محمد زاہد بن حسن حلمی کوثری، کوثری کی نسبت قفقاز میں دریائے شیز کے کنارے ان کے گاؤں کی طرف ہے، بعض کے مطابق یہ نسبت ان کے اجداد میں سے کسی کی جانب ہے، جو مشہور قدیم قبیلہ "چرکسی" کی شاخ "شابسوغ" سے تھے۔

محمد زاہد کوثری
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1878ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صوبہ دوزجہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1952ء (73–74 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاہرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت عثمانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مترجم ،  مصنف ،  عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت

ترمیم

زاہد الکوثری کی ولادت ترکی کے مشرقی استنبول سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر دوزجہ کے قریب "حاجی حسن قریشی" نامی ایک گاؤں میں دوشنبہ کے دن 27 یا 28 شوال سنہ 1296 ہجری مطابق 14 اکتوبر سنہ 1878 عیسوی میں ہوئی۔

تحصیل علم اور حالاتِ زندگی

ترمیم

زاہد الکوثری نے سلطنت عثمانیہ کے پایہ تخت قسطنطنیہ میں فاتح مسجد، استنبول میں علم و فقہ حاصل کیا، پھر وہیں پڑھانا شروع کر دیا اور مجلسِ تدریس کے ذمہ دار بن گئے، پہلی جنگ عظیم کے دوران میں جمعیت اتحاد و ترقی جو ترکی میں عصری علوم کا منصوبہ رکھتی تھی اور علامہ کوثری کی شخصیت اور ان کی دینی علوم میں خدمات نیز مدرسہ میں اکثر دینیات سے متعلق تعلیمی گھنٹے ان کے منصوبوں میں رکاوٹ بن رہے تھے، اس لیے اتحادیوں نے ان پر ظلم کرنا شروع کیا، پھر جب مصطفٰی کمال اتاترک اور اس کے ہمنوا ترکی میں غالب ہوئے اور الحادی نظام اور دہریت کا کھلم کھلا اعلان کیا اور علامہ کی گرفتاری کا منصوبہ بنایا تو ایک دن سنہ 1341 ہجری مطابق 1922 عیسوی میں اسکندریہ جانے والی ایک بحری جہاز میں سوار ہو گئے، پھر اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک مصر اور شام کے درمیان مقیم رہے، پھر وہاں سے قاہرہ میں ترکی دستاویزات کے عربی مترجم کی حیثیت سے دار المخطوطات مصر میں نوکری پائی، عربی، فارسی، ترکی اور چرکسی زبان بہت بہترین جانتے تھے اور عربی لہجہ اور اسلوب میں بہترین گفتگو کرتے تھے۔[1]

علامہ کوثری کی شخصیت علمی، روحانی، فقہی اور ادبی ہر لحاظ سے بہت بلند اور اعلیٰ تھی، ان کی شخصیت فقہی و روحانی آرا و نظریات کے مختلف پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔

تصنیفات وتالیفات

ترمیم

ان کی بہت سی علمی و دینی تصنیفات ہیں، جن میں سے شائع شدہ تصانیف درج ذیل ہیں:[2]

  • مقالات الکوثری۔
  • صفعات البرہان على صفحات العدوان۔
  • العقیدہ و علم الکلام من اعمال الاِمام محمد زاہد الکوثری۔
  • الفقہ واصول الفقہ من اعمال الاِمام محمد زاہد الکوثری۔
  • تانیب الخطیب على ما ساقہ فی ترجمہ ابی حنیفہ من الاکاذیب۔
  • نظرہ عابرہ فی مزاعم من ینکر نزول عیسى علیہ السلام قبل الاخرہ۔
  • الاِشفاق على احکام الطلاق فی الرد على من یقول: اِن الثلاث واحدہ۔
  • اللامذہبیہ قنطرہ اللادینیہ۔
  • محق التقول فی مسالا التوسل۔
  • الاستبصار فی التحدث عن الجبر والاختیار۔
  • تحذیر الخلف من مخازی ادعیاء السلف۔
  • النکت الطریفہ فی التحدث عن ردود ابن ابی شیبہ على ابی حنیفہ۔
  • اِحقاق الحق باِبطال الباطل فی مغیث الخلق، ویلیہ: اقوم المسالک فی روایہ مالک عن ابی حنیفہ وروایہ ابی حنیفہ عن مالک۔
  • التحریر الوجیز فیما یبتغیہ المستجیز۔
  • الترحیب بنقد التانیب۔
  • من عبر التاریخ فی الکید للاِسلام۔
  • فقہ اہل العراق وحدیثہم۔
  • نبراس المہتدی فی اجتلاء ابناء العارف دمرداش المحمدی۔
  • رفع الاشتباہ عن حکم کشف الراس ولبس النعال فی الصلاہ۔
  • اِرغام المرید فی شرح النظم العتید لتوسل المرید۔
  • تعطیر الانفاس بذکر سند ابن ارکماس۔
  • حنین المتفجع وانین المتوجع۔
  • الفوائد الوافیہ فی علمی العروض والقافیہ۔
  • الاِفصاح عن حکم الاِکراہ فی الطلاق والنکاح۔
  • ملخص تذہیب التاج اللجینی فی ترجمہ البدر العینی فی اول شرح البخاری۔
  • لمحات النظر فی سیرہ الاِمام زفر رضی اللہ عنہ۔
  • حسن التقاضی فی سیرہ الاِمام ابی یوسف القاضی۔
  • بلوغ الامانی فی سیرہ الاِمام محمد بن الحسن الشیبانی۔
  • الاِمتاع فی سیرہ الاِمامین الحسن بن زیاد وصاحبہ محمد بن شجاع۔
  • الحاوی فی سیرہ الاِمام ابی جعفر الطحاوی۔

