غلام محمد وستانوی
غلام محمد وستانوی (پیدائش: یکم جون 1950ء) ایک بھارتی مسلمان عالم دین و ماہرِ تعلیم ہیں، جو روایتی اسلامی تعلیم میں عصری مضامین کو شامل کرنے کی کوششوں کے لیے معروف ہیں۔ وہ اکل کوا، مہاراشٹر میں واقع جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کے بانی و مہتمم ہیں۔ یہ ادارہ بھارت کے اقلیتی طبقے کے زیر انتظام پہلے میڈیکل کالج کی میزبانی کرتا ہے، جو میڈیکل کونسل آف انڈیا (ایم سی آئی) سے تسلیم شدہ ہے۔ وستانوی نے 2011ء میں مختصر وقت کے لیے دار العلوم دیوبند کے مہتمم کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
خادم القرآن و المساجد، مولانا غلام محمد وستانوی | |
---|---|
دار العلوم دیوبند کے بارہویں مہتمم | |
برسر منصب 11 جنوری 2011ء تا 23 جولائی 2011ء | |
پیشرو | مرغوب الرحمن بجنوری |
جانشین | ابو القاسم نعمانی |
رکنِ مجلسِ شوری دارالعلوم دیوبند | |
برسر منصب 1419ھ مطابق 1998ء تاحال | |
ذاتی | |
پیدائش | کوساڑی، سورت ضلع، گجرات | 1 جون 1950
مذہب | اسلام |
اولاد |
|
فرقہ | سنی |
فقہی مسلک | حنفی |
معتقدات | ماتریدی |
تحریک | دیوبندی |
اساتذہ | محمد یونس جونپوری، عبد اللہ کاپودروی |
طریقت | چشتی |
پیشہ | عالم، ماہر تعلیم |
بانئ | |
مرتبہ | |
استاذ |
ابتدائی و تعلیمی زندگی
ترمیمغلام محمد وستانوی یکم جون 1950ء کو کوساڑی، ضلع سورت، گجرات میں پیدا ہوئے۔ 1952ء یا 1953ء میں ان کا خاندان وستان منتقل ہوا، جس کی طرف نسبت کرتے ہوئے وہ وستانوی لکھے جاتے ہیں۔ وستانوی نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ قوت الاسلام کوساڑی میں حاصل کی، جہاں انھوں نے حفظ قرآن کیا۔[3][4]
انھوں نے بعد ازاں مدرسہ شمس العلوم بروڈہ میں تعلیم حاصل کی اور مزید تعلیم کے لیے 1964ء میں دار العلوم فلاح دارین، ترکیسر، گجرات میں داخلہ لیا، جہاں انھوں نے آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی اور 1972ء کے اوائل میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ ان کے اساتذہ میں احمد بیمات، عبد اللہ کاپودروی، شیر علی افغانی اور ذو الفقار علی شامل تھے۔[3][5]
1972ء کے اواخر میں وستانوی نے مظاہر علوم سہارنپور، اتر پردیش میں داخلہ لیا اور دورۂ حدیث شریف پڑھ کر 1973ء میں وہاں سے فراغت حاصل کی۔ انھوں نے بخاری محمد یونس جونپوری سے پڑھی۔[3][5] اس کے علاوہ انھوں نے ایم بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔[6]
1970ء میں دار العلوم فلاح دارین کے زمانۂ طالب علمی کے دوران، انھوں نے محمد زکریا کاندھلوی سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور 1982ء میں شیخ کی وفات تک ان سے استفادہ کرتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد، سید صدیق احمد باندوی سے رجوع کیا اور ان کے خلیفہ و مُجاز ہوئے۔ مزید یہ کہ انھیں محمد یونس جونپوری سے بھی اجازتِ بیعت حاصل ہوئی۔[7]
عملی زندگی
ترمیمتدریسی و عملی زندگی
ترمیمتعلیم سے فراغت کے بعد وستانوی نے قصبہ بوڈھان، ضلع سورت میں دس دن تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد 1973ء میں وہ دار العلوم کنتھاریہ، بھروچ تشریف لے گئے، جہاں ابتدائی فارسی سے متوسطات تک کی مختلف کتابوں کی تدریس ان سے متعلق رہی۔[3][5]
1979ء میں انھوں نے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں یہ ادارہ محدود وسائل کے ساتھ چھ طلبہ اور ایک استاد کے ساتھ مکتب کی صورت میں قائم ہوا۔ وقت کے ساتھ یہ ادارہ ترقی کرتا گیا اور اسلامی و عصری تعلیم کے امتزاج کے باعث ایک نمایاں تعلیمی مرکز کے طور پر ابھرا۔ ادارے کے بہتر انتظام کی غرض سے وہ مستقل طور پر اکل کوا منتقل ہو گئے اور تب سے مہتمم کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔[8][9][10][11][12]
