے لگے، حضرت سعدوقاص ؓ کی اس بے بسی کی زندگی میں بھی جوش آگیااور اونٹ کی ہڈی اٹھاکر اس زور سے ماری کہ ایک مشرک کا سر پھٹ گیا،بیان کیا جاتا ہے کہ اسلام کی حمایت میں یہ پہلی خونریزی تھی جو حضرت سعدوقاص ؓ کے ہاتھ سے عمل میں آئی۔[5]

ہجرتترميم

مکہ میں جب کفار کے ظلم و ستم سے مسلمانوں کاپیمانہ صبرو تحمل لبریز ہو گیا توآنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو ہجرتِ مدینہ کا حکم دیا، اس حکم عام کی بنا پر حضرت سعد وقاص ؓ نے مدینہ کی راہ لی اوراپنے بھائی عتبہ بن ابی وقاص ؓ کے مکان میں فروکش ہوئے۔[6] جنھوں نے ایام جاہلیت میں ایک خون کیا تھا اورانتقام کے خوف سے مدینہ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ یہاں پہنچ کر مسلمانوں کو آزادی وطمانیت نصیب ہوئی،تاہم قریش مکہ کی حملہ آوری کا خطرہ موجود تھا،آنحضرت ﷺ نے پیش بینی کرکے حضرت عبدہ بن الحارث ؓ کو ساٹھ یا اسی سواروں کے ساتھ غنیم کی نقل وحرکت دریافت کرنے کے لیے روانہ فرمایا حضرت سعد وقاص ؓ بھی اس جماعت میں شامل تھے غرض دورہ کرتے ہوئے حجاز کے ساحلی علاقہ میں قریش کی ایک بڑی تعداد سے مڈ بھیڑ ہوئی،چونکہ محض تجسس مقصود تھا، اس لیے کوئی جنگ پیش نہ آئی، مگر حضرت وقاص ؓ کو کہاں تاب تھی، انہوں نے ایک تیر چلاہی دیا،چنانچہ یہ اسلام کا پہلا تیر تھا جوراہِ خدا میں چلا گیا۔[7]

دوسری دفعہ خود حضرت سعد وقاص ؓ کے زیر قیادت آٹھ مہاجرین کی ایک جماعت تجسس کے لیے روانہ کی گئی،چنانچہ یہ مقام خرار تک دورہ کرکے واپس آئے اورکوئی جنگ پیش نہ آئی،اس کے بعد عبد اللہ بن الجحش ؓ کے ساتھ دشمن کی خبر گیری پر مامور ہوئے، آنحضرت ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن الجحش ؓ کو ایک سربمہرفرمان دیا تھا کہ دو روز سفر کرنے کے بعد کھول کر پڑھیں اوراس کی ہدایتوں پر عمل کریں، انہوں نے حسب ہدایت دوروز کے بعد پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ مکہ اورطائف کے درمیان جو نخلستان ہے وہاں پہنچ کر قریش کی نقل وحرکت کا پتہ چلائیں، حضرت عبد اللہ ؓ نے اپنے ساتھیوں کو فرمان کا مضمون سنا کر کہا، میں کسی کو مجبور نہیں کرتا جس کو شہادت منظور ہو وہ ساتھ چلے ورنہ واپس جائے،حضرت سعد وقاص ؓ اورتمام دوسرے ساتھیوں نے جوش کے ساتھ سمعا وطاعۃ کہا، لیکن کچھ دور جانے کے بعد عتبہ بن غزوان ؓ اورحضرت سعد وقاص ؓ کا اونٹ جو مشترکہ طورپر دونوں کی سواری میں تھا گم ہوگیااوراس طرح وہ دونوں پیچھے چھوٹ گئے،عبد اللہ بن الجحش ؓ نے نخلستان میں پہنچ کر قریش کے ایک قافلہ سے جنگ کی اورمالِ غنیمت اورچند قیدیوں کے ساتھ مدینہ واپس آئے، چونکہ یہ وہ مہینہ تھا جس میں رسما جنگ ممنوع سمجھی جاتی تھی، اس لیے سرورِ کائنات ﷺ نے اس پر ناپسندیدگی ظاہر کی اورفرمایا کہ میں نے تمہیں جنگ کا حکم نہیں دیاتھا، مسلمانوں نے بھی عبد اللہ اوران کے ساتھیوں کو ملامت کی لیکن وحی الہی نے اس مسئلہ کو اس طرح صاف کر دیا۔ "یَسْــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِo قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌo وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ وَکُفْرٌۢ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامo وَاِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللہِo وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ"[8] لوگ تم سے ماہِ حرام کی نسبت پوچھتے ہیں کہ اس میں لڑنا (جائز ہے) کہدو اس میں لڑنا بڑا گناہ اورخدا کی راہ سے روکنا اور اس کا نہ ماننا اورمسجد حرام سے بازر رکھنا اوراس کے اہل کو اس سے نکال دینا خدا کے نزدیک اس سے بھی بڑھ کر ہے اور فتنہ کشت وخون سے زیادہ براہے۔ قریش فدیہ لے کر اپنے قیدیوں کو چھڑانے آئے لیکن اس وقت تک عتبہ بن غزوان ؓ اورسعدوقاص ؓ کا کچھ پتہ نہ تھا، اس لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب تک یہ دونوں صحیح وسلامت پہنچ نہ جائیں تمہارے قیدی رہا نہ ہوں گے،غرض جب یہ دونوں جانثار واپس آگئے تو مشرکین چھوڑدیئے گئے۔

غزوۂ بدرترميم

جنگ بدر سے مستقل جنگوں کی ابتداہوئی،حضرت سعدوقاص ؓ نے اس جنگ میں غیر معمولی شجاعت وجان بازی کے جوہر دکھائے اورسعید بن العاص سرخیل کفار کو تہ تیغ کیا،حضرت سعد ؓ کو اس کی ذوالکتیفہ نامی تلوار پسند آگئی تھی،لیے ہوئے بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے،چونکہ اس وقت تک تقسیم غنیمت کے متعلق کوئی حکم نازل نہ ہوا تھا اس لیے ارشاد ہوا کہ جہاں سے اٹھائی ہے وہیں رکھ دو۔ حضرت سعد ؓ کے برادر عزیز حضرت عمیر ؓ اس جنگ میں شہید ہوئے تھے کچھ تو ان کی مفارقت کا صدمہ اورکچھ تلوار نہ ملنے کا افسوس ،غرض غمگین وملول واپس آئے،لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد سورۂ انفال نازل ہوئی اورسرورِ کائنات ﷺ نے ان کو بلا کر تلوار لینے کی اجازت دے دی۔[9]

غزہ اُحدترميم

3ھ میں غزوۂ اُحد پیش آیا، اس جنگ میں تیر اندازوں کی غفلت سے اتفاقاً مسلمانوں کی فتح شکست سے مبدل ہو گئی اورناگہانی حملہ کے بعد باعث اکثر غازیوں کے پاؤں اکھڑ گئے لیکن حضرت سعد وقاص ؓ ان ثابت قدم اصحاب کی صف میں تھے،جن کے پائے استقلال کو اخیر وقت تک لغزش نہ ہوئی، حضرت سعد ؓ تیر اندازی میں کمال رکھتے تھے اس لیے جب کفار کا نرغہ ہوا تو آنحضرت ﷺ ان کو اپنے ترکش سے تیر دیتے جاتے اورفرماتے: یا سعد ارم فداک امی وابی یعنی اے سعد! تیر چلا میرے باپ ماں تجھ پر فداہوں[10] حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سعد ؓ کے سوا اورکسی کے لیے"فداک ابی وامی"کا جملہ نہیں سنا،لیکن دوسری روایتوں میں حضرت طلحہ ؓ اورحضرت زبیر ؓ کی نسبت بھی ایسے ہی جملے منقول ہیں، بہرحال محدثین کا فیصلہ ہے کہ غزوۂ احد میں یہ فخر صرف حضرت سعد وقاص ؓ کے لیے مخصوص تھا۔[11] اثنائے جنگ میں ایک مشرک سامنے آیا جس نے اپنے تیز و تند جملوں سے مسلمانوں کو پریشان کررکھاتھا،آنحضرت ﷺ نے اس کو نشانہ بنانے کا حکم دیا، لیکن اس وقت ترکش تیروں سے خالی ہوچکا تھا،حضرت سعد ؓ نے تعمیل ارشاد کے لیے ایک تیراٹھاکر جس میں پھل نہیں تھا اس صفائی کے ساتھ اس کی پیشانی پر مارا کہ وہ بدحواسی کے ساتھ برہنہ ہوکر گرگیا، آنحضرت ﷺ ان کی تیراندازی اوراس کی بدحواسی پر بے اختیار ہنس پڑے یہاں تک کہ دندانِ مبارک نظر آنے لگے۔ اسی طرح طلحہ بن ابی طلحہ کے حلق میں تاک کر ایسا تیر مارا کہ زبان کتے کی طرح باہر نکل پڑی اور تڑپ کر داخل سقرہوا۔[12]

