قاسم سلیمانی
قاسم سلیمانی (پیدائش:11 مارچ 1957ء، کرمان - وفات: 3 جنوری 2020ء، بغداد) ایرانی میجر جنرل تھے اور امریکی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے تک سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے بازو قدس فورس کے سپہ سالار اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔[13] ایران عراق جنگ کے دوران میں وہ لشکر 41 ثار اللہ کرمان کے قائد تھے۔ وہ 24 جنوری 2011ء کو میجر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سید علی خامنہ ای رہبر معظم ایران نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں شہید زندہ کا خطاب دیا۔ اور بعد از مرگ انھیں لیفٹینٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی۔
حاجی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
قاسم سلیمانی | |||||||
(فارسی میں: قاسم سلیمانی) | |||||||
مناصب | |||||||
کمانڈر قدس فورس (2 ) | |||||||
برسر عہدہ 1998 – 2020 |
|||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 11 مارچ 1957ء [1][2] قناۃ ملک، کرمان |
||||||
وفات | 3 جنوری 2020ء (63 سال)[3][4][2] | ||||||
وجہ وفات | ڈرون حملہ [5] | ||||||
طرز وفات | قتل [5] | ||||||
شہریت | پہلوی ایران (1957–1979) ایران (1979–2020) |
||||||
اولاد | زینب، محمد رضا[6] | ||||||
تعداد اولاد | 6 | ||||||
رشتے دار | حسن سلیمانی (والد)[7]فاطمہ سلیمانی (والدہ)[8]سهراب سلیمانی (برادر)[9] | ||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | عسکری قائد ، فوجی افسر | ||||||
مادری زبان | فارسی | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | فارسی ، عربی | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
وفاداری | ایران | ||||||
شاخ | سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی | ||||||
عہدہ | لیفٹیننٹ جنرل | ||||||
کمانڈر | قدس فورس | ||||||
لڑائیاں اور جنگیں | ایران عراق جنگ ، شمالی لبنان تنازع ، جنگ افغانستان ، لبنان جنگ، 2006ء ، عراقی جنگ ، ایران–اسرائیل پراکسی جنگ ، شامی خانہ جنگی ، عراق شورش (2011-13) ، عراقی خانہ جنگی (2014ء–تاحال) ، 2019–2020 خلیج فارس بحران | ||||||
اعزازات | |||||||
IMDB پر صفحات | |||||||
درستی - ترمیم |
سلیمانی نے لبنان میں حزب اللہ کی عسکری قوت و تربیت، جنوبی لبنان سے اسرائیل کی پسپائی، جنگ افغانستان، صدام حسین کے بعد عراق میں سیاسی اور سفارتی فضا کی تشکیل نو، شام کی خانہ جنگی اور عراق میں داعش سے مقابلے میں اہم کردار ادا کیا۔ داعش سے مقابلے سے پہلے وہ منظر عام پر آنے سے گریز کرتے تھے؛ لیکن ان کی عراق میں موجودگی اور داعش سے نبرد آزمائی کے دوران میں حکومت ایران نے متعدد بار ان کی عسکری کامیابیوں کی تصاویر کو شائع کیا جس سے ان کی شناخت عوام تک پہنچی اور لوگ نہ صرف یہ کہ ان سے متعارف ہوئے بلکہ انھیں چہرے سے پہچاننے لگے۔ یہیں سے ان کی ہردلعزیزی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ میڈیا میں وہ عموماً "ظلی کماندار" (Shadow commander) کے لقب سے مشہور تھے۔ سلیمانی واشنگٹن کی نظر میں ایسی شخصیت تھے جن کے ہاتھ امریکی افواج کے خون سے رنگین تھے۔ جبکہ ایران میں ان کی مقبولیت کی وجہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں اور دباؤ کے امریکا مخالف اقدامات تھے۔
سلیمانی 3 جنوری 2020ء کو بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب امریکی فضائی ڈرون حملے میں ابو مہدی المہندس اور دس دیگر افراد کے ہمراہ شہید ہوئے۔ اس حملے کا حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔
زندگی
قاسم سلیمانی 11 مارچ 1957 کو ایران کے صوبہ کرمان کے ضلع رابر کے قبائلی انداز کے ایک پہاڑی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائے جوانی میں وہ تعمیرات کے شعبے سے منسلک ہو گئے اور کرمان کے محکمہ آب رسانی سے بطور ٹھیکیدار وابستہ تھے۔
ایران میں 1979کے اسلامی انقلاب اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی تشکیل کے بعد سلیمانی اس عظیم مقصد سے منسلک ہو گئے۔
ایران عراق جنگ
