خباب بن ارت

صحابی ے رسول

خباب ابن الارت رضی اللہ عنہ(36ق.ھ / 37ھ) آپ مشہور صحابی ہیں، پرانے مؤمن ہیں، اسلام لانے والوں میں ان کا چھٹا نمبر تھا، اسی لیے "سادس الاسلام" کہلاتے تھے۔آپ کی کنیت ابو عبد اللہ ہے۔آپ غلام تھے آپ کو قبیلۂ بنو خزاعہ کی ایک عورت (ام انمار خزاعیہ) نے خرید کرآزاد کر دیا تھا اس لیے یہ خزاعی کہلاتے ہیں ۔ ابتدا ہی میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور کفار مکہ نے حضرت عمار و بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرح ان کو بھی طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کیا یہاں تک کہ ان کو کوئلوں کے اوپر لٹاتے تھے اور پانی میں اس قدر غوطہ دلاتے تھے کہ ان کا دم گھٹنے لگتا اور یہ بے ہوش ہو جاتے مگر صبرو استقامت کا پہاڑ بن کر یہ ساری مصیبتوں اور تکلیفوں کو جھیلتے رہے اوران کے اسلام میں بال برابر بھی تذبذب یا تزلزل پیدا نہیں ہوا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ منورہ سے ان کا دل اٹھ گیا اور آپ کوفہ میں جاکر مقیم ہو گئے اور وہیں 37ھ میں 73 برس کی عمر میں انتقال فرماگئے ۔ [2]

خباب بن ارت
(عربی میں: خباب بن الأرت ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 587ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نجد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 658ء (70–71 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عبد اللہ بن خباب بن ارت   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فوجی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر ،  غزوہ احد ،  غزوہ خیبر ،  غزوہ خندق   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

ترمیم

خباب نام، ابو عبد اللہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے، خباب بن ارت بن جندلہ ابن سعد بن حزیمہ بن کعب بن سعد بن زید مناۃ بن تمیم. بنو تمیم نجد کا مشہور قبیلہ ہے اور اسی وجہ سے یہ تمیمی بھی کہلاتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں غلام بنا کر مکہ میں فروخت کیے گئے۔ ،[3]

اسلام

ترمیم

خباب بن ارت رضی اللہ عنہ ان خوش نصیب بزرگوں میں ہیں جو دعوت اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ میں یعنی زید بن ارقم کے گھر میں آنحضرت کے پناہ گزین ہونے کے قبل مشرف باسلام ہوئے۔اسلام لانے والوں میں ان کا چھٹا نمبر تھا، اسی لیے "سادس الاسلام" کہلاتے تھے۔ [4]

ابتلا و آزمائش

ترمیم

خباب کے اسلام قبول کرنے کے زمانہ میں اسلام کا اظہار تعزیرات مکہ میں ایسا شدید جرم تھا، جس کی سزا میں مال و دولت، ننگ وناموس ہر چیز سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا؛لیکن خباب نے اس کی مطلق پر واہ نہ کی اور ببانگ دہل اپنے اسلام کا اظہار کیا، یہ غلام تھے،ان کا کوئی بھی حامی ومددگار نہ تھا، اس لیے کفار نے ان کو مشق ستم بنا لیا اور ان کو بڑی درد ناک سزائیں دیتے تھے، ننگی پیٹھ ،دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹاکر سینہ پر ایک بھاری پتھر رکھ کر ایک آدمی اوپر سے مسلتا اوروہ اس وقت تک ان انگاروں پر کباب ہوتے رہتے،جب تک خود زخموں کی رطوبت آگ کو نہ بجھاتی، لیکن اس سختی کے باوجود وہ زبان کلمہ حق سے نہ پھرتی ،رحمۃ اللعالمین اس کسمپرسی کی حالت میں تالیف قلب فرماتے تھے؛لیکن ان کا آقا اتنا سنگدل تھا کہ وہ ان کے لیے اتنا سہارا بھی نہ برداشت کرسکا اوراس کی سزا میں لوہا آگ میں تپاکر اس سے ان کا سر داغا، انھوں نے آنحضرت سے کہا کہ میرے لیے بارگاہِ ایزدی میں دعا فرمائیے کہ وہ مجھ کو اس عذاب سے نجات دے،آپ نے دعا فرمائی کہ خدایا!خباب کی مددکر۔ جب اس جسمانی سزا سے بھی آتش انتقام سردنہ پڑی تو مالی نقصان پہنچانے کی کوشش کی،عاص بن وائل کے ذمہ ان کا قرض تھا، یہ جب تقاضا کرتے تو جواب دیتا کہ جب تک محمد کا ساتھ نہ چھوڑو گے،اس وقت تک نہیں مل سکتا،یہ جواب دیتے کہ جب تک مرکر دوبارہ زندہ نہ ہوگے میں محمد سے الگ نہیں ہو سکتا وہ کہتا اچھا میں مرکر پھر زندہ ہوں گا اور مجھ کو مال اور اولاد ملے گی، اس وقت تمھارا قرض دوں گا۔،اس سے مسلمانوں کے اس عقیدے پر تعریض تھی کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی ملے گی اس واقعہ پر کلام اللہ کی یہ آیت نازل ہوئی: (بخاری کتاب التفسیر باب قولہ ونرثہ مایقول) أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا ،أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا ،كَلَّا سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا ،وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا [5] اے محمد  ! کیا تم نے اس شخص کے حال پر نظر کی جس نے ہماری آیات سے کفر کیا اورکہا کہ قیامت میں بھی مجھ کو مال اور اولاد ملے گی، کیا اس کو غیب کی خبر ہو گئی یا اس خدائے رحمن سے عہد لیا ہے ،ہر گز نہیں جو کچھ کہتا ہے ہم اس کو لکھ لیتے ہیں اور اس کے عذاب میں ڈھیل دیتے چلے جائیں گے اور جو کچھ وہ کہتا ہے اس کے ہم وارث ہوں اور یہ تنہا ہمارے سامنے لایا جائے گا۔ [6]

