قابل خانی گبول

سنڌي بلوچ
(قابل خاني گبول سے رجوع مکرر)

گبول قبیلے سے تعلق رکھنے والا یہ خاندان ضلع ڈیرہ غازی خان موضع ٹھٹہ گبولاں (چوٹی زیریں) سے کسی جنگ کی صورت میں نکلا۔ کچھ افراد راجن پور چلے گئے کچھ دریائے سندھ کو پار کر کے سیت پور کے علاقے میں آ گئے۔

مختصر خاندانی پس منظر

ترمیم

ایک روایت ہے کہ وہ ٹھٹہ گبولاں سے کوچ کے بعد موجودہ ضلع راجن پور میں بمقام ہڑند بھی مقیم رہے اور 1950ء تک فاضل پور کی حدود میں (غالباً ریلوے اسٹیشن کے نواح میں آباد، سادات کے قبضے میں) اُن کی ملکیتی زمینوں کا ریکارڈ بھی موجود تھا۔ وہاں سے دریائے سندھ کے مشرقی کنارے ’’بیٹ بوسن‘‘ سے ملحق ’’موضع گبول‘‘ آباد کیا۔ جو اب تک ریکارڈ میں موجود ہے مگر دریا بُرد ہو چکا ہے۔ جب ناہڑ خاندان سیت پور پر حکمران تھا تو موضع گبول سے کچھ خاندان سیت پور منتقل ہو گئے۔ وہاں قلعہ گبولاں کی بنیاد رکھی اور اندازہً 200 سال تک وہیں آباد رہے، پھر وہاں سے چار بھائیوں ’’جان محمد خان گبول، خان محمد خان گبول، فتح خان گبول اور گانمن خان گبول‘‘ نے موجودہ تحصیل علی پور ہجرت کی اور موضع بیٹ نبی شاہ میں ’’چوکی گبول‘‘ کے نام سے اپنا علاقہ آباد کیا۔

تذکرہ روسائے پنجاب میں قلعہ گبولاں کا ذکر موجود ہے، جبکہ لالہ حکم چند بیان کرتے ہیں کہ سیت پور پر گوپانگ بلوچ قبیلہ کی حکمرانی بھی قائم رہی، مگر مزید معلومات نہ ملنے کی وجہ سے ان کے حکمرانوں پر روشنی نہیں ڈالی جا سکتی۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بلوچ رزمیہ نظموں میں ناہڑ قبیلے کا تذکرہ بھی موجود ہے جس کے حوالے سے میر گل خان نصیر لکھتے ہیں کہ بلوچ جن غیر بلوچ قبائل کے ساتھ بر سر پیکار رہے ان میں ناہڑ قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ خاندان جان محمد خان کے ایک بیٹے قابل خان گبول کی نسبت سے ’’ قابل خانی ‘‘ گبول مشہور ہوا۔ گبول قبیلہ میں سے قابل خان اپنے وقت کا سب سے بڑا زمیندار تھا۔ جس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس کے دس بیٹوں میں سے چھ کے پاس مختلف مواضعات کی نمبر داریاں رہیں۔ دوسرے ہمسایہ قبائل میں شاید ہی ایسی کوئی نظیر ملے۔[1]

تفصیل بابت جاگیرات قابل خان گبول

ترمیم
پسران قابل خان گبول جاگیرات
اللہ بخش خان گبول نمبردار، محمد بخش خان گبول، خدا بخش خان گبول موضع بیٹ نبی شاہ (چاہ منگلے والا، چاہ گوکل والا)
قادر بخش خان گبول نمبردار، نبی بخش خان گبول، حسن بخش خان گبول موضع بیٹ نبی شاہ (چاہ پتیانوالا، چاہ بڈھن والا)
غوث بخش خان گبول، الٰہی بخش خان گبول، غلام محمد خان گبول موضع گھلواں (حسن والا)
کریموں خان گبول نمبر دار موضع گھلواں (چاہ کارچ والا)