جس پر مقدمہ و تعلیق کی:[3]

  • الغرہ المنیفہ للسراج الغزنوی الہندی فی تحقیق نحو مائہ وسبعین مسالا، رداً على الطریقہ البہائیہ للفخر الرازی۔
  • دفع شبہ التشبیہ باکف التنزیہ لابن الجوزی۔
  • تبیین کذب المفتری فیما نسب اِلى الاِمام ابی الحسن الاشعری لابن عساکر۔
  • التبصیر فی الدین وتمییز الفرقہ الناجیہ عن الفرق الہالکین لابی المظفر الاِسفرایینی۔
  • الفرق بین الفرق لعبد القاہر البغدادی۔
  • التنبیہ والرد على اہل الاہواء والبدع لابی الحسین الملطی۔
  • الاِنصاف فیما یجب اعتقادہ ولا یجوز الجہل بہ لالباقلانی۔
  • العقیدہ النظامیہ لاِمام الحرمین الجوینی۔
  • الاسماء والصفات للبیہقی۔
  • اختلاف الموطآت للدارقطنی۔
  • بیان زغل العلم للذہبی۔
  • المصعد الاحمد لابن الجزری۔
  • الانتصار والترجیح للمذہب الصحیح لسبط ابن الجوزی۔
  • السیف الصقیل فی الرد على ابن زفیل (فی الرد على نونیہ ابن القیم) لتقی السبکی، والتعلیقات معروفہ باِکمالہ الرد ومسماہ بتبدید الظلام المخیم من نونیہ ابن القیم۔
  • مراتب الاِجماع لابن حزم، ونقدہ لابن تیمیہ۔
  • النبذ فی اصول الفقہ الظاہری لابن حزم۔
  • الاختلاف فی اللفظ والرد على الجہمیہ والمشبہہ لابن قتیبہ، والتعلیق یسمى لفت اللحظ اِلى ما فی الاختلاف فی اللفظ۔
  • رسالہ ابی داود فی وصف سنتہ۔
  • مناقب ابی حنیفہ وابی یوسف ومحمد بن الحسن للذہبی، ومعہا ایضاً تعلیق الاستاذ ابی الوفاء۔
  • ذیول طبقات الحفاظ للحسینی وابن فہد ولسیوطی۔
  • العالم والمتعلم۔
  • رسالہ ابی حنیفہ اِلى عثمان البتی۔
  • الفقہ الابسط للاِمام ابی حنیفہ۔
  • اللمعہ فی الوجود والقدر وافعال العباد لاِبراہیم بن مصطفى الحلبی المذاری۔
  • کشف اسرار الباطنیہ لمحمد بن مالک الحمادی۔
  • الروض الزاہر فی سیرہ الملک الظاہر للبدر العینی۔
  • شروط الائمہ الستہ لمحمد بن طاہر المقدسی وشروط الخمسہ للحازمی، والتعلیقات علیہا مسماہ بالتعلیقات المہمہ على شروط الائمہ۔
  • کشف المغطى من فضل الموطا لابن عساکر۔
  • العقل وفضلہ لابن ابی الدنیا۔
  • الحدائق فی الفلسفہ العالیہ للبطلیوسی۔
  • حقیقہ الاِنسان والروح للجلال الدوانی۔
  • منیہ الالمعی فیما فات الزیلعی للعلامہ قاسم بن قطلوبغا۔
  • الانتقاء فی تاریخ الائمہ الفقہاء، مالک والشافعی وابی حنیفہ لابن عبد البر۔
  • خصائص مسند احمد لابی موسى المدینی۔
  • شرح الحکیم محمد بن ابی بکر التبریزی على المقدمات الخمس والعشرین۔
  • من دلالہ الحائرین لموسى بن میمون۔