متفرق غزواتترميم

غزوۂ احد سے فتح مکہ تک جس قدر معرکے پیش آئے،حضرت سعد ؓ بہادری وجانثاری کے ساتھ سب میں پیش پیش رہے،پھر فتح مکہ کے بعد غزوۂ حنین میں اسی فدویت جان نثاری اورثبات وپامردی کا کارنامہ پیش کیا،جس کا اظہار غزوۂ احد میں کرچکے تھے۔ غزوۂ احد طائف اورتبوک کی فوج کشی میں بھی شریک تھے،پھر 10ھ میں سرورِ کائنات ﷺ نے حجۃ الوداع کا قصد فرمایا تو حضرت سعد وقاص ؓ ہمرکاب تھے،لیکن مکہ پہنچ کرسخت علیل ہو گئے، یہاں تک کہ جب آنحضرت ﷺ عیادت کے لیے تشریف لائے تو زندگی سے مایوس ہوکر عرض کرنے لگے یارسول اللہ ﷺ میں مالدار آدمی ہوں؛ لیکن ایک لڑکی کے سوا کوئی وارث نہیں ہے، اس لیے اگر اجازت ہو تو اپنا دوثلث مال کارخیر میں لگادوں؟ ارشاد ہوا"نہیں پھر عرض کیا" دوثلث نہیں تو نصف سہی حکم ہوا نہیں صرف ایک ثلث اوریہ بھی بہت ہے تم اپنے وارثوں کو مالداروتوانگر چھوڑکر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے دستِ سوال نہ پھیلاتے پھیریں،تم جو کچھ بھی خدا کی رضا جوئی کے لیے صرف کرو گے اس کا اجر ملے گا،یہاں تک کہ اپنی بیوی کے منہ میں جو لقمہ ڈالتے ہو اس کا بھی ثواب پاؤ گے۔ [13]

ایک مبارک پیشن گوئیترميم

حضرت سعد ؓ کو مدینہ سےاس قدر محبت ہو گئی تھی کہ مکہ میں مرنا بھی پسند نہ تھا، بیماری جس قدر طول کھینچتی جاتی تھی اس قدر ان کی بیقراری بڑھتی جاتی تھی، رسول اللہ ﷺ نے اشکبار دیکھ کر پوچھا، روتے کیوں ہو؟ "عرض کیا" معلوم ہوتا ہے کہ اسی سرزمین کی خاک نصیب ہوگی، جس کو خدا اوررسول کی محبت ہمیشہ کے لیے ترک کرچکا تھا،آنحضرت ﷺ نے تشفی دیتے ہوئے ان کو قلب پر ہاتھ رکھ کر تین دفعہ دعا فرمائی: اللھم اشف سعداً اللھم اشف سعدا[14] اے خدا سعد ؓ کو صحت عطا کر، سعد کو صحت عطاکر رسول اللہ ﷺ کے دہن مبارک سے جو الفاظ نکلے تھے وہ اس مریض بستر مرگ کے لیے آب حیات ثابت ہوئے یعنی دعا مقبول ہوئی اور وہ صحیح و تندرست ہوئے ساتھ ہی یہ بشارت سنائی کہ اے سعد ؓ تم اس وقت تک نہ مرو گے جب تک تم سے ایک قوم کو نقصان اوردوسری قوم کو نفع نہ پہنچ لے یہ پیشن گوئی عجمی فتوحات کے ذریعہ پوری ہوئی جن میں عجم قوم نے آپ کے ہاتھوں سے نقصان اورعرب قوم نے فائدہ اٹھایا۔ مکہ سے واپس آنے کے بعد اسی سال رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی اورحضرت ابوبکر صدیق ؓ سقیفہ بنی ساعدہ میں کثرت آراء سے مسند نشین خلافت ہوئے،حضرت سعدوقاص ؓ نے بھی جمہور کا ساتھ دیا اورخلیفہ اول کے ہاتھ پر بلاتوقف بیعت کرلی۔ خلیفہ اول نے صرف سوا دوبرس کی خلافت کے بعد داعیِ حق کو لبیک کہا اورفاروق اعظم ؓ کو جانشین کرکے رحلت گزین عالم جادواں ہوئے اس وقت اندرونی مہمات کا فیصلہ ہوکر شام و عراق پر فوج کشی کی ابتدا ہوچکی تھی،حضرت عمر ؓ نے مسند نشین ہونے کے ساتھ ہی تمام عرب میں جوش وخروش کی آگ بھڑکادی اوران حملوں کا انتظام زیادہ وسیع پیمانہ پر قائم کر دیا،خصوصا عراق کی فوج کشی پر سب سے پہلے توجہ کی چونکہ حضرت سعد وقاص ؓ کے آیندہ کا رناموں کا تعلق تمام تر اسی سرزمین سے وابستہ ہے، اس لیے اس ملک کی لشکر کشی کے ابتدائی حالات تسلسل قائم رہنے کے خیال سے درج ذیل ہیں۔

عراق کی فوج کشیترميم

اہل عرب اورایرانیوں میں نہایت قدیم زمانہ سے عداوت چلی آتی تھی ،ایرانیوں نے بارہا عربوں کے تفرق،اختلاف اورکمزوری سے فائدہ اٹھا کر تمام عرب کو تباہ و برباد کر دیا تھا، خصوصاً عراقِ عرب اورسرحدی علاقوں پر مستقل قبضہ جما لیا تھا، لیکن عرب بھی دب کر رہنے والے نہ تھے، جب موقع ملتا بغاوت کردیتے تھے، چنانچہ پوران وخت کے زمانہ میں جب طوائف الملوکی کے باعث ایرانی حکومت کا نظام ابتر ہو گیا تو سرحدی قبائل کو پھر شورش کا موقع ملا اورمثنی شیبانی اورسوید عجلی نے تھوڑی جمیعت فراہم کرکے عراق کی سرحد حیرہ اورابلہ کی طرف غارت گری شروع کردی، یہ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کا زمانہ تھا، مثنیٰ نے بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوکر باقاعدہ عراق پر حملہ آوری کی اجازت طلب کی،چونکہ عام عرب میں اسلام کی روشنی پھیل چکی تھی، اس لیے اس کے وسیع خطہ کا کسی دوسری حکومت کے زیر اقتدار رہنا مذہبی اور قومی نقطہ نگاہ سے نہایت خطرناک تھا، اس بنا پر خلیفہ اول نے مثنیٰ کو اجازت دے دی اورحضرت خالدسیف اللہ ؓ کو ایک بڑی جمعیت کے ساتھ مدد کے لیے روانہ کیا انہوں نے حملہ کرکے بہت سے سرحدی مقامات فتح کرلیے ؛لیکن چونکہ دوسری طرف شام کی مہم بھی درپیش تھی اوروہاں کمک کی بہت زیادہ ضرورت تھی،اس لیے حضرت ابوبکر ؓ نے خالد ؓ کو حکم دیا کہ مثنیٰ کو اپنا جانشین کرکے شامی رزمگاہ کی طرف روانہ ہوجائیں، لیکن خالد سیف اللہ ؓ کا جانا تھا کہ عراق کی مہم دفعۃ سرد پڑ گئی۔ حضرت عمر ؓ نے مسندِ خلافت پر قدم رکھا تو پھر نئے سرے سے عراق کی مہم پر توجہ مبذول فرمائی اورحضرت ابو عبیدہ ؓ کو ایک فوج گراں کے ساتھ اس اس طرف روانہ فرمایا، انہوں نے ایرانیوں کو متفرق معرکوں میں شکست دے کر تمام متصلہ علاقوں پر قبضہ کر لیا اورمشرقی فرات کے کنارے ایک مقام پر جس کا نام مروحہ تھا، غنیم کی ایک زبردست فوج کے سامنے صف آرائی کی،چونکہ بیچ میں دریا حائل تھا، اس لیے ایرانی سپہ سالار بہمن نےکہلا بھیجا کہ یا تو تم اس پار اتر کر آؤ یا ہم آئیں، ابو عبیدہ ؓ نے سردارانِ فوج کے اختلاف کے باوجود شجاعت کے نشے میں خود دریا کے پار اتر کر مقابلہ کیا لیکن اس غلطی کا جو نتیجہ ہونا چاہیے تھا وہ ہوا یعنی مسلمانوں کو نہایت افسوس ناک شکست ہوئی۔ حضرت عمرؓ نے کمک بھیج کر فوج کو ازسر نو مستحکم کر دیا اورچونکہ ابو عبیدہ ؓ کام آچکے تھے اس لیے مثنی شیبانی کو سپہ سالاری کی خدمت سپرد کردی، انہوں نے معرکہ بویب اور دوسری جنگوں میں دشمن کو پے درپے شکستیں دے کر عراق کے ایک وسیع خطہ پر قبضہ کر لیا۔ ایرانیوں کو اب تک مسلمانوں کی جارحانہ قوتوں کا اندازہ نہ تھا، ان فتوحات نے ان کی آنکھیں کھول دیں، اراکین سلطنت نے حکومت کیانی کو محفوظ رکھنے کے لیے نئی تدبیریں اختیار کیں،پوراندخت کوجو ایک عورت تھی تخت سے اتار کر خاندانِ کسریٰ کے اصلی وارث یزدگرد کو تخت نشین کیا اورتمام ملک میں اتحاد،اتفاق اورجوش وخروش کی آگ بھڑکادی یہاں تک کہ مسلمانوں کے مفتوحہ مقامات میں بھی بغاوت وسرکشی کی آگ بھڑک اٹھی اورمثنیٰ کو مجبوراً عرب کی سرزمین میں ہٹ آنا پڑا۔ حضرت عمر ؓ نے ان واقعات سے مطلع ہوکر تمام عرب میں پر جوش وجادوبیان خطیب پھیلادیئے،کہ وہ اپنی پر تاثیر تقریروں سے قبائل عرب کو جنگ میں شریک ہونے کے لیے آمادہ کریں، اس کا اثر یہ ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں دارالخلافت کی طرف جنگ آزما بہادروں کا ایک طوفان امنڈآیا، حضرت سعدوقاص ؓ عہد صدیقی سے ہوازن کے عامل تھے، انہوں نے اپنے اثر سے ایک ہزار آدمی بھیجے، جن میں سے ہر ایک تیغ و تفنگ کا ماہر تھا، غرض فوج توقع سے زیادہ فراہم ہو گئی؛ لیکن سب زیادہ دقت یہ تھی کہ اس عظیم الشان لشکر کی سربراہی کے لیے کوئی شخص موزوں نظر نہ آتا تھا،حضرت علی ؓ سے درخواست کی گئی تو انہوں نے بھی اس بارِ گراں کے اٹھانے سے انکار کر دیا، عوام کے اصرار سے خود حضرت عمر ؓ تیار ہو گئے، لیکن اہل الرائے صحابہ ؓ مانع ہوئے کہ آپ کا جانا کسی طرح مناسب نہیں ہے، لوگ اسی غور و فکر میں تھے کہ دفعۃ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے اُٹھ کر کہا میں نے پالیا، حضرت عمرؓ نے فرمایا کون؟ بولے کہ سعدبن ابی وقاص ؓ تمام حاضرین اس انتخاب پر پھڑک اُٹھے اورسب نے متفقہ طورپر تائید کی۔