ایران کے اسلامی انقلاب کے وقت سلیمانی کرمان کے ادارہ آب رسانی میں کام کر رہے تھے اسی دوران میں وہ سپاہ افتخاری نامی تنظیم کے رکن بن گئے۔ایران عراق جنگ کی شروعات میں سلیمانی نے کرمان کے عسکری دستوں پر مشتمل ایک بٹالین تشکیل دی جو بعد میں 41 ثاراللہ بریگیڈ میں بدل گئی۔وہ اس لشکر کی تشکیل 1982 سے لے کر 1997 میں نیروی قدس میں شمولیت تک اس بریگیڈ کے سربراہ رہے۔ ان کی سپاہ سالاری میں اس لشکر نے جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا۔
جنگ کے بعد
ایران عراق جنگ کا اختتام 1988ء کو ہوا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد لشکر 41 ثاراللہ قاسم سلیمانی کی قیادت میں کرمان واپس آگیا اور مشرقی سرحدوں پر اودھم مچاتے سمگلروں اور منشیات فروشوں کی سرکوبی میں مصروف ہو گیا۔ قاسم سلیمانی سپاہ قدس کی کمان سنبھالنے تک اسی لشکر کی سربراہی کرتے رہے۔
سلیمانی ، جولائی 1999کو طلبہ مظاہروں کے تناظر میں فوجی کمانڈروں کی طرف سے اس وقت کے صدر محمد خاتمی کو لکھے گئے ایک خط پر دستخط کرنے والے جرنیلوں میں سے ایک تھے۔
نیروی قدس کی سپہ سالاری
قاسم سلیمانی کو 1998 میں نیروی قدس سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا سپہ سالار مقرر کیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں طالبان عروج پر تھے۔کردستان کی سول جنگ کے تجربے کی بنیاد پر وہ بہترین انتخاب تھے ؛ اور اس وقت افغانستان طالبان کے دور میں سول جنگ کا شکار ہو چکا تھا تو ایسے میں وہی ان محاذوں پر بہترین کردار ادا کرسکتے تھے۔اور اہم ترین بات یہ تھی کہ قاسم سلیمانی نے سپاہ قدس کی سپہ سالاری سنبھالنے تک جو تجربہ آٹھ سالہ ایران عراق جنگ اور اس کے بعد ایران اور افغانستان کے منشیات فروشوں اور سمگلروں کی سرکوبی سے حاصل کیا تھا وہ عسکری اعتبار سے بہت ہی قیمتی تھا۔موساد کے سابق سربراہ میئر داگان کے بقول:
“وہ ہر پہلو سے نظام پر نگاہ اور گرفت رکھنے والا ہے اور شاید وہی ایک ہے جسے میں سیاسی فطین کہہ رہا ہوں۔”
سپاہ قدس میں نمائندہ ولی فقیہ حجت الاسلام علی شیرازی کہتے ہیں کہ سلیمانی نے اپنی تعیناتی کے دوران میں ایک ریال یا ایک ڈالر لینے کے بھی روادار نہ تھے اور اکثر مجھ سے کہتے میں اپنے بیوی بچوں کی اخراجات خود برداشت کرتا ہوں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگرچہ قاسم سلیمانی کی شہادت ہمارے لیے انتہائی بڑا صدمہ ہے لیکن وہ ہمیشہ اس کی آرزو کرتے تھے اور میں جانتا ہوں کہ یہ ان کی چالیس سالہ خواہش تھی۔
قتل
قاسم سلیمانی کو 3 جنوری 2020 کو مقامی وقت کے مطابق صبح 1:00 بجے (2 جنوری کو 22:00 UTC) بغداد بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایک امریکی ڈرون حملے میں قتل کیا گیا۔ بی بی سی خبر، این بی سی خبر، ڈی ڈبلیو خبر، ٹائم، دی گارڈین اور دیگر میڈیا اداروں نے سلیمانی کے قتل کو "قتل" یا "قتل کی کارروائی" قرار دیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر حکام نے اس کا موازنہ دوسری جنگ عظیم میں آپریشن وینجنس سے کیا، جب امریکی پائلٹوں نے جاپانی ایڈمرل ایسوروکو یاماموتو کے طیارے کو مار گرایا تھا۔ اس موازنے سے نیویارک ٹائمز اور دیگر معروف میڈیا اور ماہرین نے بھی اتفاق کیا ہے۔
قاسم سلیمانی عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے اور ابھی ابھی اپنے طیارے سے اترے تھے، جو لبنان یا شام سے عراق پہنچا تھا۔ عادل عبدالمہدی نے کہا کہ سلیمانی ایران کا جواب لے کر آ رہے تھے جو عراق نے سعودی عرب کی جانب سے بھیجا تھا تاکہ خطے میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔ وزیر اعظم نے پیغام کے عین مواد کو ظاہر نہیں کیا۔ اس حملے میں پاپولر موبلائزیشن فورسز (پ.م.ف) کے چار ارکان بھی مارے گئے، جن میں ابو مہدی المہندس بھی شامل تھے، جو عراقی فوجی کمانڈر تھے اور پ.م.ف کے سربراہ تھے۔ سلیمانی کی لاش کو ان کی انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی سے شناخت کیا گیا۔
سلیمانی کو موت کے بعد لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی اور ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی اور سابق IRGC کمانڈر محسن رضائی نے انہیں شہید کے طور پر سراہا۔ سلیمانی کے بعد قاسم سلیمانی کی جگہ اسماعیل قاآنی کو قدس فورس کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔
ایرانی طلبہ نیوز ایجنسی کے مطابق، عراقی ال-عہد نیٹ ورک نے بتایا کہ سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کو مارنے والے ڈرونز کے بارے میں مختلف بیانات ہیں۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی ڈرونز کویت کی زمین سے اڑان بھر کر عراق میں داخل ہوئے، جس کی کویتی مسلح افواج کے ہیڈکوارٹر نے چند گھنٹوں بعد تردید کی۔ دوسرا بیان یہ ہے کہ ایک امریکی UAV قطر کے العدید بیس سے اڑا۔ عراقی پارلیمنٹ کے رکن احمد الاسدی کے مطابق: "قتل کی کارروائی کرنے والے ڈرونز تین امریکی UAVs تھے جو عین الاسد کے فوجی اڈے سے اڑے اور جمعرات کی صبح بغداد کے آسمان میں 20 گھنٹے تک پرواز کرتے رہے اور پھر قتل کی کارروائی کے بعد براہ راست عین الاسد بیس پر واپس آگئے۔" ریڈیو فردا کے مطابق، امریکی میڈیا نے بتایا کہ یہ ڈرونز MQ-9 ریپر تھے۔
جنازہ اور تدفین
قاسم سلیمانی، ابومهدی المهندس اور دیگر تمام ہلاک شدگان کی نماز جنازہ 4 جنوری 2020 کو بغداد اور کاظمین میں ادا کی گئی جس میں ہزاروں عراقی شہریوں نے شرکت کی۔
اس سے اگلے روز 5 جنوری 2020 کو جنرل قاسم سلیمانی ،ابومهدی المهندس اور دیگر تمام ایرانی شہداء کے اجساد خاکی ایران لائے گئے جہاں پہلے اہواز اور مشہد کے شہروں میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ان دو شہروں میں لاکھوں لوگ تھے جو ریاستہائے متحدہ امریکا سے انتقام چاہتے تھے۔
جنوری کی 6 تاریخ سنہ 2020 کو قاسم سلیمانی، ابومهدی المهندس اور دیگر شہداء کی نماز جنازہ تہران اور قُم میں ادا کی گئی۔ تہران میں شہداء کی نماز جنازہ رہبر معظم جمہوری اسلامی ایران سید علی خامنہ ای کی اقتداء میں ادا کی گئی۔تہران میں ادا کی گئی نماز جنازہ میں کئی لاکھ کا اجتماع تھا اور میڈیا کے کچھ چینلوں کے مطابق امام خمینی کی نماز جنازہ کے بعد یہ ایران میں جنازہ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔
ایران کاجوابی حملہ
قاسم سلیمانی کے اس قتل کے رد عمل میں ایران نے 8 جنوری 2020 ء کے دن کرمانشاہ سے علی الصبح عراق کے صوبہ الانبار میں واقع امریکی فضائی مستقر عین الاسد پر کئی بیلیسٹک میزائیلوں سے حملہ کر دیا۔
حوالہ جات
- ↑ Arrêté du 23 juillet 2014 portant application des articles L. 562-2 et suivants du code monétaire et financier - ANNEXE IILISTE DES PERSONNES PHYSIQUES FAISANT L'OBJET D'UN GEL DES AVOIRS
- ^ ا ب https://cs.isabart.org/person/165070 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
- ↑ Qasem Soleimani: US kills top Iranian general in Baghdad air strike
- ↑ Les Etats-Unis tuent le puissant général iranien Ghassem Soleimani dans une frappe en Irak
- ^ ا ب ناشر: نیو یارک ٹائمز — تاریخ اشاعت: 3 جنوری 2020 — U.S. Strike in Iraq Kills Qassim Suleimani, Commander of Iranian Forces
- ↑ خبرگزاری باشگاہ خبرنگاران (2020-01-03)۔ "تصویری از فرزند سردار سلیمانی پس از اعلام خبر شهادت پدرش"۔ خبرگزاری باشگاہ خبرنگاران۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جنوری 2020
- ↑ "پدر سردار قاسم سلیمانی دار فانی را وداع گفت"۔ ایرنا۔ 31 اکتوبر 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 جنوری 2020
- ↑ "عکس - حضور سردار سلیمانی بر مزار مادرش در روز مادر"۔ خبرآنلاین۔ 9 مارچ 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 جنوری 2020
- ↑ آمریکا برادر قاسم سلیمانی را تحریم کرد آرکائیو شدہ 14 اپریل 2017 بذریعہ وے بیک مشین، بیبیسی فارسی
- ↑ Soleimani Receives Iran's Highest Military Medal From Khamenei
- ↑ "اعطای نشان عالی ذوالفقار بہ سردار سرلشکر قاسم سلیمانی"۔ پایگاہ دفتر حفظ و نشر آثار آیتاللہ العظمی سید علی خامنہ ای۔ 14 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2019
- ↑ "مدالهای فرماندہ نیروی قدس سپاہ"۔ مشرقنیوز۔ 204959۔ 2020-01-03 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2020
- ↑ «زندگی نامهٔ سردار قاسم سلیمانی»۔ aei.org. بایگانیشدہ از اصلی در 30 سپتامبر 2011. دریافتشدہ در 8 اکتبر 2011.