یہ ادارہ ابتدائی اور اعلیٰ ثانوی اسکولوں، بیچلر آف ایجوکیشن (B.Ed.) اور ڈپلوما ان ایجوکیشن (D.Ed.) کالجوں کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ تربیتی پروگرامز فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، ادارہ انجینئرنگ، فارمیسی اور میڈیکل کالج جیسے پیشہ ورانہ کورسز بھی پیش کرتا ہے، جنھیں میڈیکل کونسل آف انڈیا سے تسلیم شدہ حیثیت حاصل ہے۔ مزید یہ کہ آئی ٹی، دفتر انتظامیہ، سلائی اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ جیسے شعبوں میں بھی تربیتی مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس جامع تعلیم کا مقصد طلبہ کو مذہبی اور عصری معاشرتی ذمہ داریوں کے لیے تیار کرنا ہے۔[13][14]
وستانوی نے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کی بنیاد رکھنے اور اسے منظم کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کے مختلف علاقوں میں متعدد تعلیمی اور فلاحی ادارے بھی قائم کیے ہیں۔[15][16][17] وہ ان اداروں اور ملک بھر کے دیگر اداروں کے انتظام و انصرام میں بھی فعال طور پر شامل رہے ہیں۔[3]
رکن مجلسِ شوریٰ، دار العلوم دیوبند
ترمیم1419ھ مطابق 1998ء میں وستانوی دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے اور اپنے دورِ اہتمام میں بحیثیت مہتمم بھی مجلس شوریٰ کے رکن کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ تاحال مجلس شوریٰ کے رکن ہیں۔[18]
اہتمامِ دار العلوم دیوبند اور درپیش مسائل
ترمیمغلام محمد وستانوی 11 جنوری 2011ء کو دار العلوم دیوبند کے مہتمم (وائس چانسلر) منتخب ہوئے۔ اس فیصلے کو ادارے کی قیادت میں ایک اہم اصلاحی اقدام قرار دیا گیا۔[18][19] تاہم، 2002ء کے گجرات فسادات کے حوالے سے ان کے مفاہمتی بیانات نے تنازعات کو جنم دیا اور مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔[20] ان بیانات کو مدرسے کے روایتی نظریات سے متصادم سمجھا گیا، جس کی وجہ سے داخلی اختلافات نے جنم لیا۔[21]
23 جولائی 2011ء کو داخلی دباؤ اور اختلافات کے باعث وستانوی کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔[22][18]
عہدے سے برطرفی کے بعد وستانوی نے کہا کہ انھیں "کسی غلطی کے بغیر سزا دی گئی" اور ان کے بیانات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا گیا۔[23][24]
انھوں نے زور دیا کہ ان کا مقصد مسلم کمیونٹی کی ترقی اور ادارے کو مضبوط بنانے کے لیے اصلاحات متعارف کروانا تھا۔[25] ان کے مطابق، ان کی برطرفی اندرونی سیاست اور اصلاحات مخالف عناصر کی مزاحمت کا نتیجہ تھی۔[26]
حوالہ جات
ترمیممآخذ
ترمیم- ↑ ظفر صدیقی (29 مارچ 2019ء)۔ ""خدا بخشے، بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔" مولانا غلام محمد وستانوی کے صاحبزادے مولانا سعید وستانوی کے سانحۂ ارتحال پر مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کا اظہارِ تعزیت"۔ ملت ٹائمز۔ 2024-12-27 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-27
- ↑ بستوی 2018، صفحہ 16
- ^ ا ب پ ت ٹ قاسمی 2020، صفحہ 661
- ↑ قاسمی 2012، صفحہ 336–337
- ^ ا ب پ قاسمی 2012، صفحہ 337
- ↑ "Who is Ghulam Mohammed Vastanvi?" [غلام محمد وستانوی کون ہیں؟]. انڈیا ٹوڈے (بزبان انگریزی). 20 Jan 2011ء. Archived from the original on 2024-12-19. Retrieved 2024-12-22.
- ↑ قاسمی 2012، صفحہ 338–239
- ↑ یگنیش بھرت مہتا (29 Jan 2011ء). "Vastanvi a success story in Maharashtra town" [وستانوی: مہاراشٹر کے ایک قصبے میں کامیابی کی داستان]. ٹائمز آف انڈیا (بزبان انگریزی). Archived from the original on 2011-02-03. Retrieved 2024-12-22.
- ↑ اے مرصاب (16 Aug 2016ء). "15000 students salute national flag during Independence Day celebration at Jamia Islamia Ishaatul Uloom, Akkalkuwa" [جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں یوم آزادی کی تقریب کے دوران 15,000 طلبہ نے قومی پرچم کو سلامی پیش کی۔]. ٹو سرکلز (بزبان امریکی انگریزی). Archived from the original on 2016-08-19. Retrieved 2024-12-22.
- ↑ افتخار احمد قاسمی بستوی (مارچ 2018)۔ 39 سالہ خدماتِ جامعہ (پہلا ایڈیشن)۔ اکل کوا، نندوربار: جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم۔ ص 60، 263
- ↑ جم یارڈلی (20 Mar 2011ء). "ملّا: روایتی اور جدید تعلیم کے تقابل میں بحث کا مرکزی کردار". نیو یارک ٹائمز (بزبان انگریزی). Archived from the original on 2024-02-14. Retrieved 2024-12-20.
