لوبان

بوسویلیا کے درختوں سے خوشبو دار رال

لوبان (قدیم فرانسیسی زبان 'فرانک اینسینس' سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے 'خالص خوشبو') جو ایک بوسویلیا جینس کے درختوں سے کاٹا ہوا خوشبو دار گوند ہے، جو خصوصی طور پر حبس زدہ آب و ہوا والے علاقے میں اگتا ہے جو ہارن آف افریقہ (مشرقی افریقائی علاقوں) سے انڈیا اور جنوبی چین تک واقع ہے۔

احادیث نبویﷺ میں لوبان کا ذکر

ترمیم

حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اپنے گھروں میں لوبان اور شیح کی دھونی دیتے رہا کرو‘ ایک دوسری روایت میں ارشاد ہوا: اپنے گھروں میں لوبان اور صعتر کی دھونی دیتے رہا کرو۔ محدثین نے ان احادیث کی تفسیر میں لوبان کو کندر کے ساتھ خلط ملا کر دیا ہے۔ ابن القیم نے لوبان کو کندر قرار دیتے ہوئے دونوں کے فوائد ملادیے ہیں۔ دوسری طرف بھارتی ماہرین نے اگرچہ کندر کومختلف چیز قرار دیا ہے مگر ایک دوسری گوند بوسویلا سیررٹا کو بھی لوبان ہی لکھا ہے جبکہ یہ گوند اپنے اثرات اور شکل و صورت کے لحاظ کندر کے زیادہ قریب ہے۔

محدثین کے مشاہدات

ترمیم

لوبان قبض کشا ہے۔ اس میں فائدے زیادہ ہیں اور نقصان بہت کم۔ معدہ کی درد کو دور کرتا ہے۔ اسہال میں مفید ہے۔ کھانے کو ہضم کرتا ہے۔ آنکھوں کے زخم مندمل کرتا ہے۔معدہ کو تقویت دیتا ہے۔بلغم نکالنے کے بعد اس کی پیدائش کو کم کرتا ہے۔اگر لوبان یا اس کے ساتھ صعتر ملا کر غرارے کیے جائیں تو گلے کی سوزش میں مفید ہے۔ زبان کے زخم بھر جاتے ہیں۔ حافظہ کو بہتر کرتا ہے۔ گلے ہوئے زخموں پر لوبان کا استعمال سوزش کو دور کرنے کے ساتھ صحت مند گوشت لگانے کا باعث ہوتا ہے۔ اس کی دھونی گھر کو خوشبودار بنانے کے علاوہ وبائی امراض کو ختم کرتی ہے۔

پیداواری علاقے

ترمیم

دنیا میں زیادہ تر یہ صومالیہ، اریٹیریا اور یمن جیسے ممالک سے حاصل کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں شورش نے ان ممالک میں لوبان کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں لیکن پرامن عمان دنیا کا بہترین اور انتہائی مہنگا لوبان پیدا کرتا ہے جسے قدیم مصری باشندے 'خداؤں کا پسینہ' کہتے تھے۔ بوسویلیا سیکرا کا درخت عمان کے جنوبی صوبے ظفار کے ناسازگار علاقے میں پایا جاتا ہے۔ لوبان کے گوند کی قیمت کا تعین اس کے رنگ، اس کے سائز اور اس میں موجود تیل کی مقدار سے ہوتا ہے۔ ان میں سے سب سے قیمتی قسم کو ہوجاری کہا جاتا ہے جو ظفار پہاڑوں کی خشک اور حبس زدہ آب و ہوا میں پایا جاتا ہے اور اس کی کاشت موسم گرما میں مون سون کی آمد سے پہلے کر لی جاتی ہیں کیونکہ اس کے بعد جزیرہ نما عرب پر کہرا چھا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کے مطابق ’کئی صدیوں سے اس خطے میں پروان چڑھنے والی عطر اور خوشبو کی تجارت قدیم اور قرون وسطی کی دنیا کی ایک سب سے اہم تجارتی سرگرمی تھی۔‘ یہاں سے ہزاروں اونٹوں اور غلاموں پر مشتمل قافلے لوبان لے کر صحرائے عرب کے پار دو ہزار کلومیٹر طویل سفر کے لیے نکلتے تھے جن کی منزل مصر، بابل، قدیم یونان اور سلطنت روم ہوتی تھی جبکہ خوشبودار گوند سے لدے بحری جہاز چین تک سفر کرتے تھے۔ قدیم روم کے ایک عالم پلینی دی ایلڈر (23-79 AD) نے لکھا تھا کہ اس تجارت نے جنوبی عرب کے باشندوں کو ’روئے زمین پر امیر ترین لوگ‘ بنا دیا تھا۔

