عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ(وفات: ) مہاجر صحابی غزوہ بدر کے شہداء میں شامل تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سابقون الاولون میں سے ہیں۔آپ نے مدینہ ہجرت کی۔غزوہ بدر میں شہادت نوش فرمائی۔

عمیر بن ابی وقاص
عمیر بن ابی وقاص
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 609ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 13 مارچ 624ء (14–15 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات لڑائی میں مارا گیا   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب ترمیم

عمیر نام، والد کا نام ابو وقاص اور والدہ کا نام حمنہ بنت سفیان تھا، آپ حضرات سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاتح ایران کے حقیقی بھائی تھے، پورا سلسلہ نسب یہ ہے: عمیر بن ابی وقاص بن وہیب ابن سفیان بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی القرشی۔[1] [2]

اسلام ترمیم

حضرت عمیرؓ بن ابی وقاص کے برادرِاکبر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ان روشن ضمیر بزرگوں میں تھے جنھوں نے ابتداہی میں داعیِ اسلام کو لبیک کہا تھا، اس زمانہ میں حضرت عمیر ؓ بن ابی وقاص گو نہایت کمسن تھے تاہم فطری سلامتِ طبع وخردِ حق شناس عمر کی قیدو بند سے آزاد ہوتی ہے، انھوں نے اس عہدِ طفولیت میں بھائی کا ساتھ دیا اور ساقیِ اسلام کے ایک ہی جام نے ان کو نشہ توحید سے مخمور کر دیا۔ [3] [4]

ہجرت ترمیم

14 برس میں ساقی اسلام کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے، آنحضرت نے ان کی دل بستگی کے لیے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ رئیسِ قبیلہ عبد الاشہل کے چھوٹے بھائی عمرو بن معاذ رضی اللہ عنہ سے بھائی چارہ کرا دیا،یہ دونوں تقریباً ہم سن تھے۔ میں مجاہدین اسلام غزوۂ بدر کے خیال سے علم نبوی کے نیچے جمع ہوئے تو یہ بھی اس مجمع میں پہنچ گئے ان کے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کرکہ وہ مضطر و بیقرار ادھر ادھر چھپتے پھرتے ہیں، پوچھا جان برادر یہ کیا ہے؟ بولے بھائی جان میں بھی اس جنگ میں شریک ہونا چاہتا ہوں ،شاید خدا شہادت نصیب کرے،لیکن خوف ہے کہ رسولِ خدا مجھے چھوٹا سمجھ کر واپس فرما دیں گے۔ آنحضرت کے سامنے جب تمام جانثار یکے بعد یگرے معائنہ کے لیے پیش ہوئے تو عمیر کا خوف در حقیقت نہایت صحیح ثابت ہوا، کیونکہ آپ نے ان کی صغیر سنی کا خیال کرکے فرمایا "تم واپس جاؤ" عمیر یہ سن کر بے اختیار رونے لگے، اس طفلانہ گریہ وبکا کے ساتھ ان کے وفورجوش اورشوقِ شہادت نے حضور انور کے دل پر خاص اثر کیا اور جنگ میں شریک ہونے کی اجازت مل گئی اورآنحضرت نے خود اپنے دستِ مبارک سے ان کے تلوار باندھی۔[5] [6]

شہادت ترمیم

عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر اس وقت صرف 16 سال کی تھی، اچھی طرح اسلحہ باندھنا بھی نہ جانتے تھے ،بھائی نے میان میں تلوار باندھ دی اور جوش سے کفار میں گھس گئے لڑتے ہوئے عمرو بن عبدود کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔[7] [8][9]

حوالہ جات ترمیم