خان محمد خان کی اولاد’’ ڈکرے گبول‘‘ مشہور ہوئے۔ بھگت والا، موضع بیٹ مُلانوالی اُن کا آبائی علاقہ ہے۔ فتح خان گبول کی اولاد ’’جنگی گبول‘‘ چاہ جلے والا، موضع گھلواں میں آباد ہوئی۔ اس کے علاوہ دریائے چناب کے مغربی کنارے بستی گبول المعروف بہارے والی اور بستی فرید آباد کے پاس بھی جنگی گبول رہائش پزیر ہیں۔ گانمن خان گبول دریائے چناب کے پار’’ ٹھل حمزہ ‘‘جا کے آبادہوا۔ جہاں گبول اب کافی تعداد میں آباد ہیں مگر گانمن خان کی اولاد شناخت نہیں ہو سکی۔ اُس زمانے میں گبول قبیلہ کے کچھ خاندان پہلے سے علی پور میں آباد ہو چکے تھے۔ خاص طور پر وہ خاندان جو غالبا میر چاکر خان کے ساتھ ست گھرہ تک گئے اور پھرتے پھراتے واپس علی پور آ پہنچے۔ ان میں موجودہ میرالی گبول(اولاد میر خان گبول، حسن والا)، میہن والا کے گبول اور بستی خان محمد والا کے گبول شامل ہیں۔[2]

قابل خان گبول کے بزرگ روایت کرتے آئے ہیں کہ جب وہ ضلع ڈیرہ غازی خان کی حدود میں آباد تھے ان کی پہاڑی بلوچ قبائل سے لڑائیاں ہوتی رہیں۔ جنھیں مقامی طور پر ’’ مریوے ‘‘ کہا جاتا تھا۔ حملہ آور زیادہ تر بگٹی، مری قبائل سے تعلق رکھتے تھے جو’’ واہر ‘‘ یا لشکر کی صورت میں حملہ کرتے۔ اُس بھگدڑ میں لوگ تتر بتر ہو جاتے۔ مقامی زبان میں وہ اس حملے کو ’’بھگی‘‘ بھی کہتے تھے۔ گبول چونکہ میدانی علاقے میں آباد تھے اس لیے بگٹی قبائل حملہ کر کے پہاڑوں میں چلے جاتے، اکثر اوقات مال مویشی بھی ساتھ لے جاتے عین ممکن ہے یہی لڑائیاں کسی حد تک اُس علاقے سے انخلا کا سبب بنی ہوں۔

’’سر زمین بلوچستان ‘‘ میں صفحہ 156،159 پر اے۔ ڈبلیو ہیوگز لکھتے ہیں کہ گورشانی ڈیرہ غازی خان کی سرحد کے بد نام ڈاکو اور غارت گر ثابت ہوئے، خاص طور پر قبیلہ کی لاشاری شاخ مسلسل بگٹی، مری اور کھیتران کے ساتھ بر سر پیکار رہی۔ معلوم ہو کہ اس لاشاری شاخ کے گیارہ پاڑوں میں سے ایک گبول تھا۔ جبکہ اُن کی کل جنگی نفری 420 درج کی گئی ہے۔

الٰہی بخش خان گبول اور واحد بخش خان گبول بھی یہی روایت کرتے تھے کہ اُن کے آبا و اجداد کے رقبے ڈیرہ غازی خان میں تھے۔ بعد میں پٹواڑیوں نے بھی اُن سے رابطہ کیا۔ مگر اُن کے بیان کے مطابق اُس وقت قابل خان کی اولاد 150 سے زائدگھروں پر مُشتمل تھی۔ ہَر چند بھاگ دوڑسے وہ رقبے مل بھی جاتے تو کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ کیونکہ قابل خانیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور موجودہ علاقے میں بھی اُن کے اپنے زرعی رقبے تھے۔ یہاں میں ایک اور اہم روایت کا حوالہ دینا چاہوں گا جو تاریخی لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہے جس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ موجودہ گبول قبیلہ یقیناً گبول کے اس طائفہ سے ہیں جو میر چاکر خان کے ساتھ آئے اور بلوچوں کے اُس ہَرَاوَل دستے کا حصہ تھے جو سکھ راج کے خلاف معرکہ آراء ہوا۔ نتیجتاً ایک وسیع علاقہ میں بکھر تا چلا گیا یہاں تک کہ اس لشکر سے کچھ گبول بلوچ علی پور واپس آ پہنچے۔ اِس ضمن میں میہن والا، خان محمد والاکے گبولوں کا تذکرہ لازمی ہے جو لاہور کے پاس ست گھرہ سے علی پور واپس آئے۔ منشی خان گبول مُتمکن میہن والا کی روایت کے مطابق وہاں میہن کے نام سے موسوم موضع بھی اَب تک چلا آ رہا ہے۔[3]