جس پر کچھ لکھا:[4]

  • شرح مقامہ (الحور العین) لنشوان الحمیری۔
  • الروض النضیر فی شرح المجموع الفقہی الکبیر للسیاغی الصنعانی۔
  • نثر الدر المکنون فی فضائل الیمن المیمون للسید محمد الاہدل۔
  • الدر الفرید الجامع لمتفرقات الاسانید للسید عبد الواسع الیمانی۔
  • بیان مذہب الباطنیہ وبطلانہ من کتاب قواعد عقائد آل محمد لمحمد بن الحسن الدیلمی۔
  • طبقات ابن سعد من الطبعہ المصریہ۔
  • نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ للحافظ الزیلعی، تقدمتہ واسعہ وجداول التصویب غیر وافیہ، فتحتاج اِلى اِکمال۔
  • فتح الملہم فی شرح صحیح مسلم للعلامہ شبیر احمد العثمانی۔
  • ترتیب مسند الاِمام الشافعی للحافظ محمد عابد السندی۔
  • احکام القرآن جمع البیہقی من نصوص الاِمام الشافعی۔
  • مناقب الاِمام الشافعی للحافظ عبد الرحمن بن ابی حاتم الرازی الشافعی۔
  • ذیل الروضتین للحافظ ابی شامہ۔
  • فہارس البخاری لفضیلہ الاستاذ الشیخ رضوان محمد رضوان۔
  • اِشارات المرام من عبارات الاِمام ابی حنیفہ النعمان لکمال الدین البیاضی۔
  • کشف الستر عن فرضیہ الوتر لعبد الغنی النابلسی۔
  • العالم والمتعلم لابی بکر الوراق الترمذی۔
  • الاعلام الشرقیہ للاستاذ زکی مجاہد۔
  • انتقاد المغنی عن الحفظ والکتاب للاستاذ حسام الدین القدسی۔
  • النہضہ الاِصلاحیہ للاسرہ الاِسلامیہ للاستاذ مصطفى الحمامی۔
  • منتہى آمال الخطباء لہ ایضاً۔
  • براہین الکتاب والسنہ للعلامہ العارف باللہ الشیخ سلامہ العزامی۔
  • قانون التاویل لحجہ الاِسلام ابو حامد الغزالی|الغزالی۔
  • الثمرہ البہیہ للصحابہ البدریہ لمحمد سالم الحفناوی۔
  • کتاب بغداد لابن طیفور۔
  • فتاوى تقی الدین السبکی۔
  • اِیضاح الکلام فیما جرى للعز بن عبد السلام۔
  • تاریخ القوقاز۔
  • دفع شبہ من شبہ وتمرد ونسب ذلک اِلى السید الجلیل الاِمام احمد للتقی الحصنی۔
  • تعلیقہ على مادہ (الجرکس) فی تعریب دائرہ المعارف الاِسلامیہ۔

وفات

ترمیم

علامہ کوثری کی وفات 19 ذو القعدہ 1371 ہجری، مطابق 11 اگست 1952 عیسوی میں 75 سال کی عمر میں ہوئی، نماز جنازہ کی امامت شیخ و ادیب عبد الجلیل عیسیٰ نے کی اور قرافہ شافعی میں ابو العباس طوسی کی قبر کے قریب دفن ہوئے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. كتاب: السيف الصقيل في الرد على ابن زفيل (كتاب) از: امام تقی الدین سبکی، طبعة المكتبة الأزهرية للتراث، ترجمة محمد زاهد الكوثري، ص: 4.
  2. مقالات الکوثری بقلم العلامہ الشیخ محمد زاہد الکوثری، طبعہ المکتبہ التوفیقیہ، ص: 555-556.
  3. مقالات الکوثری بقلم العلامہ الشیخ محمد زاہد الکوثری، طبعہ المکتبہ التوفیقیہ، ص: 556-557.
  4. مقالات الکوثری بقلم العلامہ الشیخ محمد زاہد الکوثری، طبعہ المکتبہ التوفیقیہ، ص: 558-559.