محمد بن اسحاق بن راہویہ
ابو حسن محمد بن اسحاق بن راہویہ بُرَجمی تمیمی ( 215ھ - 294ھ / 830ء - 907ء ) آپ ایک امام ، قاضی ، فقیہ ، اور حدیث کے عالم ہیں، جو تیسری صدی ہجری کے محدثین میں سے تھے۔ وہ عظیم امام اسحاق بن راہویہ کے بیٹے ہیں، وہ خراسان کے شہر مرو میں پیدا ہوئے اور نیشاپور کے قاضی مقرر ہوئے، اور حصول حدیث کے لیے آپ نے خراسان ، حجاز ، شام اور مصر کے سفر کیے۔ آپ کو 294ھ میں حج سے واپسی کے بعد مکہ جاتے ہوئے اس وقت شہید کر دیا گیا جب آپ کی عمر تقریباً اسی سال تھی۔[1]
محدث | |
---|---|
محمد بن اسحاق بن راہویہ | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | محمد بن إسحاق بن راهويه التميمي |
وجہ وفات | طبعی موت |
رہائش | خراسان ،عراق |
شہریت | خلافت عباسیہ |
کنیت | ابو حسن |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
والد | اسحاق بن راہویہ |
عملی زندگی | |
نسب | البُرَجمي التميمي |
ابن حجر کی رائے | ثقہ |
ذہبی کی رائے | ثقہ |
استاد | اسحاق بن راہویہ ، احمد بن حنبل ، علی بن مدینی ، علی بن حجر |
نمایاں شاگرد | ابن قانع ، ابو قاسم طبرانی |
پیشہ | محدث |
شعبۂ عمل | روایت حدیث |
درستی - ترمیم |
شیوخ
ترمیم- انہوں نے اپنے والد اسحاق بن راہویہ،
- امام احمد بن حنبل،
- علی بن مدینی،
- علی بن حجر،
- ابو مصعب اور علماء کی ایک جماعت سے سنا۔ [2]
تلامذہ
ترمیم- اسماعیل خطابی،
- ابن قانع ،
- احمد بن خزیمہ،
- احمد خطلی،
- ابو قاسم طبرانی اور دیگر محدثین نے ان سے روایت کی ہے۔ [3][4]
تعدیل اور شہادت
ترمیمابن کثیر الدمشقی نے البدایہ والنہایہ میں کہا ہے: "محمد بن الامام اسحاق بن راہویہ نے اپنے والد اور احمد بن حنبل اور دیگر محدثین سے احادیث کا سماع کیا اور وہ فقہ اور حدیث کے ماہر تھے۔ عازمین حج میں سے 294ھ میں قرامطیوں نے اسے شہید کر دیا۔ [5]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ الجامع لعلوم الإمام أحمد، مجموعة من المؤلفين، ج 2 ص 141. آرکائیو شدہ 2022-10-04 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ أبو الفرج بن الجوزي (1992)، المُنتظم في تاريخ المُلُوك والأُمم، مراجعة: نعيم زرزور. تحقيق: محمد عبد القادر عطا، مصطفى عبد القادر عطا (ط. 1)، بيروت: دار الكتب العلمية، ج. 13، ص. 53
- ↑ الديباج المذهب في معرفة اعيان علماء المذهب، ابن فرحون، ج 2 ص 187. آرکائیو شدہ 2022-10-04 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ شمس الدين الذهبي (1985)، سير أعلام النبلاء، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، مجموعة (ط. 1)، بيروت: مؤسسة الرسالة، ج. 13، ص.
- ↑ ابن كثير الدمشقي (1982)، البداية والنهاية، بيروت: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، ج. 11، ص. 102