سپہ سالاریترميم

حضرت سعد ؓ نہایت بلند پایہ صحابی اوررسول اللہ ﷺ کے ماموں تھے اس کے ساتھ بہادری وشجاعت میں بھی بے نظیر تھے، تمام فوج نے ان کی سپہ سالاری کو نہایت پسندیدگی وفخر کی نگاہ سے دیکھا،حضرت عمرؓ کو گوسپہ سالاری کے لحاظ سے مجبور ہوکر منظور کر لیا اورہر قسم کی ہدایتیں اورنشیب وفراز سمجھا کر رزمگاہ کی طرف کوچ کرنے کی اجازت دے دی۔ غرض اس طرح حضرت سعد ؓ کی تاریخ زندگی کا وہ صفحہ شروع ہوا جو سب سے زیادہ درخشاں وتاباں ہے اورجس نے دنیا کے بڑے بڑے اولوالعزم،حوصلہ مند اورخوش تدبیر نام آوروں کی صف میں ان کو ممتاز کر دیا ہے، وہ اپنے لشکر کو آراستہ کرکے منزل بہ منزل طے کرتے ہوئے ثعلبہ پہنچے، یہاں تین مہینے تک قیام رہا، پھر وہاں سے چل کر مشراف میں خیمہ زن ہوئے،مثنیٰ مقام ذی قار میں آٹھ ہزار نبرد آزما سپاہیوں کے ساتھ ان کی آمد کا انتظار کر رہے تھے،لیکن داعی اجل نے ملاقات کا موقع نہ دیا اوروہ اپنے بھائی کو سپہ سالار اعظم سے ملنے کی ہدایت کرکے رہ گزین عالم جاوداں ہوئے، معنّٰی نے حسب ہدایت مشراف میں آکر ملاقات کی اورمثنی نے جو ضروری مشورے دیے تھے، حضرت سعدوقاص ؓ سے بیان کیے۔ حضرت سعد ؓ نے مشراف میں اپنی فوج کا باقاعدہ جائز لیا،جو کم وبیش تیس ہزار ٹھہری پھر میمنہ و میسرہ وغیرہ کی تقسیم کرکے ہر ایک پر جدا جدا افسر مقرر کیے اورمقام کا نقشہ فرودگاہ کا ڈھنگ،لشکر کا پھیلاؤ اوررسد کی کیفیت ومحیرہ سے دربارِ خلافت کو مطلع کیا،وہاں سے حکم آیا کہ مشراف سے آگے بڑھ کر قادسیہ پر اس طرح مورچے جمائیں کہ پشت پر عرب کے پہاڑ ہوں اور سامنے دشمن کا ملک ہو، چنانچہ وہ یہاں سے روانہ ہوکر عذیب میں عجمیوں کے میگزین پر قبضہ کرتے ہوئے قادسیہ پہنچے اورمناسب موقعوں پر مورچے جمادیئے۔ حضرت سعد ؓ نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے سردارانِ قبائل میں سے چودہ نامور اشخاص منتخب کیے، سفیر بنا کر مدائن روانہ کیا تاکہ شاہِ ایران کو اسلام یا جزیہ قبول کرنے کی دعوت دیں، چنانچہ انہوں نے پہلے اسلام پیش کیا اورطرفین میں بڑی رد وقدح ہوتی رہی، آخر میں مسلمانوں نے کہا اگر تم اسلام نہیں قبول کرتے تو ہم اپنے نبی کی پیشن گوئی یاد دلاتے ہیں کہ ایک دن تمہاری زمین ہمارے تصرف میں آئے گی، مسلمانوں کی صاف بیان پر غضبناک ہوکر، مسلمانوں کی اس دلیری پر جھلا کر خاک دھول منگا کر کہا لو یہ تم کو ملے گا،عمروبن سعدی کرب نے اس کو اپنی چادر میں لے لیا، اورسعد ؓ کے پاس پہنچے اوران کے سامنے رکھ کر کہا کہ"فتح مبارک ہو دشمن نے خود اپنی زمین ہم کو دے دی،غرٖض سفراء واپس آگئے،اورجنگ کی تیاریاں شروع ہو گئیں، عجمی سپہ سالار رستم نے بھی جو ساباط میں مقیم تھا، اپنی فوج کو آگے بڑھا کر قادسیہ میں ڈیرے ڈالے۔ رستم کی فوجیں قادسیہ پہنچیں تو حضرت سعد ؓ نے ہرطرف جاسوس پھیلادیے کہ دشمن کی نقل و حرکت سے ہر وقت مطلع کرتے رہیں،نیز غنیم کی فوج کا رنگ ڈھنگ ،لشکر کی ترتیب اورپڑاؤ کی حالت دریافت کرنے کے لیے فوجی افسر متعین کر دیے، اس میں کبھی کبھی دشمن کا سامنا بھی ہوجاتا تھا،چنانچہ ایک دفعہ رات کے وقت غنیم کے کیمپ میں گشت کر رہے تھے، ایک جگہ ایک بیش بہا گھوڑا بندھادیکھا،تلوار سے باگ ڈورکاٹ کر اپنے گھوڑے کی باگ ڈورسے اٹکالی ،لوگوں نے ان کا تعاقب کیا تو ایک سپاہی کو قید کرکے لڑتے بھڑتے صاف نکل آئے،قیدی نے حضرت سعد ؓ کے سامنے آکر اسلام قبول کیا اورعجمی فوج کے بہت سے اسرار بیان کیے۔ عرصہ تک صرف اسی قسم کی جھڑپ ہوتی رہی،اورکوئی باقاعدہ جنگ پیش نہ آئی، رستم قصداً جنگ سے جی چراتا تھا،اس نے ایک دفعہ پھر صلح کی کوشش کی اورحضرت سعد ؓ نے اس کی خواہش پر متعدد سفارتیں روانہ کیں، آخری سفارت میں مغیرہ ؓ بھیجے گئے، لیکن مصالحت کی کوئی صورت نہ نکلی،رستم کو ناکامی ہوئی تو اس نے غضبناک ہوکر کہا کہ" کل تمہاری تہ و بالا کرڈالوں گا" مغیرہ ؓ نے واپس آکر رستم کا مقولہ بیان کیا تو حضرت سعدؓ نے بھی جوش خروش کے ساتھ مسلمانوں کو تیاری کا حکم دے دیا۔

