فاطمہ بھٹو لکھاری، شاعرہ اور کالم نگار ہیں جو پاکستان، امریکہ اور برطانیہ کے مختلف اخباروں میں کالم بھی لکھتی ہیں۔فاطمہ بھٹو 29 مئی 1982ء کو افغان دار الحکومت کابل میں اس وقت پیدا ہوئیں، جب ان کے والد میر مرتضیٰ بھٹو جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ وہ اپنی پھوپھو بینظیر بھٹو اور ان کے خاوند آصف علی زرداری کی نقاد رہی ہیں جن پر ان کے والد کو قتل کرنے کا الزام ہے۔ [2] [3] ۔ 2010 میں لکھی جانے والی ان کی غیر افسانوی کتاب خون و شمشیر کے گیت (Songs Of Blood And Sword) ان کے خاندان کے متعلق ہے۔[4] فاطمہ بھٹو دا نیوز، دا گارڈین کے علاوہ دیگر ادارے کے لیے لکھتی رہتی ہیں۔ [5] فاطمہ بھٹو ذو الفقار علی بھٹو اور نصرت بھٹو (ایرانی کرد) کی پوتی، بینظیر ، آصف علی زرداری اور شاہ نواز بھٹو کی بھتیجی ہیں [6]۔ ان کے والد کو 1996 میں کراچی میں بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں قتل کر دیا گیا۔ وہ اپنی سوتیلی والدہ غنوی بھٹو کے ساتھ رہتی ہیں۔ [7]

فاطمہ بھٹو

معلومات شخصیت
پیدائش (1982-05-29) 29 مئی 1982 (عمر 42 برس)
کابل، افغانستان
رہائش کراچی، پاکستان
قومیت  پاکستان
مذہب اسلام
والد مرتضیٰ بھٹو   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
ذوالفقار علی بھٹو   ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رشتے دار بھٹو خاندان
خاندان بھٹو خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی برنارڈ کالج
اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز، یونیورسٹی آف لندن
جامعہ کولمبیا   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنفہ، کالم نگار، صحافی
پیشہ ورانہ زبان انگریزی [1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

تعلیم

ترمیم

فاطمہ بھٹو نے ابتدائی تعلیم دمشق(شام) میں حاصل کی۔ 1993ء میں اپنی والدہ غنویٰ بھٹو اور چھوٹے بھائی ذو الفقار بھٹو جونیئر کے ساتھ پاکستان آ گئیں۔ انھوں نے کراچی امریکن اسکول سے او لیول کیا، پھر 2004ء میں کولمبیا یونیورسٹی، نیویارک سے امتیازی نمبروں کے ساتھ گریجویشن کیا [8]۔ گریجویشن میں ان کا خاص مضمون مشرق وسطیٰ میں بولی جانے والی زبانیں اور کلچر تھا۔ 2005ء میں انھوں نے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقین اسٹیڈیز (یونیورسٹی آف لندن) سے ”جنوب ایشیائی حکومت اور سیاسیات“ میں ماسٹرز کیا، جس میں انھوں نے پاکستان میں تحریک مزاحمت پر اپنا مقالہ تحریر کیا۔ [9] [10]

تصانیف

ترمیم
  1. 1997ء پندرہ برس کی عمر میں فاطمہ بھٹو کا پہلا شعری مجموعہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان سے شائع ہوا جس کا عنوان صحرا کی سرگرشیاں (Whispers of the Deserts) تھا۔
  2. 2006ء میں دوسری کتاب 8 اکتوبر 2005ء کو آزاد کشمیر اورصوبہ سرحد میں آنے والے زلزلے کے موضوع پر ” 8:50a.m. 8 October 2005“ کے عنوان سے شائع ہوئی۔
  3. تیسری کتاب خون و شمشیر کے گیت (Songs Of Blood And Sword) شائع ہوئی۔
  4. فاطمہ بھٹو کے ناول The Runaways کا اردو ترجمہ 2023 میں جمہوری پبلیکیشنز نے مفرور کے نام سے شائع کیا۔ [11]