کاشت کاری

ترمیم

لبان بوسیلیا سیکرا کے درختوں سے کاشت کیا جاتا ہے جو ظفار کے صحرا میں جنگلی جھاڑیوں کی طرح اگتے ہیں اور ان کی ملکیت مقامی قبائل کے پاس ہے۔ اس کی کاشت ہر برس اپریل میں شروع ہوتی ہے کیونکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے گوند کا بہاؤ زیادہ آسانی سے ہو جاتا ہے۔ مزدور پیڑ کے تنے میں جگہ جگہ کاٹ دیتے ہیں تاکہ اس جگہ سے دودھیا رس نکل کر نیچے آئے جس طرح موم بتی سے موم نیچے آتا ہے۔ اس رس کو دس دنوں تک گوند بننے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جب پیڑ کے تنے سے پیڑ کے 'آنسو' پوچھ لیے جاتے ہیں تو پھر کسان اسی جگہ پھر سے کاٹ دیتے ہیں۔ اور وہ کئی بار ایسا ہی کرتے ہیں اور جاڑے سے قبل وہ آخری فصل نکالتے ہیں جو سب سے زیادہ قیمتی گوند ہوتا ہے۔ پانچ سال تک کاٹتے رہنے کے بعد اس پیڑ کو پانچ سال تک پھر نہیں چھوا جاتا ہے یعنی وہاں سے پھر رس کشید نہیں کیا جاتا ہے۔ بہر حال دور حاضر میں نادر بوسویلیا سیکرا درختوں کو عالمی سطح پر اس کی مانگ میں اضافے سے خطرہ لاحق ہے۔ ماہر نباتات اور 'بوسویلیا: خوشبو کے مقدس درخت' نامی کتاب کے مصنف جوشوا اسلامہ کا کہنا ہے کہ ' بین الاقوامی بازار میں خوشبودار تیلوں اور کلیت والی دواؤں میں خوشبودار لوبان میں لوگوں کی تازہ دلچسپیوں نے بوسویلیا کے قدرتی زخائر پر اثرات مرتب کیے ہیں۔' بوسویلیا سیکرا کو بین الاقوامی سطح پر تقریباً معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار پودوں کی سرخ فہرست میں شامل کیا گیا ہے جبکہ نیچر میگزین میں شائع ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پیڑ اس قدر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں کہ آنے والے 20 سالوں میں لوبان کی پیداوار 50 فیصد ہی رہ جائے گی۔ ایک دوسری رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ایک پیڑ سے دس کلو گرام اوسطا خوشبودار گوند حاصل کرنے میں کافی کمی آئی ہے اور اب یہ کم ہو کر 3۔3 کلوگرام فی پیڑ رہ گیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں میں ظفار کے سمہان پہاڑی کے قدرتی زخائر میں بوسویلیا سیکرا کے درخت کی آبادی 85 فیصد کم ہو گئی ہے، ۔ سائنسدانوں نے قحط سالی، حد سے زیادہ چراگاہ کے طور پر استعمال، کیڑوں کے حملے اور مسلح صومالی سمگلروں کی غیر قانونی کشید کو رس کی کمی کا سبب بتایا ہے۔

طبی حثیت

ترمیم

لوبان پرانے دور کی ایسپرین، پینسیلین اور ویاگرا بھی تھا، اس کو بواسیر سے لے کر ماہواری کی تکلیف اور میلانوما یعنی رسولی تک ہر چیز کا موثر علاج سمجھا جاتا تھا۔ یونانی فوج کے معالج پیڈینیئس ڈیوسورسائڈس نے لوبان کو ایک عجیب و غریب دوا قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ چپچپی گوند 'السر کے کھوکھلے پن کو بھر سکتی ہے' یا 'خونی زخموں کو ایک ساتھ جوڑ سکتی ہے۔‘ طبی علم کے بارے میں قدیم مصر کی سب سے اہم دستاویز، ایبیرز پیپیرس میں لوبان کو دیگر بیماریوں مثلاً دمہ، خون بہنے، گلے میں انفیکشن اور الٹی کا علاج قرار دیا ہے۔ مصری اسے خوشبو، کیڑے مکوڑے بھگانے اور مردوں کو دفنانے، لاشوں کے گلنے سڑنے سے اٹھنے والے تعفن کو ختم کرنے میں استعمال کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر درآمد کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جب سنہ 1922 میں بادشاہ توت عن خآمون کی قبر کشائی کی گئی تھی تو اس میں بھی لوبان سے بنا مرہم پایا گیا تھا۔ حاملہ خواتین بھی اس کو چباتی ہیں کیونکہ حاملہ مائيں یہ سمجھتی ہیں کہ ’اس کی خصوصیات ذہین بچے کی پیدائش کو یقینی بنائے گی۔‘ یہ صحت مند نظام ہاضمہ اور جلد کے لیے ادویات کے طور پر اور چائے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ لوگ اس کی خوشبو کا استعمال اپنے گھروں سے مچھروں کو بھگانے کے لیے کرتے ہیں اور کھانے کے بعد بخور جلانے والے کے قریب سے گذرنا مہمان نوازی کا علامت سمجھا جاتا ہے۔ لوبان کے استعمال کو بعض معاشروں میں احترام اور امارت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