فطری زبان
فطری زبان (انگریزی: Natural language) کسی بھی عام انسان کے زمرے کے لوگوں سے بولی جانے والی زبان کو کہا جاتا ہے۔ یہ زبانیں عام طور سینکڑوں سالوں سے بنتے آئے ہیں اور عام طور سے ہر زبان کے سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں یا کروڑوں بولنے والے لوگ ہیں۔ ہر زبان کچھ الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ہر زبان کو اہل زبان کے نزدیک خوش نما اور غیر اہل زبان یا بیرونی طلبہ کے لیے پیچیدہ بنانے والا پہلو اس زبان سے جڑے محاورات کی جال ہے۔ مثلًا اردو زبان کا محاورہ میرا دل باغ باغ ہوا، غیر اردو اہل زبان کے نو سیکھوں کے لیے کبھی کبھی مشکل پیدا کر سکتا ہے کیونکہ اس میں باغ کا کہیں تذکرہ ایک سرے سے ہے ہی نہیں۔ چینی زبان میں زندہ دلی کو انگور دلی کہا جاتا ہے، جو غیر اہل زبان کو سمجھنے میں مشکل پیدا کر سکتا ہے۔ ہر زبان کے اپنے نحو و قواعد کے اصول ہیں۔ یہ اصول کبھی دوسری زبان سے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور کبھی منفرد بھی ہوتے ہیں۔ مثلًا عام طور سے واحد اور جمع ہر زبان میں عام ہے۔ تاہم عربی زبان میں تثنیہ بھی موجود ہے جو کسی چیز کے دو ہونے پر کہا جاتا ہے، مثلًا آنکھیں، ہاتھ، کان وغیرہ۔ کچھ زبانوں میں الفاظ میں مذکر و مونث کی کوئی بحث ہے ہی نہیں، جیسے کہ بنگالی زبان۔ جبکہ اردو میں یہ تفریق موجود ہے۔ کچھ زبانوں میں مذکر و مونث کے ساتھ ساتھ neuter یا غیر جانب دار جنس کی بھی ایک تفریق موجود ہوتی ہے۔ کچھ زبانوں ہر لفظ کے حروف کے تلفظ پر یکساں زور ہوتا ہے۔ جبکہ انگریزی زبان اور کچھ اور زبانوں میں زور یا stress کا تصور ہے، جس کے تحت الفاظ کے کچھ حروف پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور کچھ پر کم۔ فطری زبانوں میں لہجے کا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔ اہل زبان اس میں روانی سے بات کرتے ہیں جبکہ غیر اہل زبان میں غیر مانوسیت یا فطری تلفظ سے کچھ ہٹ کر ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ فطری زبانوں کا اپنا رسم الخط ہوتا ہے۔ کچھ رسم الخط کئی زبانوں کے لیے یکساں ہوتے ہیں، جیسے کہ لاطینی زبان کا رسم الخط کچھ رد و بدل کے ساتھ بیش تر یورپی زبانوں کے لیے مستعمل ہے۔ کچھ رسم الخط زبانوں کے ساتھ مخصوص ہوتے ہیں۔ کچھ زبانیں ایک سے زائد رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں، جیسے کہ پنجابی زبان گرمکھی اور شاہ مکھی دونوں میں لکھی جاتی ہے۔
مادری زبان
ترمیمگھر میں ورثے کے طور بچوں کو ملنے والی زبان مادری زبان ہوتی ہے۔ تاہم اس زبان کے تحفظ کے لیے مناسب ماحول کا ہونا ضروری ہے۔ اگر اس کا استعمال ہی کم ہو تو اس کے بھولنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ امریکہ، کینیڈا یا برطانیہ میں جا بسنے والے بھارتی اور پاکستانی انگریزی کے ساتھ اپنی مادری زبان بھی بولتے ہیں۔ مگر انھیں کئی بار کم استعمال کی وجہ سے اسے بھولنے کا ڈر بھی لگا رہتا ہے۔ اور یہی حال بنگلہ دیش، سعودی عرب یا کسی دوسرے ملک سے جاکر کسی دوسرے ملک میں بسنے والوں کا بھی ہے، کیونکہ وہ زبان کی بقا کے ماحول سے یہ لوگ اوپر اٹھ جاتے ہیں۔[1]