مخزن (جریدہ)

برطانوی ہندوستان میں لاہور سے شائع ہوانے والا اردو رسالہ

مخزن برطانوی ہند میں لاہور سے شائع ہونے والا ایک علمی و ادبی جریدہ تھا جس کا اجرا اپریل 1901ء میں ہوا۔ اس جریدے کے بانی و مدیر ہندوستان کے معروف قانون دان، مسلمانانِ ہند کے رہنما اور ریاست بہاولپور کے سابق چیف جج سر شیخ عبد القادر تھے۔[1]

مدیرشیخ عبد القادر
مدیر معاونشیخ محمد اکرام
شعبہادبی جریدہ
دورانیہماہنامہ
ملکپاکستان کا پرچم پاکستان
مقام اشاعتلاہور
زباناردو

شیخ عبد القادر نے اردو زبان و ادب کی داخلی توانائیوں کو ان خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی جن سے خود انگریزی زبان نے ترقی کی تھی۔ وہ اسالیبِ شعر کے علاوہ اصنافِ ادب کو بھی عالمی ادب کے ہم پلہ بنانے کے آرزو مند تھے۔ چنانچہ انہون نے مخزن کے پہلے اداریے میں تقلیدی رویوں کی مذمت کی، تصنع نگاری کے خلاف آواز اٹھائی اور ادبا و شعرا کو فطرت کی زبان میں تخلیق کاری کی دعوت دی۔ مخزن کا ایک مقصد مذہبی اور سیاسی طبقوں سے الگ رہ کر اردو ادب کی خدمت کرنا تھا۔ چنانچہ مخزن نے مروجہ ڈگر سے علاحدہ روش اختیار کی اور جذبے اور تاثر کو ملکوتی زبان میں پیش کیا تو اس عہد کے بیشتر نئے لکھنے والے مخزن کی طرف راغب ہو گئے۔ اس کے پہلے پرچے کی تاریخی حیثیت یہ بھی ہے کہ اس میں علامہ محمد اقبال کی معرکہ آرا نظم ہمالہ شائع ہوئی، مولوی احمد دین کا مضمون مطالعہ الفاظ، شیخ عبد القادر کا مقالہ بناوٹ اورسادگی، لالہ سری رام کا تاریخی مضمون دہلی غدر سے پہلے کے علاوہ مولانا ظفر علی خان، غلام بھیک نیرنگ اور خوشی محمد ناظر کی نظمیں بھی اس پرچے کی زینت بنیں۔[2]

مخزن کا دائرہ بہت وسیع تھا، شیخ عبد القادر کے بلند سماجی رتبے، انگریزی اور اردو کی اعلیٰ تعلیم، خوش ذوقی اور کشادہ نظری نے بھی اس پرچے کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ چنانچہ اس کے قلمی معاونین میں علامہ اقبال، غلام بھیک نیرنگ، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، یگانہ چنگیزی، حافظ محمود خان شیرانی، الطاف حسین حالی، محمد حسین آزاد، سجاد حیدر یلدرم، آغا حشر کاشمیری، راشد الخیری، چکبست، اکبر الہ آبادی، حسرت موہانی، طالب بنارسی، نادر کاکوروی، شاد عظم آبادی، شوق قدوائی اور متعدد دوسرے اہل قلم شامل تھے۔[2]

مخزن کی ادارت میں شیخ محمد اکرام بطور مدیرِ معاون شامل تھے۔ 1904ء میں شیخ عبد القادر لندن گئے تو مخزن کی ادارت شیخ محمد اکرام نے سنبھال لی، ستمبر 1907ء مخزن شیخ عبد القادر کے ساتھ دہلی منتقل ہو گیا اور ادارت میں ان کا ہاتھ راشد الخیری بٹانے لگے۔ 1909ء میں مخزن واپس لاہور آ گیا، 1910ء میں اسے مولوی غلام رسول نے خرید لیامگر اس کے بعد بھی شیخ عبد القادر کا نام سر ورق پر اعزازی مدیر کے طور پر چھپتا رہا۔ 1917ء میں مولوی غلام رسول فوت ہو گئے تو اس کے معاون مدیر تاجور نجیب آبادی مقرر ہو گئے۔ مخزن کا ایک اور تابندہ دور 1927ء میں شروع ہوا۔ اس دور کے مدیر حفیظ جالندھری اور معاون مدیر ہری چند اختر تھے۔ [2]

حوالہ جات ترمیم

  1. ڈاکٹر انور سدید، پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ، اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد، جنوری 1992ء، ص 49
  2. ^ ا ب پ ڈاکٹر انور سدید، پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ، اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد، جنوری 1992ء، ص 50