- ↑ سعید الرحمن اعظمی ندوی (مدیر)۔ "زيارة جامعة إشاعة العلوم بـ " أكل كوا " ومدرسة فلاح الدارين ب" تركيسر ""۔ مجلۃ البعث الاسلامی (بزبان عربی)۔ ج 39 شمارہ 1: 94
- ↑ ایس ایم اے کاظمی (31 جنوری 2011ء)۔ "It's all about control of Deoband seminary" [یہ معاملہ دیوبند مدرسے کے اختیار پر مرکوز ہے۔]۔ دی ٹریبیون۔ 2024-12-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-22
- ↑ نازیہ علوی (24 Jul 2011ء). "دارالعلوم دیوبند نے مودی نواز بیانات پر وستانوی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔". انڈیا ٹوڈے (بزبان انگریزی). Archived from the original on 2024-02-14. Retrieved 2024-12-22.
- ↑ معین قاضی (16 Mar 2017ء). "India's Emerging Modern Madrasas" [بھارت کے ابھرتے ہوئے جدید مدارس]. دی ڈپلومیٹ (بزبان امریکی انگریزی). Archived from the original on 2017-03-16. Retrieved 2024-12-22.
- ↑ "Maharashtra's first minority medical college recognised by MCI" [مہاراشٹر کا ایم سی آئی سے تسلیم شدہ پہلا اقلیتی میڈیکل کالج]۔ ملی گزٹ۔ 1 اگست 2013ء۔ 2021-05-14 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-22
- ↑ انصاری 2022، صفحہ 885–886
- ^ ا ب پ قاسمی 2020، صفحہ 661، 759
- ↑ عتیق خان (4 Dec 2021ء). "Maulana Vastanvi resigns" [مولانا وستانوی مستعفی ہو گئے۔]. دی ہندو (بزبان انگریزی). ISSN:0971-751X. Archived from the original on 2021-02-11. Retrieved 2024-12-22.
- ↑ "India Islamic school in Deoband sacks reformist leader" [دیوبند کے اسلامی مدرسے نے اصلاح پسند رہنما کو برطرف کر دیا۔]. بی بی سی نیوز (بزبان انگریزی). 25 Jul 2011ء. Archived from the original on 2024-12-21. Retrieved 2024-12-22.
- ↑ "Darul Uloom starts probe against Vastanvi" [دار العلوم نے وستانوی کے خلاف تحقیقات شروع کر دیں۔]. ہندوستان ٹائمز (بزبان انگریزی). 14 Apr 2011ء. Archived from the original on 2024-12-20. Retrieved 2024-12-22.
- ↑ "دار العلوم دیوبند کے مہتمم برطرف"۔ بی بی سی اردو۔ 24 جولائی 2011ء۔ 2023-02-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-22
- ↑ ""I was punished for no fault of mine"" ["مجھے بغیر کسی قصور کے سزا دی گئی۔"]. انڈیا ٹوڈے (بزبان انگریزی). 9 Aug 2011ء. Archived from the original on 2024-12-20. Retrieved 2024-12-22.
- ↑ "There was conspiracy against me: Vastanvi" [میرے خلاف سازش کی گئی: وستانوی]. ٹائمز آف انڈیا (بزبان انگریزی). 24 Jul 2011ء. ISSN:0971-8257. Archived from the original on 2024-12-21. Retrieved 2024-12-22.
- ↑ ودیا سبرامنیم (23 Feb 2011ء). "Vastanvi wins the battle, but with a caveat" [وستانوی نے جنگ جیت لی، لیکن ایک شرط کے ساتھ]. دی ہندو (بزبان انگریزی). ISSN:0971-751X. Archived from the original on 2021-04-11. Retrieved 2024-12-22.
- ↑ گیان ورما (25 Jan 2013ء). "سوال و جواب: مولانا غلام محمد وستانوی". بزنس اسٹینڈرڈ (بزبان انگریزی). Archived from the original on 2021-01-26. Retrieved 2024-12-22.
کتابیات
ترمیم- محمد اللہ خلیلی قاسمی (اکتوبر 2020)۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (تیسرا ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ OCLC:1345466013
- نظام الدین قاسمی (ستمبر 2012)۔ تذکرۂ اکابر (دوسرا ایڈیشن)۔ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا، نندوربار، مہاراشٹر۔ ص 338–339
مزید پڑھیے
ترمیم- خالد یوسف الشطی؛ صالح خالد المصباح؛ باسم عبد الرحمن، مدیران (ستمبر 2023ء)۔ "الشيخ غلام الوستانوي علّم نصف مليون طالب في مدارسه وجامعاته بدعـم كبير من دولة الكويت" [شیخ غلام وستانوی نے اپنے مدارس اور جامعات میں کویت کی ریاست کے بھرپور تعاون سے پانچ لاکھ طلبہ کو تعلیم دی۔] (PDF)۔ مجلة فنار (بزبان عربی)۔ کویت شمارہ 22: 22–23۔ 2024-11-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-09