قابل خان کے آباو اجداد کے پاس کتنی نمبر داریاں تھیں، اِس کی معلومات نہیں مل سکیں۔ مگراُن کے بڑے بیٹے اللہ بخش خان گبول جو اپنے علاقے کے زمیندار،اور اثر و رسوخ والی شخصیت تھیں،اُن کے پاس موضع ’’بیٹ نبی شاہ‘‘کی نمبر داری تھی۔ جو بعد میں اُن کے بیٹے خان محمد خان گبول کو منتقل ہوئی۔ اس دَور میں نمبرداری کے عہدے کو وہی اختیارات حاصل تھے جو آج قبائلی علاقہ کے پولیٹیکل ایجنٹ کو حاصل ہیں۔ خان محمد خان گبول کے بعد یہ نمبر داری سردار غلام فرید خان گبول پسر قادر بخش خان گبول کو منتقل ہوئی۔ اُن کے دور میں بر صغیر پاک و ہند پر انگریز قابض ہو چکے تھے۔ نہ صرف قابل خان کی اولاد بلکہ پورے علاقے میں سردار غلام فرید خان گبول جیسا دَھڑلے والا نمبر دار کوئی نہیں گذرا۔ اُن کی بابت ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک انگریز افسر پورے علاقے کے نمبر داروں کی کچہری قائم کرتا اور باری باری متعلقہ علاقے کے نمبر دار سے اُس کے لوگوں کے مسائل جانتا تھا۔ اُس فرنگی کا اندازِ تخاطب کبھی کبھارحاکمانہ بلکہ توہین آمیز ہو جاتا۔ مگر کوئی نمبر دار اُس کے رُوبرو نہ ہوتا۔ ایک بار غلام فرید خان گبول کے ساتھ مکالمہ میں اُسی انگریز افسر نے بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔ جس پر بِلا توقف انھوں نے اپنا جوتا اُتار کے اس انگریز کو آئندہ کا لائحہِ عمل سمجھا دیا۔ یہ واقعہ آج تک مشہور چلا آتا ہے۔

سردار غلام فرید خان گبول کے بعد ان کے بیٹے سردار کھنڈے خان گبول نمبردار بنے۔ اُن کے بعدان کے بیٹے سردار قادر بخش خان گبول، پھر ان کے بیٹے سردار حضور بخش خان اور غلام فرید خان گبول نمبر دار بیٹ نبی شاہ رہے۔ حضور بخش خان گبول اِس علاقے سے ضلع کونسل کے ارکان بھی مُنتخب ہوتے رہے ہَیں۔

غلام فرید خان گبول نمبردار موضع ’’بیٹ نبی شاہ‘‘ اور ناظم یونین کونسل ’’بیٹ مُلانوالی‘‘ بھی رہے۔ وہ اپنے علاقے کی ہر دلعزیز اور نہایت ایمان دار شخصیت تھیں۔ خود داری کے ساتھ ساتھ نیک نیتی کا عالم یہ تھا کہ علاقے سے کبھی ووٹ مانگنے نہیں جاتے تھے اور ہر بار بِلا مقابلہ منتخب ہو جاتے تھے۔ ان کی نہ جھکنے والی خوبی دشمنوں کے لیے چیلنج بن چکی تھی۔ آخر کار انھیں ایک قاتلانہ حملے میں شہید کر دیا گیا۔ اِس وقت ان کے بھتیجے قادر فرید خان گبول ولد حضور بخش خان گبول ناظم یونین کونسل ہٰذا ہیں۔ وہ متواتر دوسری بار اس نشت پر کامیاب ہوئے ہیں۔ اپنے علاقے کے لیے بے پناہ ترقیاتی کام اُن کی کامیابی کا راز ہیں۔