ذاتی زندگی اور دلچسپیاں

ترمیم

اپنے مذہبی عقیدے کے بارے میں ، فاطمہ بھٹو نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ایک ثقافتی مسلمان ہیں اور خود کو سیکولر سمجھتی ہیں البتہ وہ مسلمانوں اور اسلام سے جذباتی لگاؤ رکھتی ہیں۔ [12] [13]

فاطمہ بھٹو نے متعدد مواقع پر اسلام کا دفاع کیا اور مسلم خواتین کے برقع پہننے کے حق کی بھی حمایت کی۔ [14] [15]

فاطمہ بھٹو کو سماجی فلاح و بہبود کے کاموں سے گہری دلچسپی ہے، بالخصوص سندھ کی جیلوں میں قید خواتین کے ساتھ ہونے والا سلوک، ان کی توجہ کا خاص مرکز ہے۔ وہ نہ صرف اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ لکھتی رہی ہیں، بلکہ باقاعدگی کے ساتھ لاڑکانہ خواتین جیل کا معائنہ بھی کرتی ہیں۔ انھیں کراچی میں کچی آبادیوں میں بسنے والے لوگوں کے مسائل سے بھی گہری دلچسپی ہے ۔

شادی

ترمیم

فاطمہ بھٹو نے گراہم کے ساتھ 70 کلفٹن، کراچی میں 27 اپریل 2023 کو شادی کی[16][17][18][19]۔ فاطمہ بھٹو کے شوہر کا تعلق امریکا سے ہے اور وہ 1982ء میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں۔

فاطمہ بھٹو سے شادی سے قبل انھوں نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام تبدیل کر کے جبران رکھ لیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb162765160 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. Benazir covered up my father's murder, says Fatima Bhutto– The Hindu
  3. Benazir, the PM, was cruel: Fatima Bhutto– NDTV
  4. Declan Walsh (2010-04-29)۔ "Bhutto memoir provokes angry reaction in Pakistan"۔ The Guardian (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0261-3077۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2017 
  5. "Fatima launches her innings as Bhutto's struggle for political survival"۔ Pakistan: The Nation۔ 27 January 2006۔ 11 مارچ 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2010 
  6. Langley, William. (15 February 2009) Fatima Bhutto: A beauty to tame George Clooney – and even Pakistan?. Telegraph.co.uk. Retrieved on 2016-12-31.
  7. Hannah Fletcher (28 December 2007)۔ "Who's who in the Bhutto dynasty"۔ لندن ٹائمز۔ London۔ 30 اگست 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2010 
  8. Three Barnard alumnae nominated for Baileys Women’s Prize for Fiction آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ barnard.edu (Error: unknown archive URL) Barnard College
  9. "SOAS on brand wagon"۔ www.telegraphindia.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2017 
  10. "Fatima Bhutto receives Masters Degree"۔ Pakistan Press International۔ 16 December 2005۔ 02 جنوری 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2010 
  11. https://jumhooripublications.com/mafroor-by-fatima-bhutto
  12. Fatima Bhutto's interview in Italy Youtube
  13. Fatima Bhutto: ‘Everything is political, if you do it right’ Asia Times
  14. Fatima Bhutto: “The Islam that I know gives women a lot of rights” آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ vogue.in (Error: unknown archive URL) Vogue
  15. Fatima Bhutto: “Everyone connects the burqa to oppression, but this isn’t the full story” Verdict
  16. "Fatima Bhutto ties the knot in intimate nikkah ceremony"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 2023-04-28۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2023 
  17. Images Staff (2023-04-28)۔ "Author Fatima Bhutto ties the knot in Karachi"۔ Images (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2023 
  18. "Fatima Bhutto ties the knot in Karachi"۔ Daily Times (بزبان انگریزی)۔ 2023-04-28۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2023 
  19. "Fatima Bhutto gets married in Karachi"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2023