مختار احمد ندوی
مولانا مختار احمد ندوی 1930ء میں ہندوستان کی ریاست اُترپردیش کے مشہور شہر مئوناتھ بھنجن کے وشوناتھ پورہ محلہ میں پیدا ہوئے تھے۔
تعلیم اور خدمات
ترمیممختلف اداروں سے علمی استفادہ کیا۔ خصوصا ہندوستان اور عالم اسلام میں معروف ومشہور ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تعلیم حاصل کیا۔ بعد ازاں کولکاتہ جامع مسجد اہل حدیث میں خطیب، امام اور مفتی کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ تک فائز رہے۔
کولکاتہ کے بعد وہ عروس البلاد ممبئی تشریف لائے۔ اور سلفی العقیدہ کتب کی نشر و اشاعت کے لیے عالم اسلام کے معروف و مشہور ادارہ الدارالسلفیہ کی بنیاد رکھی۔ اس مکتبہ سے تقریباً تین سو کتابیں شائع کروائیں۔ انھوں نے ممبئی سے ایک ذاتی ماہنامہ البلاغ جاری کیا۔ جو صحافت کے میدان میں اپنی مثال آپ ہے۔ موصوف نے تعمیر مساجد کے سلسلے میں ادارہ اصلاح المساجد بنائی۔ الحمد للہ ہندوستان میں کشمیر تا کنیا کماری اور ممبئی تا کولکاتہ مساجد کا جال بچھا دیا۔ ہندوستان کی شاید ہی کوئی ریاست ایسی ہو جہاں ان کی تعمیر کردہ مسجد نہ ہو۔
مشن
ترمیموہ گرچہ ایک تنہا شخص تھے، لیکن اپنے آپ میں ایک امت کی حیثیت رکھتے تھے۔ پر عزم، پر خلوص اور بامقصد شخصیت جن کے اندر امت کے لیے کچھ کرنے کا جنون تھا۔ اور اسی جنون نے ان کو ایک بہت وسیع منصوبے پر کام کرنے پر ابھارا۔ اور انھوں نے ہندوستان میں ایک ایسی یونیورسٹی تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا جس میں طلبہ کو کتاب سنت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے جدید علوم سے بھی مرتبط کیا۔ اور ہندوستان میں ایک ایسے ادارے کی بنیاد ڈالی جو اپنے آپ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جی ہاں جامعہ محمدیہ منصورہ نامی ادارہ اپنے انوکھے پن میں ہندوستان کا واحد ادارہ تھا۔ جہاں اسلامی تعلیمات کو عصر حاضر کے جدید علوم سے ہم آہنگ کیا گیا تھا۔ اور الحمد للہ 1978ء سے یہ ادارہ آج تک کامیابی کی منازل طئے کرتا جا رہا ہے۔ ہندوستان کی صنعتی ریاست مہاراشٹر کے کثیر مسلم آبادی والے شہر مالیگاؤں میں 1978ء میں اس ادارے کی بنیاد ڈالی۔ شیخ تنہا اس میدان میں اترے تو اہل خیر نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ اور مالیگاؤں شہر سے متصل ایک وسیع عریض زمین کو اس اسلامی قلعے کے لیے شہر کے مخیر جناب خلیل احمد فیضی رحمہ اللہ نے وقف کر دیا۔ الحمد للہ یہ سخاوت خلیل احمد فیضی کے فرزندان میں آج بھی موجود ہے۔ اللہ فیضی خاندان کی اس جود وسخا کو قائم و دائم رکھے۔ آمین۔ بعد میں ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں اس ادارے کی شاخیں قائم کیں۔ جن میں ریاست کرناٹک میں جامعہ محمدیہ منصورہ بنگلور اور ریاست اترپردیش میں جامعہ محمدیہ منصورہ مئوناتھ بھنجن مشہور ہیں۔ مالیگاؤں میں ملک کے ممتاز یونانی محمدیہ میڈیکل کالج اور ریسرچ سنٹر کی بنیاد ڈالی۔ جو آج طب یونانی میں ہندوستان بھر میں اپنی مثال آپ ہے۔ حکومت مہاراشٹر کی تعلیمی بورڈ سے منظور شدہ اسکولیں بھی قائم کیں۔ جن میں قابل ذکر محمدیہ اردو ہائی اسکول منصورہ مالیگاؤں ہے۔ تعلیمی اداروں کے سلسلے میں انھوں نے کئی ایسے کارنامے انجام دئے جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔ مثلاً دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کے حسین امتزاج کی ابتدا ہندوستان میں آں محترم کے ذریعے ہی انجام پایا۔ اور سب سے اہم کام یہ تھا کہ ہزاروں مخالفتوں کے باوجود انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے گویا علم جہاد بلند کر دیا۔ اور مالیگاؤں ہی میں لڑکیوں کے ایک اسلامی کالج، کلیہ عائشہ صدیقہ منصورہ کا قیام کیا۔ اور اس کامیاب تجربے کے بعد مئو ناتھ بھنجن میں کلیہ فاطمۃ الزہراء اور کرناٹک میں کلیہ عائشہ الصدیقہ بنگلور کا قیام کیا۔ یہاں سے سینکڑوں لڑکیاں پڑھ کر دنیا کے کونے کونے میں حتٰی کہ خلیجی ممالک کے علاوہ یورپی ممالک میں برطانیہ، کینیڈا اور امریکا وغیرہ میں بھی دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ الحمد للہ۔