الٰہی بخش خان گبول جو اپنے علاقے کے نمبردار اور اثرو رسوخ والی شخصیت تھے، غلام محمد خان گبول کے بیٹے اور قابل خان گبول کے پوتے تھے۔ وہ ایک ترقی پسند اورمنصفانہ سوچ کے مالک تھے،یہی وجہ ہے کہ قابل خانی گبول کے علاوہ مختلف قصبوں اور دیہات کے لوگ اُن کے پاس مفید مشوروں اور ہمہ قسمی فیصلے کرانے آتے تو پولیس تک جانے کی نوبت نہ آتی۔ وہ تمام مسئلے گھر میں حل کر دیتے۔ غلام محمد خان گبول جب مثنوی مولانا روم کا درس دیتے تو لوگوں کا جم غفیر اکٹھا ہو جاتا۔ اُن کے تلامذہ میں جنّات بھی شامل تھے۔ دینی و دنیاوی علم کے حوالے سے اُن کا خاندان کافی خوش نصیب رہا ہے۔ غلام محمد خان گبول نے دو شادیاں کیں جن سے تین بیٹے پیدا ہوئے:

1۔ الٰہی بخش خان گبول 2۔ رحیم بخش خان گبول 3۔ واحد بخش خان گبول

الٰہی بخش خان اور رحیم بخش خان کی والدہ کا تعلق جنگی جبکہ واحد بخش خان گبول کی والدہ کا تعلق علی خان گبول کے خاندان سے تھا۔ رحیم بخش خان گبول ایک بالغ النّظر علمی شخصیت تھیں۔ اُنھوں نے اپنے والد صاحب کی تحریر کردہ فارسی بیاض کا بَہ زُبانِ اُردو ترجمہ بھی کیا۔ واحد بخش خان گبول اپنے دَور کی اِس قدر قابل عزت شخص قرار پائے کہ جب خواجہ عبد الکریمؒ کوٹ مٹھن والے علی پور تشریف لاتے تو اُنہی کے ہاں ٹھہرتے۔ چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کے خواجہ صاحب ہمیشہ انھیں اپنے برابر بٹھاتے۔ جس کی وجہ بزرگ یہ بتاتے ہیں کہ واحد بخش خان کے والدِ گرامی دراصل خواجہ فخر جہان ؒکے مُرید اور خواجہ غلام فریدؒ کے پیر بھائی اور بہت قریبی دوست تھے۔ خواجہ عبد الکریم ؒ غلام محمد خان گبول سے مثنوی شریف بھی پڑھتے رہے۔ بوجہ اُن کے والد کے اِس مقام کے وہ اُن کی اِس قدر تعظیم بجا لاتے۔ الٰہی بخش خان مویشی پالتے اور کھیتی باڑی کرتے تھے۔ اُن کے ہاں چار بیٹے ہوئے:

1۔ غلام سرور خان گبول 2۔ غلام نبی خان گبول 3۔ غلام اکبر خان گبول 4۔ غلام فرید خان گبول

چاروں بھائیوں میں سے صرف غلام نبی خان گبول کا رُجحان تعلیم کی طرف رہا۔ غلام سرور خان کا مشغلہ کھیتی باڑی رہا اور علم طب ان کو اپنے دادا غلام محمد خان گبول اور چچا سسر واحد بخش خان گبول سے ورثے میں مِلاتھا۔

غلام نبی خان نے میٹرک تک تعلیم ہائی اسکول علی پور سے حاصل کی۔ اُس وقت پاکستان کو بنے زیادہ عرصہ نہ ہوا ہو گا۔ علی پور تحصیل میں ہائر سیکنڈری تک کوئی ادارہ نہ تھا۔ اس لیے انھوں نے ’’ ایمرسن کالج ملتان‘‘ میں ایف۔ ایس۔ سی میں داخلہ لیا۔ پھر بطور سیکریٹری یونین کونسلز تعینات رہے۔ آخر کار ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لی اور تادمِ مرگ کاشت کاری اور زمینداری سے منسلک رہے۔