جنگ قادسیہترميم

رستم اس قدر غضبناک تھا کہ اس نے اسی وقت فوج کو کمر بندی کا حکم دے دیا اور دوسرے روز صبح کے وقت درمیان کی نہر کو عبور کرکے میدانِ جنگ میں صف آراء ہوا،دوسری طرف حضرت سعد ؓ کا لشکر بھی تیار تھا مشہور شعرا اورپرجوش خطیب رزمیہ اشعار اورجادواثرتقریروں سے تمام بہادرسپاہیوں کے شجاعانہ ولولے بھڑکا رہے تھےاس کے ساتھ قاریوں کی خوش الحانی اورجہاد کی آیتوں نے جنت کے عاشقوں کوبیتاب کر رکھا تھا۔ حضرت سعد ؓ قاعدہ کے موافق اللہ اکبر کے تین نعرے بلندکئےاور چوتھے پر جنگ شروع ہو گئی، گوہ خود عرق النساء کے عارضہ میں مبتلا ہونے کے باعث عام فوج کا ساتھ نہ دے سکے اورخالد ابن عرطفہ کو قائم مقام کرکے میدانِ جنگ کے قریب جو قصر تھا اس کے بالاخانہ پررونق افروز ہوئے تاہم فوج کو لڑاتے خود تھے یعنی جس وقت جو حکم دینا مناسب سمجھتے تھے پرچوں پر لکھ کر اورگولیاں بنا کر خالد کی طرف پھینکتے جاتے تھے اورخالدان ہی ہدایتوں کے مطابق موقع بموقع لڑائی کا اسلوب بدلتے جاتے تھے، ایک دفعہ ایرانی ہاتھیوں کے ریلے سے قریب تھا کہ بجیلہ سواروں کے پاؤں اکھڑ جائیں، حضرت سعد ؓ نے یہ رنگ دیکھ کر فورا قبیلہ اسد کو حکم بھیجا کہ بجیلہ کو مدد پہنچائیں،پھر جب اس کالی آندھی نے اس طرف رخ کیا تو قبیلہ تمیم کو جو نیزہ بازی اور قادرااندازی میں کمال رکھتے تھے کہلا بھیجا کہ تمہارا کمال ہاتھیوں کے مقابلہ میں کیا ہوا؟ یہ سنکر انہوں نے اس جوش سے تیر برسائے کہ دفعۃ جنگ کا نقشہ بدل گیا،غرض تمام دن اسی زور کارن ہواشام ہوئی تو دونوں فریق اپنے اپنے پڑاؤ میں واپس آئے جنگ قادسیہ کا یہ پہلا معرکہ تھا جس کو عربی میں یوم الارماث کہتے ہیں۔ دوسرے روز پھر جنگ شروع ہوئی،عین ہنگامہ کار زار میں شام کی امدادی فوجیں بھی پہنچ گئیں، اس تائید غیبی سے مسلمانوں کا جوش دوبالا ہو گیا اور اس زورشور سے تیغ وسنان اور تیروتفنگ کا بازار گرم ہوا کہ دور سے دیکھنے والوں کی رگِ شجاعت میں ہیجان پیدا ہورہا تھا ابو محجن ثقفی جن کو حضرت سعد ؓ نے شراب خواری کے جر م میں اپنے قصر میں مقید کر دیا تھا، اس ولولہ انگیز منظر کو دیکھ کر بیتاب ہو رہے تھے،ضبط نہ کرسکے تو سلمیٰ سعد ؓ کی بیوی سے درخواست کی کہ اس وقت مجھ کو چھوڑدو،لڑائی سے جیتا بچا تو پھر خود آکر بیڑیاں پہن لوں گا،سلمیٰ نے انکار کیا تو حسرت کے ساتھ یہ اشعار پڑھنے لگے۔ کفن حزناان تردی الخیل بالقناواترک مشدوداً علی وثاقیا اس سے بڑھ کر کیا غم ہوگا کہ سوار نیزہ بازیاں کر رہے ہیں اور میں زنجیر میں بندھا پڑاہوں۔ اذاقمت عنافی الحدیرواغلفت مصاریع دونی تصم المنادع جب میں کھڑاہونا چاہتا ہوں تو زنجیر باگ کھینچ لیتی ہے اوردروازے اس طرح سامنے بند کر دیے جاتے ہیں کہ پکارنے والا پکارتے پکارتے تھک جاتا ہے۔ ان اشعار سے سلمی نے متاثر ہوکر ان کی بیڑیاں کاٹ دیں اوروہ حضرت سعدؓ کے گھوڑے پر سوار ہوکر جنگ کی دہکتی ہوئی آگ میں کود پڑے اوران لوگوں کو اپنی شجاعت وجانبازی سے متحیر کر دیا، حضرت سعد ؓ بھی حیران تھے کہ یہ کون بہادر ہے؟ شام کو جنگ ختم ہوئی تو ابومحجن نے خود آکر بیڑیاں پہن لیں،سلمی نے یہ حالات سعد ؓ سے بیان کیے تو انہوں نے کہا خدا کی قسم میں ایسے فدائی اسلام کو سزا نہیں دے سکتا، اوراسی وقت رہا کر دیا ابو محجن پر بھی اس قدر دانی کا یہ اثر ہوا کہ آیندہ شراب سے توبہ کرلی۔ تیسرے روز حسب معمول پھر معرکہ شروع ہوا،حضرت سعد ؓ نے آج آخری فیصلہ کا ارادہ کر لیا تھا، لیکن شام ہو گئی اورجنگ کے زور شور میں کچھ فرق نہ آیا، زیادہ دقت ہاتھیوں کی وجہ سے تھی،وہ جس طرف جھک پڑتے تھے،صفیں کی صفیں درہم برہم کردیتے تھے، حضرت سعد ؓ نے قعقاع اورچند دوسرے بہادر سپاہیوں کو بلا کر کہا کہ تم ہاتھیوں کو مارلو تو پھر میدان تمہارے ہاتھ میں ہے، انہوں نے نہایت جانبازی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی اورنرغہ کرکے بڑے بڑے ہاتھیوں کو مارڈالا تو دوسرے ہاتھی خود بخود بھاگ کھڑے ہوئے، ہاتھیوں سے میدان صاف ہونا تھا کہ حضرت سعد ؓ نے اپنی فوج کو سمیٹ کر پھرنئے سرے سے ترتیب دیا اور حکم دیا کہ جب میں تیسرا نعرہ بلند کروں تو غنیم پر حملہ کر دیا جائے،لیکن ابھی پہلا ہی نعرہ بلند ہوا تھا کہ قعقاع نے جوش سے بیتاب ہوکر حملہ کر دیا،حضرت سعدر ؓ نے فرمایا اللھم اغفرلہ وانصرہ یعنی اے خدا قعقاع کو معاف کرنا اوراس کا مدد گار رہنا، قعقاع کو دیکھ کر دوسرے قبائل بھی ٹوٹ پڑے، حضرت سعد ہر قبیلے کے حملے پر کہتے جاتے تھے کہ اے خدا اس کو معاف کرنا اوراس کا معین ومدد گار رہنا،غرض دن ختم ہونے کے بعد تمام رات ہنگامہ کا بازار گرم رہا، لیکن بالآخر مسلمانوں کے ثبات واستقلال نے ایرانیوں کے پاؤں اکھاڑ دیے ،رستم کو بھی مجبوراً بھاگنا پڑا، مگر بلال نامی ایک مسلمان سپاہی نے تعاقب کرکے اس کا کام تمام کر دیا۔ حضرت سعد ؓ نے بارگاہِ خلافت میں نامہ فتح روانہ کرکے مقتولین و مجروحین کی تجہیز و تدفین اورمرہم پٹی کا اہتمام کیا،چونکہ وہ خود اس جنگ میں شریک نہ تھے اس لیے بعض سپاہیوں کو ان کی طرف سے بدگمانی تھی،چنانچہ ایک شاعر نے علانیہ اس خیال کو ظاہر کر دیا۔ وقاتلت حتی انزل اللہ نصرہ وسعد بباب القادسیہ معصم میں نے جنگ کی یہاں تک کہ خدانے اپنی مدد بھیجی، حالانکہ سعد قادسیہ کے دروازے سے چمٹے رہے۔ نابناوقدآملت نسآء کثیرۃ ونسرۃ سعد لیس فیھن ایم ہم لوٹے تو بہت سی عورتیں بیوہ ہوئیں، حالانکہ سعد ؓ کی بیویوں میں سے کوئی بھی بیوہ نہ ہوئی۔ حضرت سعد ؓ نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے تمام فوج کو جمع کیا اورایک مفصل تقریر کرکے اپنی معذوری ظاہرکی۔