ہجرت و مواخات

ترمیم

خباب مدتوں نہایت صبرو استقلال کے ساتھ یہ تمام مصیبتیں جھیلتے رہے،پھر جب ہجرت کی اجازت ملی تو ہجرت کرکے مدینہ آ گئے، ہجرت بھی تکلیف ومصائب کے خوف سے نہ کی تھی؛بلکہ خاصۃ لوجہ اللہ کی تھی،چنانچہ کہا کرتے تھے کہ میں نے آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خالصۃ لوجہ اللہ ہجرت کی تھی، مدینہ آنے کے بعد آنحضرت نے ان میں اور خراش بن صمہ غلام تمیم کے درمیان مواخات کرادی۔[7] ،[8]

غزوات

ترمیم

حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ آنے کے بعد شروع سے آخر تک تمام غزوات میں شریک رہے۔،[9]

خلافت فاروقی

ترمیم

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے فضائل کی وجہ سے ان کا بہت احترام کرتے تھے ایک دن یہ ان سے ملنے گئے تو عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اپنے گدھے پر بٹھایا اور لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ان کے علاوہ صرف ایک شخص اور ہے جو اس پر بیٹھنے کا مستحق ہے،خباب نے پوچھا امیر المومنین! وہ کون؟ فرمایا بلال ! آپ نے عرض کیا وہ میرے برابر کیوں کر مستحق ہو سکتے ہیں، مشرکین میں ان کے بہت سے مدد گار تھے ؛لیکن میرا پوچھنے والا سوائے اللہ کے کوئی نہ تھا، اس کے بعد اپنا استحقاق بتاتے ہوئے اپنے مصائب کی داستان سنائی۔[10] [11]

علالت و وفات

ترمیم

37ھ میں کوفہ میں بیمار پڑے، علاج سے افاقہ ہونے کی بجائے مرض اور بڑھ گیا، اس کی طوالت اور تکلیف سے گھبرا کر کہنے لگے کہ اگر خدا نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے موت کی دعا کرنے کی ممانعت نہ کی ہوتی تو میں دعا کرتا جب حالت زیادہ نازک ہوئی اور کفن لایا گیا تو اسے دیکھ کر آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے فرمانے لگے، آہ ! حمزہؓ کو پورا کفن بھی میسر نہ ہوا تھا، ایک معمولی چھوٹی سی چادر میں کفنائے گئے کہ اگر پیر ڈھانکا جاتا تو سر کھل جاتا اور سرڈھانکا جاتا تھا تو پاؤں کھل جاتے تھے ،آخر میں سرڈھانک کر اذخر(ایک قسم کی گھاس) سے پاؤں چھپائے گئے۔ کچھ لوگ عیادت کرنے کو آئے اور کہا ابو عبد اللہ تم کو خوش ہونا چاہیے،کل تک اپنے ساتھیوں سے مل جاؤ گے، یہ سن کر رقت طاری ہو گئی، فرمایا کہ میں موت سے نہیں گھبراتا تم لوگوں نے ایسے لوگوں کو یاد دلایا جو اس دنیا سے اجر کے مستحق اٹھے مجھ کو خوف ہے کہ کہیں ثواب آخرت کے بدلہ میں مجھ کو یہ دنیا نہ ملی ہو۔ [12] </ref>[13]

وصیت اور وفات

ترمیم

کوفہ والے عموماً اپنے مردوں کو شہر کے اندردفن کرتے تھے ؛لیکن انھوں نے وصیت کردی تھی کہ مجھ کو بیرون شہر دفن کرنا، اس وصیت کے مطابق ان کو شہر کے باہر دفن کیا گیا، آپ پہلے صحابی ہیں جن کی قبر سے کوفہ کے باہر ویرانہ کی آبادی ہوئی، وفات کے وقت بہتر سال کی عمر تھی، حضرت علی ؓ جنگ صفین سے واپس ہو رہے تھے کہ خبابؓ کی وفات کی اطلاع ملی ؛چنانچہ آپ ہی نے نماز جنازہ پڑھائی، [14] اس سے ثابت ہوتا ہے کہ 37ھ میں وفات پائی، ایک روایت یہ بھی ہے کہ 19ھ میں مدینہ میں پیوند خاک ہوئے اور حضرت عمرؓ نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔

ذریعہ ٔمعاش

ترمیم

زمانہ جاہلیت میں اور اس کے بعد عرصہ تک تلواریں بنا کر کسب معاش کرتے رہے، اسلام کا ابتدائی زمانہ بہت عسرت میں بسر ہوا؛لیکن کچھ دنوں کے بعد اللہ نے فارغ البال کیا اور اتنی دولت ملی کہ پھر کسی پیشہ وغیرہ کی احتیاج باقی نہیں رہی، وفات کے وقت چالیس ہزار درہم پس انداز تھے۔ [15] .[16]

فضل و کمال

ترمیم

خبابؓ کو آنحضرت کے اقوال واعمال کی بڑی جستجو رہتی تھی اوروہ کبھی کبھی آنحضرت کی لا علمی میں رات رات بھر آپ کے طریقہ عبادت کو دیکھتے اور صبح کو اس کے متعلق استفسار کرتے، ایک مرتبہ آنحضرت نے ساری رات نماز پڑھی،یہ پوری رات دیکھتے رہے اور صبح کو آکر پوچھا، فدیت بابی وامی ،یا رسول اللہ؛ رات کو آپ نے ایسی نماز پڑھی کہ اس کے قبل کبھی نہ پڑھی تھی، فرمایا وہ بیم ورجا کی نماز تھی میں نے بارگاہ ایزدی میں تین چیزوں کی دعا کی تھی،دو مقبول ہوئیں اور ایک نا مقبول، ایک دعا یہ تھی کہ اللہ مسلمانوں کو اس عذاب سے نہ ہلاک کرے جس سے گذشتہ امتیں ہلاک ہوئیں اور میرے دشمنوں کو مجھ پر غالب نہ کرے،یہ دونوں دعائیں تو قبول ہوگئیں؛ لیکن تیسری قبول نہیں ہوئی۔ [17] ان کی مرویات کی مجموعی تعداد 33 ہے ان میں سے 3 متفق علیہ ہیں اور 2 میں امام بخاری اور ایک میں مسلم منفرد ہیں، [18] صحابہ اور تابعین میں جن بزرگوں نے ان سے حدیثیں سنی ہیں، ان کے نام حسب ذیل ہیں: آپ کے صاحبزادہ عبد اللہ اور ابو امامہ باہلی، عبد اللہ بن شخیر، قیس ابن ابی حازم ، مسروق بن اجدع اور علقمہ بن قیس وغیرہ۔ [19] [20]

حوالہ جات

ترمیم
  1. عنوان : Хаббаб ибн Арат
  2. (اکمال،ص592)
  3. سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» خباب بن الأرت آرکائیو شدہ 2016-12-30 بذریعہ وے بیک مشین
  4. أسد الغابة في معرفة الصحابة - خباب بن الأرت آرکائیو شدہ 2016-12-30 بذریعہ وے بیک مشین
  5. (مریم:77،79)
  6. الطبقات الكبرى لابن سعد - خَبَّابُ بْنُ الأَرَتِّ (1) آرکائیو شدہ 2016-12-28 بذریعہ وے بیک مشین
  7. اسد الغابہ:2/106
  8. الإصابة في تمييز الصحابة - خباب بن الأرت (2) آرکائیو شدہ 2016-12-30 بذریعہ وے بیک مشین
  9. ابن سعد،جلد3،قسم1،صفحہ116
  10. مستدرک حاکم،جلد3،تذکرہ خباب بن ارت
  11. الطبقات الكبرى لابن سعد - خَبَّابُ بْنُ الأَرَتِّ (2) آرکائیو شدہ 2016-12-28 بذریعہ وے بیک مشین
  12. (ابن سعد،جز3،ق1،صفحہ:118،حضرت حمزہؓ کی تکفین کا واقعہ بخاری کتاب المغازی اورمسند ابن حنبل:5/109، میں ہے)
  13. الطبقات الكبرى لابن سعد - خَبَّابُ بْنُ الأَرَتِّ (3) آرکائیو شدہ 2016-12-28 بذریعہ وے بیک مشین
  14. (مستدرک حاکم:3/382)
  15. (ابن سعد،جلد3،ق1 تذکرہ خبابؓ)
  16. تهذيب الكمال للمزي» خباب بن الأرت بن جندلة بن سعد بن خزيمة بن كعب بن سعد آرکائیو شدہ 2016-12-30 بذریعہ وے بیک مشین
  17. (مسند احمد بن حنبل:5/108)
  18. (تہذیب الکمال تذکرہ خباب بن ارت)
  19. (تہذیب التہذیب :3/133)
  20. الإصابة في تمييز الصحابة - خباب بن الأرت (1) آرکائیو شدہ 2016-12-30 بذریعہ وے بیک مشین