غلام اکبر خان گبول نے مڈل تک تعلیم حاصل کی مگر اُن کا رجحان شعر و سخن کی طرف زیادہ تھا۔ ان کا شمار ضلع مظفر گڑھ کے سر فہرست شعرا کرام میں ہوتا تھا۔ مگر کم عمری ہی سے بینائی کمزور ہونے کے سبب مشاعروں میں جانا چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ اگر ریڈیو ملتان سے کوئی وفد انھیں ملنے آتا تو وہ باہر ڈیرے پہ کبھی آتے اور کبھی انکار کر دیتے کہ میری بینائی کمزور ہے۔ ذاتی اور فنی حوالے سے اُن کی خودداری کی مثال نہ تھی۔ اُن کی محفل میں اُن کا کلام سن کر اٹھنے والا شخص خوش قسمت سمجھا جاتا تھا۔ غلام فرید خان گبول حیات ہیں اورکاشت کاری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔

موضع گھلواں دوم میں گبول قبیلہ کی کافی آبادی ہے جس کی وجہ سے مقامی سیاست میں انھیں شروع سے اہمیت حاصل رہی۔ پاکستان بننے سے پہلے اورپھر بعد میں بھی موضع گھلواں کی نمبر داری گبول برادری کے پاس رہی۔

کریموں خان گبول ولد قابل خان گبول اپنے علاقے کے زمیندارتھے۔ اُن کی بہادری اور طاقت وری کی مثالیں اب تک مشہور ہیں۔ غالباً 1850ء کے قریب کی بات ہے جب ہندو بھی اس علاقے میں آباد تھے، ایک ہندو عورت کی طاقت کا بہت چرچا تھا مگر اس نے کریموں خان کا صرف نام سنا تھا۔ کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ ہندو عورت کریموں خان گبول کے پاس گندم بیچنے آئی۔ کریموں خان نے تھوڑی سی گندم مٹھی میں لی اور اس اس قدر دبایا کہ دانوں سے کچھ آٹا نکل آیا اور ساتھ ہی کہا کہ بڑھیا تمھاری گندم کی کیا قیمت دوں جسے دیمک لگی ہوئی ہے۔ بڑھیا تعجّب سے گندم کو دیکھتے ہوئے فوراًسوالیہ انداز میں بولی کہ کریموں گبول تمہی ہو؟ اِسی طرح کنویں پر اکیلے’’ کانجن ‘‘ رکھنے اور سرکاری بیل کو اکیلے گرانے کے واقعات زُبان زدِ عام ہیں۔

کریموں خان گبول کے بعداللہ وسائے خان گبول پھر اُن کے بیٹے فاضل خان گبول نمبردار موضع گھلواں رہے۔ فاضل خان گبول چونکہ سادہ طبیعت کے مالک اوردرویش صفت شخص تھے اور اُن کا حلقۂ احباب بھی زیادہ وسیع نہ تھا۔ اِس لیے نمبر داری کے دفتر کو بخوبی چلانے کے لیے عملی اختیار الٰہی بخش خان گبول کے سپرد کر دیا جو اپنے دور کی’’ گراں نندغ‘‘ شخصیت تھیں۔ دراصل موضع گھلواں کی نمبر داری فاضل خان گبول کے خاندان ہی میں چلی آ تی تھی۔ مگر ایک علمی، بااثر اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہونے کے ناطے نمبر داری کا دفترالٰہی بخش خان کے ماتحت رہا۔ اُن کااثرورسوخ ہیڈ پنجند کے پار تک کی گبول برادری میں بھی تھا۔ کسی بھی فیصلے میں اُن کی رائے حتمی سمجھی جاتی۔ فاضل خان گبول کے بعد اُن کے بیٹے خادم حسین خان گبول بھی نمبر دار رہے۔ بزرگ روایت کرتے ہیں کہ کریموں خان کو بَہ سبب جھگڑالو طبیعت، قابل خان نے اَپنی وراثت میں سے غیر آباد اور جنگل والا حصہ دیا جو بتدریج ترقی کر کے موجودہ بستی ’ ’کارچ والا ‘‘ کے نام سے موسوم ہوا۔ کریموں خان گبول کی اولاد نمبر دار کی عرفیت سے بھی جانی جاتی ہے۔ میر خان گبول کی اولاد سے سردار رسول بحش خان گبول ایسی شخصیت کے طور پر سامنے آئے جن کا کوئی ثانی دوبارہ نہ مل سکا۔ گھوٹکی سے سردار عالم خان گبول کے ساتھ اُن کے دوستانہ تعلقات تھے جو اکثر آپ کے پاس علی پور آتے رہے۔ اُن کے صورت میں گبول قبیلہ کو پہلی بار ایسا راہنما ملا جو نہایت بے باک، نڈر، راست گو اور ایمان دار تھا۔ مگر افسوس کہ زندگی نے وفا نہ کی۔ یوں گبول قبیلہ کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کا خواب بھی شرمندئہ تعبیر نہ ہو سکا۔