عراق عرب پر عام لشکر کشیترميم

حضرت سعد ؓ نے معرکہ قادسیہ کے بعد 15ھ میں تمام عراقِ عرب کو زیر نگین کرلینے کا تہیہ کر لیا، ایرانی بابل میں پناہ گزین تھے،اس لیے سب سے پہلے اسی طرف بڑھے،انہوں نے خود عجمیوں پر اس قدر رعب بٹھادیا تھا کہ راہ میں بڑے بڑے سرداروں نے پیشوائی کرکے صلح کرلی اوربابل تک موقع بموقع پل تیار کرادیئے، اسلامی فوجیں آسانی کے ساتھ گذرجائیں بابل پہنچ کر حضرت سعد ؓ نے ایک ہی حملہ میں اس کو فتح کر لیا اورخود یہاں قیام کرکے زہرہ کی افسری میں کچھ فوجیں آگے روانہ کر دیں، انہوں نے کوثی پہنچ کر دم لیا اور وہاں کے رئیس شہر یار کو قتل کرکے شہر پر قبضہ کر لیا۔ کوثی ایک تاریخی جگہ تھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود نے یہیں قید کیا تھا، چنانچہ قیدخانہ کی جگہ اس وقت تک محفوظ تھی، حضرت سعد ؓ بابل سے تشریف لائے تو اس کی زیارت کو گئے اوردرود پڑھ کر یہ آیت پڑھی،"وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ"[15] کوثی سے آگے بڑھ کر پایہ تخت کے قریب ایک مستحکم مقام بہرہ شیر تھا،اس نام کی وجہ یہ تھی کہ یہاں خاص کسریٰ کا شکاری شیر رہتا تھا،حضرت سعد ؓ کا لشکر جب اس شہر کے قریب پہنچا تو شیر مقابلہ کے لیے چھوڑا گیا،اس نے تڑپ کر اسلامی شیروں پر حملہ کیا،لیکن حضرت سعد ؓ کے بھائی ہاشم ؓ نے جوہر اول کے افسر تھے، اس صفائی سے تلوار ماری کی وہیں ڈھیر ہو گیا،حضرت سعد ؓ نے اس بہادری پر خوش ہوکر ان کی پیشانی چوم لی، اورانہوں نے ان کے قدم کو بوسہ دیا۔ بہرہ شیر کا کامل دوماہ تک محاصرہ رہا اور اس اثناء میں متعدد ہولناک جنگیں ہوئیں، لیکن کچھ نہ ہو سکا،ایک روز خود ایرانی فوجیں تنگ آکر جوش وخروش کے ساتھ قلعہ سے باہر نکلیں اوردیر تک شجاعانہ لڑتی رہیں، اسی حالت میں ان کا سپہ سالار شہر براز جو نہایت بہادر افسر تھا ایک مسلمان کے ہاتھ سے مارا گیا اس کا مقتول ہونا تھا کہ عجمی فوجیں بھاگ کھڑی ہوئیں اور شہروالوں نے صلح کا پھریرااڑادیا۔ بہرہ شیراور مدائن (پایہ تخت عراق) کے درمیان صرف دجلہ حائل تھا،ایرانیوں نے مسلمانوں کے خوف سے جہاں جہاں پل تھے توڑ کر بیکار کر دیے تھے ؛لیکن حضرت سعد ؓ کی اولوالعزمی کے آگے دنیا کی کون چیز حائل ہوسکتی تھی؟ انہوں نے اہل فوج کو مخاطب کرکے کہا "برادرانِ اسلام! دشمن نے ہرطرف سے مجبور ہوکر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے آؤ اس کو بھی تیر جائیں تو تو پھر مطلع صاف ہے یہ کہہ کر گھوڑا دریا میں ڈال دیا سپہ سالار اعظم کی جانبازی دیکھ کر تمام فوج نے بھی جوش کے ساتھ گھوڑے ڈال دیے اورباہم باتیں کرتے ہوئے دوسرے کنارے پر جا پہنچے،ایرانی اس عجیب وغریب جوش واستقلال کا منظر دیکھ کر "دیوان آمند" کہتے ہوئے بھاگے تاہم سپہ سالار حرز اورتھوڑی سی فوج کے ساتھ جمارہا اوردریا سے نکلنے پر مزاحم ہوا، لیکن مسلمانوں نے ان کو کاٹ کر ڈھیر کر دیا، اورمدائن پہنچ کر شاہی محلات پر قبضہ کر لیا یزد گردشاہِ ایران پہلے ہی بھاگ چکا تھا، البتہ تمام اسباب وسامان موجود تھا، جو بجنسہ مدینہ روانہ کیا گیا۔ حضرت سعد ؓ جس وقت مدائن میں داخل ہوئے تو ہر طرف سناٹا تھا نہایت عبرت ہوئی اور بے اختیار زبان سے یہ آیتیں نکلیں۔ کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍo وَّزُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍo وَّنَعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْہَا فٰکِہِیْنَoکَذٰلِکَ ،وَاَوْرَثْنٰہَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ[16] (اگلی قومیں) کس قدر باغ،چشمے ،کھیتیاں اورطرح طرح کی نعمتیں عمدہ عمدہ محلات چھوڑ کر چل بسیں جس میں خوش باش زندگی بسر کرتی تھیں اورہم نے ان چیزوں کا مالک دوسری قوموں کو بنادیا۔ مدائن فتح ہونے کے ساتھ تمام عراقِ عرب پر تسلط قائم ہو گیا،بڑے بڑے رؤساء اور جاگیرداروں نے سپرڈال کر صلح کرلی، اورتمام ملک میں امن و امان کی منادی ہو گئی، جولوگ گھربار چھوڑکر بھاگ گئے تھے وہ پھر واپس آگئے اورحاکم ومحکوم میں اس قدر ارتباط پیدا ہوا کہ باہم ازواج ومناکحت کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ عراق عرب کے مفتوح ہونے کے بعد حضرت سعد ؓ کے اہتمام سے جلولا، اورتکریب پر فوج کشی ہوئی اورنہایت کامیابی وفیروز مندی کے ساتھ ان مقامات پر اسلامی پھیریرا نصیب کر دیا گیا، اس کے بعد حضرت سعد ؓ نے دربارِ خلافت سے آگے بڑھنے کی اجازت طلب کی تو جواب آیا کہ "دولت وحکمرانی کے مقابلہ میں مجھے ایک ایک سپاہی کا خون زیادہ محبوب ہے،کاش ہمارے اور عجمیوں کے درمیان سدِ سکندری حائل ہوتی کہ نہ ہم ان کی طرف بڑھتے اورنہ وہ ہم پر حملہ آور ہوتے ،غرض سرِدست اسی پر اکتفا کرکے ممالک مفتوحہ کا نظم ونسق اپنے ہاتھ میں لو۔

