قائم چاندپوری
قائم چاندپوری (پیدائش: 1722ء– وفات: 1793ء) اٹھارہویں صدی عیسوی میں اردو زبان کے شاعر تھے۔ وہ اردو شاعری میں غزل کی صنف میں لکھنے والے اہم ترین شعرا میں سے ہیں۔ قائم چاندپوری مير تقی میر، خواجہ میر درد، مرزا محمد رفیع سودا، شیخ قلندر بخش جرات، شیخ غلام علی ہمدانی مصحفی کے ہم عصر تھے۔
قائم چاندپوری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1722ء بجنور ضلع |
وفات | سنہ 1793ء (70–71 سال) رام پور |
شہریت | بھارت |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمقائم کا نام محمد قیام الدین ، عرفیت محمد قائم تھی۔ متعدد تذکرہ ہائے نگار نے پیدائشی نام قیام الدین علی بھی لکھا ہے۔ تخلص ’’قائمؔ‘‘ تھا۔
پیدائش
ترمیمقائم کی پیدائش 1135ھ مطابق 1722ء میں بمقام چاندپور (ضلع بجنور) میں ہوئی۔محققین کی سال ہائے پیدائش سے متعلق قیاسی آراء ہیں۔ شاہ ولی اللہ اشتیاق کی رائے میں قائم کی پیدائش 1135ھ سے ایک دو سال قبل ہوئی تھی۔
دہلی میں سکونت
ترمیمقائم کا بچپن میں ہی دہلی آنا جانا شروع ہو گیا تھا۔ بعد ازاں دہلی میں سکونت مستقل ہو گئی تھی کیونکہ قائم دہلی میں ملازمت میں مشغول ہوئے۔دہلی میں سکونت کے دوران معاشی حالت اطمینان بخش رہی۔ عزت اور شہرت نے قدم چُومے اور صفِ اول کے شعرا میں شمار ہونے لگا۔
روز افزوں سیاسی خلفشار اور معاشی اِنتشار کے ہاتھوں مجبور ہوکر قائم 1170ھ میں یا ایک دو سال بعد دہلی کو خیرباد کہا اور اپنے وطن چاندپور چلے گئے۔دہلی میں مراجعت کے بعد قائم کسی ایک مقام پرسکون سے نہ بیٹھ سکے۔ عمر کے باقی حصے میں وہ نِت نئے حوادث سے دوچار ہوتے رہے اور تلاشِ روزگار کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ سرگرداں رہے۔
سخن گوئی
ترمیمشعر و شاعری کی جانب جب قائم کی طبیعت مائل ہوئی تو شاہ ہدایت (متوفی 1219ھ) سے مشورۂ سخن کرنے لگے۔ پھر خواجہ میر درد (متوفی 1199ھ) سے بھی اِصلاح لی لیکن تلمذ کا باقاعدہ سلسلہ مرزا سودا (متوفی 1195ھ) سے شروع ہوا۔قائم چاندپوری نوجوانی سے ہی اردو شاعری میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ علاوہ ازیں اُن کے زمانہ میں اردو زبان کے ممتاز ترین شعرا بقیدِ حیات تھے جن میں مير تقی میر، خواجہ میر درد، مرزا محمد رفیع سودا، شیخ قلندر بخش جرات، شیخ غلام علی ہمدانی مصحفی شامل تھے۔ خواجہ میر درد کے شاگرد ہوئے مگر چند عرصہ بعد الگ ہو گئے۔ 1155ھ/ 1742ء میں جب شاہ عالم ثانی کے عہد میں دہلی میں غارت گری ہوئی تو ٹانڈہ کے مقام پر زندگی بسر کرنے لگے اور نواب محمد یار خان کی خدمت میں آ گئے۔ ٹانڈہ میں شیخ غلام علی ہمدانی مصحفی سے ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ چند دن کے بعد قائم چاندپوری نے شیخ غلام علی ہمدانی مصحفی کو نواب محمد یار خان کے شعراء میں شامل کروا دیا۔
قائم چاندپوری بحیثیت شاعر
ترمیمقائم چاندپوری کا کلام اردو شاعری کی ہر صنف میں موجود ہے جیسے کہ غزل، رباعی، قطعہ، ٘مثنوی، قصیدہ، ترکیب، تاریخ اور بند۔ گویا ہر صنف شاعری میں قائم چاندپوری نے کلام کہا ہے۔ بعض اوقات ہجو اور فحش اشعار بھی کلام میں جابجا ملتے ہیں۔ قصیدہ پر بہت زور دیا ہے اور اکثر قصیدہ میں تلخ ترین اشعار بھی موجود ہیں۔ شاعری میں ایک دیوان بنام کلیاتِ قائم شائع ہوا ہے۔
تصنیف
ترمیمقائم چاندپوری کی تصانیف میں سے ایک تذکرہ مخزن نکات میسر آسکی ہے جو غالباً 1168ھ/ 1754ء میں تحریر کی گئی۔ اِس تصنیف میں ہر زمانے کے اردو شعرا کا تذکرہ ہے اور اِس کو مستند خیال کیا جاتا ہے۔قائم چاند پوری کے تذکرہ "مخزن نکات" کو اردو شعرا کے قدیم تذکروں میں شمار کیا جا تا ہے۔ "نکات الشعرا" اور "تذکرۂ ریختہ گویاں" کے بعد یہ تیسرا تذکرہ ہے۔ اسپرینگر نے قدیم ہندوستانی ادب کی تاریخ لکھنے کے سلسلے میں "مخزنِ نکات" کو سب سے اہم مآخذ قرار دیا ہے۔ اس تذکرہ میں ہر دور کے شعرا کا حال الگ الگ لکھا ہے جو مستند سمجھا جاتا ہے۔ نیز قائم نے اردو شاعری کے ادوار یا طبقات متعین کر کے تذکرے اور تاریخِ ادب میں باہم ربط قائم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو ادب کی تاریخ مرتب کرنے میں جتنی راہ نمائی اس تذکرہ سے مل سکتی ہے، کسی دوسرے معاصر تذکرے سے نہیں ملتی۔
آخری ایام اور وفات
ترمیمرام پور میں قیام ٹانڈہ کے دوران یہیں ہنگامہ غارت گری واقع ہوا تو یہاں سے ہجرت کرتے ہوئے رام پور پہنچے اور عرصہ تک قیام رہا۔ رام پور میں قیام کے دوران تنخواہ قلیل تھی تو لکھنؤ چلے آئے۔ لکھنؤ میں راجا ٹکیت رائے سے اپنی جائداد اور وطن کے عامل کے نام شقہ حاصل کیا اور قدیمی یومیہ بحال کروا لیا۔ لکھنؤ میں قیام کے بعد رام پور چلے آئے اور چند دن بعد 1208ھ/ 1793ء میں 71 سال کی عمر میں انتقال کیا۔