اُن کی وفات کے بعدمحمد اجمل خان گبول نے گبول برادری کی باگ ڈور سنبھالی۔ وہ الٰہی بخش خان گبول کے پوتے تھے۔ سردار رسول بخش خان کے مشن کو جاری رکھنے کے عزم کے حوالے سے انھوں نے پرانے اور مخلص قوم پر ست دوستوں اور خاص طور پر نوجوانوں کو ترجیح دی۔ اپنی بساط کے مطابق وہ اپنے علاقے کی خدمت کرتے رہے۔ بلا شبہ ان کا جذبہ اور حوصلہ ایک چٹان کی مانند تھا۔ مگر ا ن کا کہنا ہے کہ تعلیم یافتہ اور خاص کر نوجوانوں کو گبول برادری کے لیے فلاحی کام کرنے چاہیں۔ اُن کا خواب تھا کہ پوری تحصیل علی پور کی گبول برادری کو ایک پلیٹ فارم پر لا کرباشعور ،مخلص اور صحیح معنوں میں برادری کی خدمت کرنے والا ’’وفاق‘‘پیدا کیاجائے۔ اُن کی شخصیت کے پہلوؤں کا احاطہ تو درکنار ان کی وفات کے بعد اُن کے قد کا راہنما ملنا بھی نا ممکن ہے۔ اُنھوں نے سندھ کے گبولوں کے ساتھ بھی روابط رکھے۔ وہ ’’پگوا‘‘ کے بانی رُکن تھے اور اُس کا منشور بھی اُنھوں نے مُرتب کیا تھا۔ پگوا کی تنظیمی ساخت کے حوالے سے اُن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔

اگست 2001ء میں پرویز مشرف نے نیا لوکل گورنمنٹ سسٹم متعارف کروایا تواُسی سال بلدیاتی انتخابات میں محمد مظہر خان گبول نائب ناظم یونین کونسل گھلواں منتخب ہوئے۔ پھر 2005ء میں دوبارہ بلدیاتی انتخابات ہوئے تو پھر بھی مظہر خان گبول نے نائب ناظم یونین کونسل گھلواں کے لیے الیکشن لڑا۔ وہ سردار رسول بخش خان گبول کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اِس وقت علاقائی سیاست میں اُن کا اہم کردار ہے۔[4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تذکرہ روسائے پنجاب از:سر لیپل ایچ گرفین، کرنل میسی، سید نوازش علی ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز (1993)
  2. بلوچ قوم-2 از: ڈاکٹر شاہ محمد مری ناشر: گوشہ ادب، جناح روڈ کوئٹہ۔
  3. سر زمینِ بلوچستان از: اے-ڈبلیو ہیوگز ناشر: قلات پبلشرز کوئٹہ
  4. گبول قبیلہ کی جنوبی پنجاب آمد صفحہ 279، ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور (2014)

دیگر ماخذ

ترمیم
  • مہماتِ بلوچستان، ضمیمہ اول از: کامل القادری ناشر: قلات پبلشرز کوئٹہ
  • بلوچ تاریخ کے آئینے میں از: مظہر علی خان لاشاری ناشر: علم و عرفان پبلشرز لاہور۔
  • پنجاب کی ذاتیں از: ڈینزل ابسٹن ترجمہ: یاسر جواد ناشر: بک ہوم، 26- مزنگ روڈ لاہور۔
  • بلوچ قبائل از: کامران اعظم سوہدروی ناشر: تخلیقات پبلشرز، 6-بیگم روڈ مزنگ لاہور۔

بیرونی روابط

ترمیم