امارتترميم

اس فرمان کے مطابق حضرت سعد ؓ کی سپہ سالاری کا زمانہ ختم ہو گیا اور وہ دوائی ملک کی حیثیت سے مدائن کو صوبہ کا مرکز بنا کر نظم و نسق میں مصروف ہو گئے، اصل یہ ہے کہ کسی غیر قوم پر حکمرانی اورملکی نظام کو بہترین اصول پر مرتب کرنا بھی اسی قدر مشکل ہے جس قدر کسی ملک کو فتح کرنا، حضرت سعد ؓ اپنی فطری قابلیت کے باعث ان دونوں مشکلات پر غالب آئے،انہوں نے جس خوبی و عمدگی کے ساتھ اپنے عہدہ جلیلہ کے فرائض انجام دیے،اس سے زیادہ اس زمانہ میں ممکن نہ تھا ،دربارِ خلافت کے ایماء سے تمام عراق کی مردم شماری اورپیمائش کرائی،اراضی مفتوحہ کو ملک کے اصلی باشندوں کے ہاتھ میں رہنے دیا، البتہ جس زمین کا کوئی وارث نہ تھا،اس کا پھر نئے سرے سے بندوبست کیا،اسی طرح لگان اورجزیہ کے اصول بنائے اوررعایا کے امن و آسائش کا انتظام کیا،عجمیوں کے ساتھ اس قدر خلق وشفقت سے پیش آئے کہ ان کے دل پر قبضہ کر لیا، چنانچہ بڑے بڑے امرا اوررؤساء اسی اثر سے متاثر ہوکر مسلمان ہو گئے،جمیل ابن بصبہری، بطام بن نرسی، رفیل اورفیروز وغیرہ جو عراق کے مشہور روساء تھے خود بخود مسلمان ہو گئے، اسی طرح دیلم کی چارہزار فوج جو شاہی رسالہ کے نام سے موسوم تھی حلقہ بگوشِ اسلام ہوئی۔

تعمیر کعبہترميم

حضرت سعد ؓ نے ایک عرصہ تک مدائن میں قیام کرنے کے بعد محسوس کیا کہ یہاں کی آب و ہوانے اہل عرب کا رنگ روپ بالکل بدل دیا ہے،حضرت عمر ؓ کو اس سے مطلع کیا توحکم آیا کہ عرب کی سرحد میں کوئی مناسب سرزمین تلاش کرکے ایک نیا شہر وہاں بسائیں اورعربی قبائل کو آباد کرکے اس کو مرکزحکومت قراردیں،حضرت سعد ؓ نے اس حکم کے مطابق مدائن سے نکل کر ایک موزوں جگہ منتخب کرکے کوفہ کے نام سے ایک وسیع شہر کی بنیاد ڈالی،عرب کے جدا جدا قبیلوں کو جدا جدا محلو ں میں آباد کیا،وسطِ شہر میں ایک عظیم الشان مسجد بنوائی جس میں تقریبا چالیس ہزار نمازیوں کی گنجائش رکھی گئی، مسجد کے قریب ہی بیت المال کی عمارت اوراپنا محل تعمیر کرایاجو قصر سعد ؓ سے مشہور تھا۔ کچھ دنوں کے بعد بیت المال میں چوری ہو گئی، حضرت سعد ؓ نے اس کی رپورٹ دارالخلافت میں بھیجی تو حکم آیا کہ بیت المال کو مسجد سے ملادیا جائے تا کہ ہر وقت نمازیوں کی آمدورفت سے خزانہ محفوظ رہے، چنانچہ انہوں نے روز بہ نام ایک مشہور پارسی معمار کو بلا کر یہ خدمت سپرد کی،اس نے نہایت خوبی وموزونی کےساتھ بیت المال کی عمارت کو بڑھا کر مسجد سے ملادیا،حضرت سعد ؓ نےاس کی کاریگری کی بڑی قدر کی اورخوش ہوکر اس کو دارالخلافت بھیج دیا،جہاں ہمیشہ کے لیے اس کا روزینہ مقرر ہو گیا۔ حضرت سعد ؓ کا قصر چونکہ وسط بازار میں تھا، اس لیے شوروشغب کے ساتھ باہم گفتگو کرنابھی دشوار تھا، انہوں نے اس سے بچنے کے لیے قصر کے سامنے ایک ڈیوڑھی بنوائی اوراس میں پھاٹک لگوایا، بارگاہِ خلافت میں اس ڈیوڑھی کی اطلاع پہنچی تو اس خیال سے کہ اہل حاجت کے لیے یہ سدِ راہ نہ ہوجائے، حضرت محمد مسلمہ ؓ کو حکم ہوا کہ کوفہ جاکر اس میں آگ لگادیں، چنانچہ اس حکم کی تعمیل ہوئی،اورحضرت سعدوقاص ؓ اطاعت شعاری کے ساتھ خاموشی سے دیکھا کیے۔

متفرق انتظاماتترميم

کوفہ دراصل ایک فوجی چھاؤنی تھی،جہاں تقریباً ایک لاکھ نبرد آزما سپاہی بسائے گئے تھے ان کو علی قدر مراتب تنخواہیں دی جاتی تھیں،تنخواہ کی تقسیم کا طریقہ یہ تھا کہ دس دس سپاہیوں پر افسر ہوتے تھے،جوامراء الاعشار کہلاتے تھے،تنخواہیں ان کو دی جاتی تھیں اور وہ اپنے ماتحت سپاہیوں کو تقسیم کردیتے تھے، ایک دفعہ امرائے اعشار نے تنخواہوں کی تقسیم میں بے اعتدالی کی اوراس کی وجہ سے فوج میں برہمی کے آثار نمایاں ہوئے،حضرت سعد ؓ نے فوراً دربارِ خلافت کو اس واقعہ سے مطلع کیا اورفرمانِ خلافت کے مطابق دوبارہ نہایت صحت و تحقیق کے ساتھ لوگوں کے عہدے اورروزینے مقرر کیے اور اس دفعہ دس کے بجائےسات سات سپاہیوں پر ایک ایک افسر متعین کیا۔[17] شام کی اسلامی فوجوں نے حمص پر چڑھائی کی تو اہل جزیرہ ایک جمیعت عظیم کے ساتھ رومیوں کی مدد کے لیے روانہ ہوئے،لیکن حضرت سعدوقاص ؓ نے جو ملک کے اندرونی وسرحدی واقعات سے ہر وقت باخبر رہتے تھے ایک فوج گراں بھیج کر ان کو وہیں روک لیا اورآگے بڑھنے نہ دیا۔[18] 21ھ میں ایرانیوں نے عراق عجم میں نہایت عظیم الشان جنگی تیاریاں کیں اورمسلمانوں کو ان کے مفتوحہ ممالک سے نکال دینا چاہا،حضرت عمرؓ نے ان تیاریوں کاحال سنا تو تمام فوجی مرکزوں میں اسلامی فوج کو بھی آراستہ کرنے کے احکام صادر کیے،کوفہ سب سے بڑا مرکز تھا،حضرت سعدوقاص ؓ نے نہایت اہتمام کے ساتھ تیاریاں شروع کیں اوردربارِ خلافت کے ایماء سے نعمان بن مقرب کو جو پہلے ان کی ماتحتی میں افسرِ مال تھے، اس فوج کا امیر عسکر مقرر کیا،لیکن یہاں ایک جماعت ایسی پیدا ہو گئی تھی جو قصداً جنگ سے جی چراتی تھی اورکہتی تھی کہ بصرہ والوں نے خواہ مخواہ فارس پر حملہ کرکے یہ لڑائی مول لی ہے،حضرت سعد وقاص ؓ نے بارگاہِ خلافت میں ان لوگوں کی شکایت لکھی تو ان میں سے جراح بن سنان اوراس کے چند ساتھیوں کو ان سے شدید عداوت پیدا ہو گئی اورانہوں نے مدینہ پہنچ کر شکایت کی کہ وہ نماز اچھی طرح نہیں پڑھاتے ،ظاہر ہے کہ حضرت سعد وقاص جیسے عالی مرتبت و بلند پایہ صحابی کی نسبت یہ شکایت کس قدر مہمل تھی، حضرت عمرؓ کو بھی اس کے لغوہونے کا یقین تھا؛ تاہم رفع حجت کے خیال سے حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کو تحقیقات کے لیے روانہ فرمایا،انہوں نے کوفہ کو ہر ایک مسجد میں گشت کرکے اس شکایت کی حقیقت دریافت کی تو ہرجگہ سب نے یک زبان ہوکر اس کی تکذیب کی اورلغو بتایا، محمد بن مسلمہ تحقیقات سے فارغ ہوکر دونوں فریق کو ساتھ لیے ہوئے مدینہ پہنچے،حضرت عمر نے دیکھنے کے ساتھ پوچھا،سعد!تم کیسی نماز پڑھاتے ہو کہ لوگ شکایت کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ پہلی دو رکعتوں میں لمبی دو سورتیں پڑھتا ہوں اوردونوں آخری میں صرف فاتحہ پراکتفا کرتا ہوں، حضرت عمر ؓ نے فرمایابے شک تمہاری نسبت یہی گمان ہوسکتا ہے۔ [19]

