محمود احمد عباسی
محمود احمد عباسی امروہی ایک پاکستانی مؤرخ،محقق،مصنف،ادیب اور شاعر تھے۔ امروہہ سے ہجرت کرکے کراچی سکونت اختیار کی۔ مطالعہ و تحقیق اور تصنیف وتالیف میں آخر تک مشغول رہے۔عباسی امروہہ کے ایک علمی اور صاحب ثروت گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔
محمود احمد عباسی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | محمود احمد |
پیدائش | 14 جمادی الثانی 1302ھ/31/ مارچ 1885ء بوقت صبح صادق بمقام ضلع امروہہ |
وفات | 14مارچ 1974ء بمقام کراچی |
قومیت | برطانوی ہند پاکستان |
عرفیت | علامہ محمود احمد عباسی |
مذہب | اسلام |
رشتے دار | احمد علی شاہ(دادا)،علی محمد عباسی(والد)،ڈاکٹر احسن عباسی (بھائی) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | گورنمنٹ انٹر کالج امروہہ |
پیشہ | مورخ،تحقیق وتصنیف |
کارہائے نمایاں | تصانیف: تاریخ امرو ہہ،تذكرة الكرام ،تحقیق الانساب،خلافت معاویہ ویزید |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمعلی محمد عباسی کے گھر 14 جمادی الثانی 1302ھ/31/ مارچ 1885ء کو بوقت صبح صادق محمود احمد عباسی پیدا ہوئے۔
وطن
ترمیمآپ کا آبائی تعلق امروہہ سے تھا۔ کچھ عرصہ لکھنؤ، دہلی اور علی گڑھ گزارا۔ تقسیم ہند کے بعد 1951ء میں پاکستان ہجرت کرکے کراچی میں آباد ہوئے۔[1]
اجداد
ترمیمآپ کا شجرہ نسب عباسی خلیفہ امین الرشید ابن ہارون الرشید کے واسطے سے محمد مصطفی ﷺ کے چچا عباس ابن عبد المطلب سے جا ملتا ہے۔ امروہہ میں آپ کے مورث اعلیٰ رکن الدین عباسی ابن نظام الدین ہیں جو سلطان سکندر لودھی کے زمانہ میں امروہہ آئے۔ آپ جامع علوم و فنون، صاحب تصانیف اور اپنے عہد کے اکابر فضلاء میں سے تھے ۔ محمود احمد عباسی کے دادا احمد علی شاہ بھی اپنے وقت کے بڑے لوگوں میں ہوئے۔ علوم عربی فارسی کے فارغ التحصیل ،صوفی منش انسان اور حافظ موسیٰ ما تک پوری کے مرید و خلیفہ تھے۔ آپ نے 29 شوال 1297ھ کو امروہہ میں وفات پائی۔آپ کے والد علی محمد عباسی (متوفی 1897ء) اپنے وقت کے عالم دین اور عمائدین شہر میں سے تھے۔ ایک عرصہ تک طالبان علوم دینی کو اپنے گھرہی بلا کسی معاوضہ کے فیض یاب کیا بعد میں وکالت کی سند حاصل کر کے مختلف مقامات پر وکالت کی آخر عمر میں کافی عرصہ تک امروہہ میں پریکٹس کی۔[2]
تعلیم و تربیت
ترمیمرواج زمانہ کے مطابق قرآن کریم کے بعد عربی فارسی درسیات میں کامل دستگاہ بہم پہنچائی۔ بعد میں گورنمنٹ انٹر کالج امروہہ اور دیگر دیار وامصار کے مختلف اسکول اور کالجز میں ہندی انگریزی کی بھی تعلیم حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی ہی سے تصوف و تاریخ اسلامی و دیگر علوم وفنون کے مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔اپنے والد کے انتقال کے بعد بڑے بھائی ڈاکٹر محمد احسن عباسی کے پاس اناؤ اور رائے بریلی میں تعلیم حاصل کی جہاں آپ کے بھائی میڈیکل افسر کی حیثیت سے تعینات تھے۔ اس کے بعد لکھنؤ گئے مگر آپ کالج کے ہوسٹل کی بجائے ایک ذاتی مکان میں رہتے تھے۔ نواب وقار الملک آپ کے والد کے قریبی دوست تھے اسی وجہ سے آپ کی نگرانی کی ذمہ داری نواب صاحب نے لکھنؤ کے ایک دوست کے سپرد کر دی تھی، ان صاحب کے ذریعہ عباسی کا لکھنؤ کے ادیب و شعرا اور دیگر عمائدین شہر سے تعارف ہو گیا۔ جس میں شبلی نعمانی اور عبد الحلیم شرر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسی سبب عباسی ادبی ہنگامہ آرائیوں میں پڑ کر کوئی خاص ڈگری حاصل نہ کر سکے۔ شبلی نعمانی اور عبدالحلیم شرر کے زیر اثر آپ کا زیادہ وقت تاریخ و ادب اور سیرت کی کتابوں، سیاسی اور قومی لٹریچر کے مطالعہ میں صرف ہونے لگا۔ نتیجتا امتحان میں ناکام ہوئے اور تعلیم چھوڑ کرمسلم اسکول بریلی میں مدرس ہو کر آگئے۔ یہاں الطاف حسین حالی اپنے ایک نواسے عبد الوالی کے علاج کے سلسلے میں بریلی کے مشہور و معروف حکیم مختار احمد صدیقی ساکن امروہہ کے یہاں آئے ہوئے تھے ۔ جس طرح لکھنؤ میں شبلی نعمانی اور شہر نے آپ کے علمی ذوق کی حوصلہ افزائی کی تھی اسی طرح یہاں الطاف حسین حالی نے ان کے ادبی و تاریخی ذوق و انہماک کو دیکھتے ہوئے ان پر لطف و مہربانی کی۔[3]
ملازمت
ترمیمالطاف حسین حالی کی سفارش پر عباسی 1908ء میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرس علی گڑھ کے دفتر میں بطور معاون پرسنل اسسٹنٹ ملازم ہو گئے ۔ عباسی یہاں چودہ سال رہے اور تقریباً دس سال صاحب زادہ آفتاب احمد خاں جوائنٹ سکریٹری (متوفی1930ء) کے ماتحت کام کیا۔ آپ نے عباسی کو ترقی دے کر ادبی معاون اور پھر صدر دفتر کا قائم مقام سپرنٹنڈنٹ بنا دیا۔[4] آخر میں بعض مخالفین کی ریشہ دوانیوں کے سبب اس ملازمت سے استعفیٰ دے کر امروہہ آگئے۔ اسی زمانہ میں محمد علی جوہر ( متوفی جنوری 1931ء) نے دہلی سے اپنا مشہور زمانہ اخبار "ہمدرد "جاری کیا تو عباسی کو اس روز نامہ کے مدیر کی حیثیت سے دعوت دی جو عباسی نے قبول کر لی اور صرف ایک سال ہمدرد کے مدیر رہے۔ اس کے بعد آپ مستقل امروہہ آکر اپنے ذوق کے مطابق علمی کاموں میں مصروف ومشغول ہو گئے۔
سیاست میں حصہ
ترمیمامروہہ میں دوران قیام عملی سیاست میں بھی بھر پور حصہ لیا اورکانگریس پارٹی میں شامل ہو کر امروہہ کانگریس کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے ۔ [5]کچھ عرصہ تک میونسپل بورڈ امروہہ کے صدر اور آنریری مجسٹریٹ بھی رہے۔
ہجرت
ترمیم1947ء میں تقسیم ہند کے بعد جب ملک کی فضا خراب ہوئی تو آپ امروہہ میں اپنی تمام جائداد و املاک کو خیر باد کہہ کر 1951ء میں مستقلاً پاکستان ہجرت کر گئے۔[6]
تصانیف
ترمیم- تاریخ امروہہ
- تذكرة الكرام
- تحقیق الانساب
- حقیقت قوم کنبوه
- خلافت معاویہ ویزید
- تحقیق مزید
- تحقیق سید وسادات
- تبصرات محمودی بر ہفوات مودودی
- حقیقت خلافت و ملوکیت
- رسومات محرم اور تعزیہ داری[7]
- نالۂ شبلی
- مقتل حسین
- ام ہانی
- طلب حکومت کے چھیاسٹھ خروج
- حکمائے امروہہ
- مشاہیر امروہہ
- شعرائے امروہہ[8]
تصنیفاتِ عباسی
ترمیموفات وتدفین
ترمیممحمود احمد عباسی 14مارچ 1974ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اور طارق روڈ کراچی میں سوسائٹی کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ محمود احمد عباسی فن اور شخصیت،از حکیم سراج الدین ، صفحہ7,8,14
- ↑ مالک رام۔ تذکرۂ معاصرین صفحہ 883
- ↑ محمود احمد عباسی فن اور شخصیت،از حکیم سراج الدین ، صفحہ 8,9
- ↑ تذکرہ معاصرین، از مالک رام صفحہ 883
- ↑ تذکرۂ معاصرین ،از مالک رام ،صفحہ884
- ↑ محمود احمد عباسی فن اور شخصیت،از حکیم سراج الدین ، صفحہ 15
- ↑ "رسومات محرم اور تعزیہ داری"
- ↑ محمود احمد عباسی اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں ، از علی مطہرنقوی، صفحہ 54 ،مکتبہ الحجاز کراچی