محمد طاہر پنج پیری
شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیری صوبہ سرحد کے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے مشہور عالم دین تھے۔
محمد طاہر پنج پیری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | جنوری1916ء پنج پیر |
تاریخ وفات | 31 مارچ 1987ء (70–71 سال) |
شہریت | پاکستان |
اولاد | میجر عامر |
عملی زندگی | |
مادر علمی | دار العلوم دیوبند |
استاذ | حسین علی نقشبندی میانوالوی ، نصیرالدین غورغشتوی ، عبیداللہ سندھی |
پیشہ | عالم ، مصنف |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمآپ 15ربیع الثانی 1334ھ بمطابق فروری 1916ء کو پنچ پیر ضلع صوابی میں غلام نبی خان بن آصف خاں کے گھر پیدا ہوئے۔
شیخ القرآن مولاناطاہر پنجپیری رحمه الله
ترمیمامام الموحدین شیخ القران مولانا محمد طاہر پنج پیری رحمه الله
تحریر: محمد ثاقب طیبی
صوابی کے ایک چھوٹے سے گاؤں پنج پیر میں غلام نبی خان کے گھر میں فروری 1916 ایک لڑکے محمد طاہر کی پیدائش ہوئی، والد کی دلی خواہش تھی کہ میرا بیٹا عالم دین بنے اور ان کی والدہ کو نصیحت کی تھی کہ اگر میں مرگیا تو میرے بیٹے کو علم کے لیے بھیجنا، والد کا انتقال بچپن میں ہی ہو گیا اور بچپن ہی سے یتیموں سے جو سلوک ہوتا ہے وہ سہہ لیا، وہ سب کچھ دیکھا کہ باطل پرست مولوی کیسے یتیموں کا حق کھاتے تھے اور دل ہی دل میں تہیہ کر لیا کہ میں نے ان لوگوں کو ان یتیموں کا مال اور نہیں کھانے دوں گا ۔
تعلیم
ترمیمابتدائی تعلیم علاقہ کے علما سے حاصل کی۔ طالب علمی کے ہی زمانے میں آپ نے فضل واحد ترنگزئی کی قیادت مین انگریزوں کے خلاف جہاد میں حصہ لیا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بعد ازاں حسین علی الوانی سے تفسیر و حدیث کا درس لیا۔ پھر انہی کے ارشاد پر نصیر الدین غورغشوی رحمہ اللہ سے دورہ حدیث پڑھا۔ پھر حسین علی الوانی سے صحاح ستہ کے بعض مقامات کا درس لیا اور روحانی تعلیم اور ذکر و اذکار کا طریقہ سیکھا۔ فلسفہ و حکمت کی کتب کا درس غلام رسول انّہی شریف والوں سے لیا۔ علمی پیاس بجھانے کے لیے پھر دارالعلوم دیوبند پہنچے اور وہاں کے اساتذہ سے خوب خوب استفادہ کیا اور سنہ 1935ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت پائی۔
تدریس کا آغاز
ترمیمتعلیم سے فراغت کے بعد اعزاز علی امروہی کے ارشاد پر مدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی ضلع بلند شہر میں ایک سال تک درس دیا۔ پھر واپس آکر حسین علی الوانی کے حکم پر مدرسہ مظہر العلوم (موجودہ مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن) میانوالی میں تدریس کا آغاز کیا اور توحید و سنت کے لیے بڑی مشکلات کا سامنا کیا۔ آج میانوالی میں جو توحید و سنت کی بہار نظر آ رہی ہے اس کا بیج انھوں نے ہی بویا تھا۔ اور آج کل انکا یہ بیج پوری دنیا میں پھیلا ہے، خاص طور پر پشاور میں انکا یہ مشن علامہ خلیل الرحمٰن مدظلہ فرما رہے ہیں جو ان کے شاگردوں میں علمی اور عملی لحاظ سے بہترین کام سر انجام دے رہے ہیں
سفر حج اور مولانا عبید الله سندھی سے استفادہ
ترمیمسنہ 1938ء میں حج کی سعادت حاصل کی۔ وہاں [عبیدالله سندھی|عبید الله سندھی] سے [قرآن|قرآن مجید]،[حجۃ الله البالغہ] اور عبقات کا درس لیا۔
وطن واپسی اور دینی خدمات
ترمیم1938ء ہی سے پنج پیر میں اپنے اساتذہ کے ارشاد پر تفسیر و حدیث کا درس دینے میں مشغول ہو گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ردِّ شرک و بدعت کے لیے تقریر و تحریر کے ذریعے بڑا کام کیا۔ کئی تصانیف منظر عام پر لائے اور اہل باطل کے ساتھ معتدد مناظرے کیے۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا سارا قوم مخالف تھا، ہر طرف سے (یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئا لله،پیرہ بابا پہ نیکئ رامدد شے، وہ لویہ زوانہ دہ دولسو کالو بیڑئ دی راوخکلی دہ) کی صدائیں بلند ہورہی تھی مطلب ہر طرف شرک کی صدائیں گونج رہی تھی اور ان سب صداؤں کے درمیان میں ایک الله کی توحید کی صدا بلند کرنی تھی۔
تصانیف
ترمیم- انھوں نے وعظ و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف کے ذریعے بھی شرک و بدعت کے خاتمہ کے لیے بڑا کام کیا۔ آپ نے ہر موضوع پر کتابیں لکھی ہیں جن میں
- البصائرللمتوسلين باهل المقابر
- اصول السنة لرد البدعة
- ضياءالنور لدحض البدع و الفجور
- النشاط عن حيلة الاسقاط
- الانتصار لسنة سيد الابرارﷺ
- نيل السائرين فى طبقات المفسرين
- مرشد الحيران الى فہم القرآن (غیر مطبوعہ)
- سمط الدرر فى ربط الآيات والسور
- العرفان فى اصول القرآن
- ذب الذباب عن وجه الاصحاب (غیر مطبوعہ)
- حقيقت مودودى
- ارشاد الانام فى ترك القاتحة خلف الامام
وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
تنظیم سازی
ترمیمآپ نے اشاعت توحید و سنت اور ردّ شرک و بدعت کے لیے جمعیت اشاعت التوحید و السنہ کی تنظیم سازی میں اہم کردار ادا کیا اور 1985ء میں جمعیت کے مرکزی امیر منتخب ہوئے۔ آپ کی قیادت میں جمعیت نے بہت ترقی کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑا حافظہ عطا فرمایا تھا۔ جس کتاب کا مطالعہ فرمالیتے وہ سالوں یاد رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حُسن ظاہر و باطن سے بھی خوب نوازا تھا اور ائمہ اربعہ کی فقہ پر آپ کو پوری دسترس حاصل تھی۔ آپ فقہ حنفی کے پاسبان اور اپنے شیخ و مربی حسین علی الوانی کے عظیم ترجمان تھے۔
31 مارچ 1987ء کو یہ علم و عمل کا باب بند ہو گیا۔
ترمیمآپ نے 31؍مارچ 1987ء کو اپنے علاقہ میں وفات پائی اور ہزاروں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ امامت کے فرائض آپ کے صاحبزادے مولانا محمد طیب طاہری نے ادا کیے اور اپنے آبائی قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔[1] محمد طیب طاہری آپ کے علمی جانشین ٹھہرے اور جماعت کے مرکزی امیر منتخب ہوئے۔میجر محمد عامر بھی ان کے فرزند ہیں جو آئی ایس آئی (.I.S.I) اور آئی بی (.I.B) کے اعلی عہدوں پر براجمان رہ چکے ہیں۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی جولائی 1987ء