ایک ممتاز فکر
ترمیمشیخ اس بات سے نالاں تھے کہ برصغیر میں مسلمانوں نے علم کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک دینی علوم اور دوسرا عصری یا دنیاوی علوم۔ اور یہی تقسیم مسلمانوں کی پستی کا ایک اہم سبب بھی بنا۔ ان کے مطابق علم کی یہ تقسیم بالکل بھی درست نہیں ہے۔ کیوں کہ تمام علوم اللہ کے ہیں۔ سائنس پڑھ کر ایک طالب تخلیق کے بہت سے رموز سے آگاہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جغرافیہ سے بھی وہ کائنات کے مختلف حصوں کی بناوٹ پر غور کرتاہے، جو عین اللہ کا ہی حکم ہے۔ اسی طرح تاریخ سے ایک طالب بہت کچھ سیکھتا ہے اور مستقبل کے لیے لائحۂ عمل بناسکتا ہے۔ اسی طرح انگریزی ودیگر زبان سیکھ کر دعوت اسلام کو دوسروں تک پہنچانے میں بہت بڑی مدد مل سکتی ہے۔ شیخ کے مطابق اگر علم کو تقسیم کرنا ہی ہو تو ایک کو علم شرعی کہیں اور دوسرے کو علم تکوینی۔ سن 1992 ء میں عالم اسلام کی معروف شخصیت ڈاکٹر عبد اللہ عمر نصیف، رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے تقریباً چالیس افراد کے وفد کے ساتھ خصوصی ظیارے سے جب جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں تشریف لائے اور جامعہ کا معائنہ کیا تو حیران ہوکر فرمایا تھا : "دیکھیے شیخ مختار کس قدر نشیط ہیں ملک کے سربراہوں اور سلطانوں کے کرنے کے کام آپ کر رہے ہیں !!"
جمعیت اہل حدیث ہندکی خدمت
ترمیمآپ 1979ء سے 1989ء تک مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے نائب امیر، 1989ء سے 1990ء تک کار گزار امیر اور 1990ء سے 1997ء تک جماعت کے امیر کے منصب پر فائز رہے، اپنے دور میں انھوں نے جمعیت کی ترقی اور تنظیم کے لیے کئی یادگار اقدامات کیے۔ جن میں ہندوستان کی دارالحکومت دہلی کے وسط میں شاہی جامع مسجد کے بالکل قریب ایک بڑی عمارت اہل خیر حضرات کی مدد سے خرید کر جماعت کے لیے وقف کر دیا۔
تصنیف وتالیف
ترمیمشیخ موصوف ایک موثر خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بے باک صحافی اور منجھے ہوئے ادیب بھی تھے۔ عربی اور اردو ادب پر آپ کو کمال حاصل تھا۔ صحافت وخطابت کے شوقین تھے۔ اور اسی ذوق و شوق کی بنا پر اخبار اہل حدیث دہلی کی مجلس ادارت سے منسلک ہوئے اور کئی علمی مقالے تحریر فرمائے۔ سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ سے آپ کا بہت ہی خاص تعلق تھا۔ شیخ محترم نے مولانا سے اپنی اور دوسرے مشائخ کی کئی کتابوں کا اردو ترجمہ کروایا، انہی کتابوں میں ایک اہم کتاب التحقیق والایضاح لکثیر من مسائل الحج والعمرة والزیارة بھی ہے، حج وعمرہ اور زیارت کے مسائل پر مشتمل مولانا کا ترجمہ کیا ہوا یہ کتابچہ پچھلے کئی سالوں سے برصغیر کے حاجیوں اور معتمرین کو سعودی حکومت بطور ہدیہ دیتی آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی بہت سی تصنیفات ہیں۔ جن میں اہم کتابوں کے اردو ترجمے، رسائل وکتابچے شامل ہیں۔
وفات
ترمیمتوحید کا علم بردار یہ فقید المثال شخصیت 7 ستمبر 2007ء کو اس دار فانی سے ابد الآباد زندگی کی طرف رحلت کرگئی۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ اللہ تعالی اپنے اس توحید پرست دین کے سچے خادم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آپ کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے اور آپ کی دانستہ وغیر دانستہ جملہ خطاؤں کو درگزر فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
بعد از وفات
ترمیمان کی وفات کے بعد بھی ان کا مشن جاری و ساری رہا۔ جس کی باگ ڈور شیخ موصوف نے اپنی زندگی ہی میں اپنے چھوٹے فرزند ارشد مختار محمدی کے حوالے کر دیا تھا۔ ان کی وفات کے بعد کئی قابل ذکر کارنامے ھوئے۔ جن میں سے اہم یہ ہے کہ منصورہ، مالیگاؤں کے احاطے میں مولانا موصوف کے نام پر ایک انجنیئرنگ کالج قائم کیا گیا ہے۔ اللہ موصوف کی تمام خدمات کو قبول فرمائے۔ آمین