معزولیترميم

گوالزام بے بنیاد ثابت ہوا،تاہم حضرت عمر ؓ نے اس خیال سے کہ ایک جماعت مخالفت پر آمادہ ہو گئی تھی ان کو اس عہدہ سے سبکدوش ہی کردینا مناسب سمجھا، چنانچہ حضرت سعدوقاص ؓ جن کو اپنا جانشین بناآئے تھے،حضرت عمرؓ نے ان ہی کو مستقل کر دیا اوران کو دوبارہ واپس جانے کی زحمت نہ دی۔[20] حضرت سعد وقاص ؓ کو اپنے اوپر اس بیہودہ الزام کے قائم ہونے کا نہایت افسوس تھا،فرمایا کرتے تھے کہ میں عرب میں سب سے پہلا شخص ہوں جس نے راہِ خدا میں تیر اندازی کی ہے، ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ درخت کے سوکھے پتے کھا کھا کر لڑے تھے،لیکن خدا کی شان آج یہ بنو اسد پیدا ہوئے ہیں جو خود مجھے مذہب سکھاتے ہیں کہ میں نماز اچھی نہیں پڑھاتا۔[21]

فاروق آعظم کی سفارشترميم

23ھ میں حضرت عمرؓ نے ایک مجوسی غلام کے ہاتھ سے شہادت پائی ،حالتِ نزع میں لوگوں نے خلیفہ نامزد کرنے کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے اس منصب کے لیے چھ آدمیوں کے نام پیش کیے، ان میں ایک حضرت سعد ؓ بھی تھے اورفرمایا کہ اگر وہ خلافت کے لیے منتخب نہ ہوسکیں تو جو منتخب ہو اسے چاہیے کہ ان کی خدمات سے فائدہ اٹھائے کیونکہ میں نے انہیں کسی کمزوری یا خیانت کی وجہ سے معطل نہیں کیا تھا۔

دوبارہ تقریرترميم

فاروق اعظم ؓ کی تجہیز و تکفین کے بعد مجلس شوریٰ نے حضرت عثمان ؓ کے سرپردستارِ خلافت باندھی اورانہوں نے حسب وصیت حضرت سعد ؓ کو دوبارہ کوفہ کا والی مقرر کیا،لیکن اس تقرر کے تین سال بعد یعنی 26ھ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ذمہ دار بیت المال سے اختلاف پیدا ہوجانے کے باعث پھر معزول ہو گئے۔ [22]

دورِ فتنہ اورحضرت سعد ؓ کی گوشہ نشینیترميم

حضرت سعد ؓ نے معزول ہونے کے بعد مدینہ میں عزلت نشینی اختیار کرلی،یہاں تک کہ جب خلیفہ ثالث کے آخری عہد حکومت میں فتنہ وفساد کا بازار گرم ہواتو یہ ہنگامہ بھی ان کی گوشہ گیری میں مخل نہ ہوا، البتہ جب مفسدین نے کاشانۂ خلافت کا محاصرہ کر لیا تو ان کو سمجھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد حضرت علی ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی،لیکن معاملات ملکی سے بے تعلق رہنے کی روش پر اس وقت بھی قائم رہے،چنانچہ حضرت علی ؓ جب حضرت طلحہؓ وحضرت زبیر ؓ کے مقابلہ میں اپنی فوج کے ساتھ روانہ ہوئے تو لوگوں نے ان کوبھی ساتھ چلنے کی دعوت دی،لیکن انہوں نے معذرت کی اور کہامجھے ایسی تلوار بتاؤجومسلم وکافر میں امتیاز رکھے۔[23] حضرت سعد وقاص ؓ سے خود ان کے صاحبزادہ عمروبن سعد ؓ نے ایک دفعہ جب کہ وہ جنگل میں اونٹ چروا رہے تھے آکر کہا"کیا یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ آپ جنگل میں اونٹ چرائیں اورلوگ بادشاہت وحکومت کے لیے اپنی اپنی قسمت آزمائیں، حضرت سعد ؓ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مارکر فرمایا، خاموش! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ خدا مستغنی اورپرہیز گاربندہ کو محبوب رکھتا ہے۔[24] جناب مرتضٰی ؓ اورامیر معاویہ ؓ کے منازعات کا فیصلہ کرنے کے لیے جب پنچایت مقرر ہوئی، توحضرت سعد وقاص نے بھی اس خوشی میں کہ اب خانہ جنگیوں اورخونریزیوں کا خاتمہ ہوجائےگا، فیصلہ سننے کے لیے دو مۃ الجندل تشریف لائے،لیکن جب یہ بے نتیجہ ثابت ہوئی تو پھر اپنے عزلت کدہ میں واپس آگئے اورتمام جھگڑوں سے قطعی طورپر کنارہ کش رہے۔

وفاتترميم

حضرت سعد ؓ مدینہ سے دس میل کے فاصلہ پر مقام عقیق میں اپنے لیے ایک قصر تعمیر کرایا تھا،چنانچہ عزلت نشینی کی زندگی اسی میں بسر ہوئی، آخر میں قویٰ مضمحل ہو گئے تھے اورآنکھوں کی بصارت بھی جاتی رہی تھی، یہاں تک کہ 55ھ میں طائرروح نے باغ رضوان کے اشتیاق میں ہمیشہ کے لیے اس قفس عنصری کوخیرباد کہا[25]حضرت سعد ؓ نے وصیت کی تھی کہ جنگ بدر میں جو اونی کپڑا میرے جسم پر تھا اس سے کفن کا کام لیا جائے،چنانچہ اس پر عمل کیا گیا [26] اورلاش مدینہ لائی گئی،بعض امہات المومنین ؓ اس وقت زندہ تھیں،انہوں نے حکم دیا کہ اس جاں نثار رسول ﷺ کا جنازہ مسجد میں لایا جائے، چنانچہ مسجد میں ان کے حجروں کے سامنے نماز ادا کی گئی،امہات المومنین ؓ بھی نماز میں شریک تھیں ،کسی نے مسجد میں نماز جنازہ پر اعتراض کیا توحضرت عائشہ ؓ نے فرمایا لوگ کس قدرجلد بھول گئے کیا رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن البیضاء ؓ پر مسجد میں نماز نہیں پڑھائی تھی؟[27] غرض اس تزک واحتشام کے ساتھ مقام بقیع میں مدفون ہوئے ،ستر برس سے زیادہ عمرپائی اوراس عرصہ میں اپنے عظیم الشان کارناموں کی ایسی یادگارچھوڑ گئے کہ ان کے اخلاف قیامت تک فخرو مباہات کے ساتھ ان پر رطب اللسان رہیں گے۔

علم وفضلترميم

حضر سعد وقاص ؓ کا علمی پایہ نہایت ارفع تھا،حضرت عمر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ جب سعد ؓ رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث روایت کریں تو پھر اس کے متعلق کسی دوسرے سے نہ پوچھو۔ رسول اللہ ﷺ سے تحصیل علم میں کبھی پس و پیش یا شرم وحجاب دامنگیر نہ ہوتاتھا، ایک دفعہ بارگاہِ نبوت میں حاضر تھے،آنحضرت ﷺ نے ایک جماعت کو کچھ عطیے مرحمت فرمائے،لیکن اس میں سے ایک شخص کو محروم رکھا، حضرت سعد کو اس کی محرومی پر سخت تعجب ہوا،عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرا خیال ہے کہ یہ بھی مومن ہے،ارشاد ہوا، "مومن یا مسلم" لیکن حضرت سعد ؓ کو تشفی نہ ہوئی، انہوں نے پھر اپنا سوال دہرایا، آنحضرت ﷺ نے اس دفعہ بھی وہی جواب دیا،غرض حضرت سعد ؓ نے مکررسہ کرر اس سوال کو جاری رکھا، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرما کر تشفی کردی کہ بسااوقات اس سے جس کو عطیے دیتا ہوں وہ شخص جس کو کچھ نہیں دیتا میرے نزدیک زیادہ محبوب ہوتا ہے۔[28]

