مارک سوفر
مارک سوفر ایک اسرائیلی سفارت کار ہیں۔
مارک سوفر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1954ء (عمر 69–70 سال) لندن |
شہریت | اسرائیل مملکت متحدہ |
عملی زندگی | |
مادر علمی | لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس |
پیشہ | سفارت کار |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی |
درستی - ترمیم |
وہ بھارت میں اسرائیل کے سفیر رہ چکے ہیں۔ بھارت میں اپنی میعاد کے بعد وہ آسٹریلیا میں سفیر بنائے گئے تھے۔
بھارت میں اپنی سفارتی میعاد کے دوران مارک سوفر کئی منفرد اقدامات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کوششوں میں کچھ ایسی کوششیں شامل تھیں جن کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ بھارت کے مسلمانوں کو اسرائیل کے نزدیک لانا اور اسرائیلی سفارت خانے کے دائرۂ کار کو برصغیر میں توسیع دینا۔ انھی اقدامات میں سے ایک اقدام یہ بھی تھا کہ بھارت میں موجود اسرائیلی سفارت خانے کی ویب سائٹ کو ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں جاری کرنا۔ یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ بھارت میں کسی بھی بیرونی سفارت خانے نے اپنی ویب گاہ کو بہ یک وقت ہندی اور اردو میں جاری نہیں کیا۔ کچھ سفارت خانوں نے اپنی ویب گاہ کا ہندی میں ترجمہ ضرور کیا ہے، مگر یہ ترجمہ ہندی زبان کے بھارت میں سرکاری موقف، بیش تر ثقافتی نوعیت اور جذبہ خیر سگالی کے طور پر کیا ہے۔ ہندی کے بر عکس اردو بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں سرکاری زبان کا درجہ رکھتی ہے اور کچھ ریاستی حکومتوں کی جانب سے دوسری سرکاری زبان کا موقف حاصل کر چکی ہے۔ تاہم اردو بھارت کے زیادہ تر جدید مدارس میں نہیں پڑھائی جاتی ہے اور اس وجہ سے اکثر غیر مسلم اور کئی مسلمان نوجوان اس زبان اور اس کے رسم الخط سے بالکل ناآشنا ہے۔ پھر بھی مسلمانوں کے مذہبی ادب کی زبان میں موجودگی اور دینی مدارس کی اس زبان میں ذریعہ تعلیم کی وجہ سے اردو زبان کو عام طور سے مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ لہذا یہ واضح کیا گیا کہ اسرائیلی سفارت خانہ بھارت کے مسلمانوں کو اپنی جانب راغب کرنا چاہتا ہے اور یہ ایک سرکاری طور پر کوشش ہے۔[2] اس بات کو مزید تقویت اس وجہ سے بھی حاصل ہوئی جب 3 ستمبر 2008ء کو مارک سوفر اجمیر پہنچ کر وہ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضری دیے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی اسرائیلی سفارت کار نے کسی مسلمان درگاہ یا مقام زیارت پر حاضری دیے ہوں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اس موقع پر دنیا میں قیام امن کے لیے تصوف کی بھی پر زور حمایت کی۔ انھوں نے تصوف کا موازنہ قبالہ سے کیا جو یہودیوں میں تصوف کی ایک قسم ہے۔[3]
ویب گاہ کے اردو ترجمے کے پس پردہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اردو بھارت کے پڑوسی ملک پاکستان کی قومی زبان ہے۔ اس وجہ سے یہ بھی ایک پیام ممکن ہے کہ دہلی میں سفارت خانہ اپنے دائرہ کار کو غالبًا پاکستان تک توسیع دینا چاہتا ہے۔ جیسا کہ سنگاپور میں موجود اسرائیلی سفارت خانہ اپنا دائرہ کار مشرقی تیمورتک بھی رکھتا ہے شاید وہ پاکستان تک توسیع دے چکا ہے۔[4] خود مارک سوفر نے 2008ء اپنے دورۂ اجمیر میں اس بات کو آشکارا کر دیا کہ کچھ مسلمان ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں اور اگر پاکستان بھی اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات بنانے کا خواہش مند ہے کہ اسرائیل اس کا مثبت جواب دے گا۔ انھوں نے اس معاملے میں کسی تیسرے فریق کے متاثر ہونے اثر انداز ہونے کو ایک سرے سے خارج کر دیا۔[3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ https://mfa.gov.il/MFA/AboutTheMinistry/Israeli%20ambassadors/Pages/Ireland.aspx
- ↑ [مردہ ربط] اسرائیل سفارت خانہ ہندو اور اردو ویب گاہ جاری کرتا ہے، جوئیش ٹائمز ایشیا، 2008ء
- ^ ا ب "بھارت اور اسرائیل تعلقات: وابستگی گزرتے وقت کے ساتھ اور گہری ہوتی جا رہی ہے، ویویہ اے، ٹائمز آف انڈیا، 5 اکتوبر، 2008ء"۔ 2012-09-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-09-26
- ↑ اسرائیل کے سفارت خانے