اخلاق وعاداتترميم

حضرت سعد ؓ کے مصحفِ اخلاق میں خشیتِ الہی، حب رسول ،تقویٰ، زہد، بے نیازی، اورخاکساری سب سے روشن ابواب ہیں، خوف خدا اورعبادت گزاری کا یہ حال تھا کہ عموماًرات کے اخیر حصے میں مسجد نبوی ﷺ میں آکر نمازیں پڑھا کرتے تھے،(مسند ابن حنبل جلد 1 صفحہ 170) طبیعت رہبانیت کی طرف بہت مائل تھی،لیکن اسلام میں ممنوع ہونے کی وجہ سے مجبور تھے، چنانچہ فرمایا کرتے تھے کہ عثمان بن مظعون ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے رہبانیت اور تبتل سے منع نہ فرمایا ہوتا تو میں اس کو اختیار کرلیتا۔[29] رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت وجان نثاری کا صرف اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تقریباً تمام غزوات میں ہمرکاب رہے،غزوۂ احد میں جب شکست رونما ہوئی اورتمام صحابہ ؓ پریشانی اورگھبراہٹ میں منتشر ہو گئے تو اس وقت تھوڑی دیر تک تنہا انہوں نے اورحضرت طلحہ ؓ نے خیرالانام ﷺ کی حفاظت کا فرض انجام دیاتھا، سفر میں عموماً خودشوق سے رسول اللہ ﷺ کے خیمے کے گردرات رات بھر پہرا دیتے تھے، ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کسی غزوۂ سے واپس تشریف لا رہے تھے،رات کے وقت ایک جگہ قیام ہوا، یہاں دشمنوں کا سخت خطرہ تھا،آنحضرت ﷺ دیر تک جاگتے رہے اور فرمانے لگے کہ کاش!میرے اصحاب میں سے کوئی مرد صالح آج پہرہ دیتا، حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ ابھی یہ جملہ تمام بھی نہیں ہواتھا کہ اسلحہ کی جھنکار سننے میں آئی، آنحضرت ﷺ نے پوچھا کون ہے؟ عرض کیا سعد بن ابی وقاص ؓ"ارشاد ہوا"تو کیسے آئے ،اس فرض کو انجام دینے آیا ہوں، آنحضرت ﷺ اس جان نثار سے نہایت خوش ہوئے اوردعا دی۔[30] عتبہ بن ابی وقاص ؓ حضرت سعد ؓ کے حقیقی بھائی تھے، انہوں نے حالت کفر مین غزوۂ احد میں رسول اللہ ﷺ کا روئے مبارک زخمی کیا تھا، حضرت سعد ؓ فرمایا کرتے تھے"واللہ میں عتبہ سے زیادہ کبھی کسی شخص کے خون کا پیاسا نہیں ہوا۔ اتباع سنت اوررسول اللہ ﷺ کے اعمال واحکام کامل پیروی کو اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھتے تھے، اہل کوفہ نے دربارِ خلافت میں شکایت کی کہ یہ نماز اچھی نہیں پڑھاتے تو فرمانے لگے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز سے سرموانحراف نہیں کرتا۔[31] ایک دفعہ مدینہ سے اپنے قصر کی طرف جو مقام عقیق میں تھا، تشریف لے جا رہے تھے راہ میں ایک غلام کو درخت کاٹتے دیکھا، چونکہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کو حرم قراردیاتھا، اس لیے انہوں نے اس کے اوزار چھین لیے، غلام کے مالک نے آکر اس کا مطالبہ کیا تو فرمانے لگے،معاذ اللہ میں رسول اللہ ﷺ کی بخشش کو واپس کردوں گا؟اوراوزار کے واپس دینے سے قطعا انکار کر دیا۔[32] زہدوتقویٰ کا یہ عالم تھا جس وقت دنیائے اسلام حکومت وبادشاہت کے جھگڑوں میں مبتلاتھی اس وقت وہ مدینہ کے ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے اس فتنہ سے محفوظ رہنے کی دعائیں مانگ رہے تھے اورجو کوئی ان جھگڑوں کے متعلق کچھ پوچھتا تو فرماتے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ میرے بعد عنقریب ایک فتنہ برپاہوگا جس میں سونے والا بیٹھنے والے سے بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے اورکھڑاہونے والا چلنے والے سے اچھا ہوگا۔[33] تواضع اورخاکساری کا صرف اس سے اندازہ ہوگا کہ سپہ سالاری اورگورنری کے بعد بھی جب کہ کسریٰ کے وارثوں نے اپنا عظیم الشان محل ان کے لیے خالی کر دیا تھا ان کو اونٹ اوربکریاں تک چرانے میں عار نہ تھا،افسر کی اطاعت کا یہ حال تھا کہ گھر میں آگ لگائی گئی وہ خاموشی کے ساتھ تماشا دیکھتے رہے۔

ذریعہ ٔمعاش وجاگیرترميم

ایک زمانہ تھا کہ حضرت سعد ؓ درخت کے پتے کھا کھا کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں جانبازی دکھاتے تھے ؛لیکن اسلام نے بہت جلد روحانیت کے ساتھ ساتھ مادی حیثیت سے بھی اپنے فدائیوں کی عسرت وتنگ حال کو دولت و ثروت سے مبدل کر دیا، خیبر کی مفتوحہ اراضی میں جاگیر ملی،ایران کے مالِ غنیمت میں حصہ ملا اسی طرح دورِ فتنہ وفساد میں ایک غیر آباد زمین خرید کر زراعت کا مشغلہ اختیار کیا! غرض اخیر زندگی میں ایک بڑی دولت کے مالک ہوئے،کوفہ اورمدینہ سے دس میل کے فاصلہ پر مقام عقیق میں عالی شان محلات تعمیر کرائے ،مگر باوجود اس کے غذا ولباس کی سادگی میں کچھ فرق نہیں آیا تھا۔

حلیہترميم

حلیہ یہ تھا ،قد بلند وبالا،جسم فربہ،ناک چپٹی،سربڑااورہاتھ کی انگلیاں نہایت موٹی اورمضبوط۔

ازواجترميم

حضرت سعد ؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں بیویوں کے نام یہ ہیں: بنت الشہاب، بنت قیس بن معدی کرب، ام عامر بن عمر،زبد، ام بلال بنت ربیع، ام حکیم بنت قارظ، سلمی بنت حفص، ظیہ بنت عامر، ام حجر

اولادترميم

حضرت سعدؓ کے چونتیس اولادیں تھیں ان میں سے لڑکے سترہ تھے، لڑکیاں بھی اسی قدر تھیں، سب کے نام حسب ترتیب درج ذیل ہیں۔

لڑکےترميم

اسحاق اکبر، عمر،محمد،عامر،اسحاق اصغر، اسماعیل،ابراہیم،موسی،عبد اللہ،عبد اللہ اصغر، عبدالرحمن،عمیر اکبر،عمیر الاصغر، عمرو،عمران،صالح، عثمان

لڑکیاںترميم

ام الحکیم کبریٰ، حفصہ ،ام القسم، کلثوم، ام عمران،ام الحکیم صغریٰ، ام عمرو، ہند،ام الزہر،ام موسیٰ، حمنہ، ام عمر، ام ایوب ام اسحاق، ملہ ،عمرہ ،عائشہ

حدیث میں ذکرترميم

ان 10 صحابہ کرام کا ذکر عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ: عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہيں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، عبدالرحمن جنتی ہیں، سعد جنتی ہيں، سعید جنتی ہیں، ابوعبیدہ جنتی ہیں[34]

حوالہ جاتترميم

  1. ^ ا ب https://www.atlasobscura.com/places/tomb-of-sa-d-ibn-abi-waqqas
  2. (اسد الغابہ:2/291)
  3. (مسلم مناقب سعد وقاص ؓ)
  4. (العنکبوت:8)
  5. (اسدالغابہ :4/191)
  6. (ابن سعد قسم اول جزء ثالث :99)
  7. (سیرت ابن ہشام:1/ 338)
  8. (البقرۃ:217)
  9. (مسند :1/180 ومسلم مناقب سعد وقاص ؓ)
  10. (بخاری کتاب المغازی غزوۂ احد)
  11. (فتح الباری کتاب المناقب سعدوقاص ؓ)
  12. (طبقات ابن سعد حصہ مغازی : 28)
  13. (مسلم کتاب الوصیہ)
  14. (ایضاً)
  15. (آل عمران:140)
  16. (الدخان:28)
  17. (طبری:2495)
  18. (ابن اثیر:2/1281)
  19. (طبری :2606،2607)
  20. (ایضاً: 2608)
  21. (بخاری باب مناقبِ سعدؓ)
  22. (استیعاب جلد 2 تذکرہ سعد ؓ)
  23. (ابن سعد جزو2 قسم اول ترجمہ بن ابی وقاص ؓ)
  24. (اسد الغابہ تذکرہ سعدرؓ میں اجمالا اس کا ذک رہے)
  25. (طبقات ابن سعد جزءسادس)
  26. (اسد الغابہ تذکرہ سعد)
  27. (ابن سعد جزو3 قسم اول تذکرہ سعد بن ابی وقاص ؓ)
  28. (بخاری کتاب الایمان باب اذالم کمن الاسلام علی الحقیقہ)
  29. (مسند ابن حنبل:ا/ 175)
  30. (مسلم مناقب سعد ؓ)
  31. (بخاری باب صنفۃ الصلوۃ)
  32. (مسلم باب فضل المدینہ)
  33. (مسند:1/169)
  34. جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر1713