حفیظ جالندھری

پاکستان کے قومی ترانے کے خالق، عظیم شاعر

ابو الاثر حفیظ جالندھری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مقبول رومانی شاعر اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے شہرتِ دوام پائی۔ ملکہ پکھراج نے ان کی نظم ابھی تو میں جوان ہوں کو گا کر شہرت دی۔

حفیظ جالندھری
فائل:حفیظ جالندھری.jpg
حفیظ جالندھری
پیدائش14 جنوری 1900(1900-01-14)ء
جالندھر، پنجاب، برطانوی ہندوستان
وفات21 دسمبر 1982(1982-12-21)
لاہور، پنجاب، پاکستان
قلمی نامحفیظ جالندھری
پیشہشاعر، افسانہ نگار
قومیتپاکستان کا پرچمپاکستانی
اصنافغزل
موضوعحُب الوطنی, فلسفہ
نمایاں کامقومی ترانہ
شاہنامہ اسلام
نغمہ بار
سوزو ساز
اہم اعزازاتتمغۂ حسنِ کارکردگی
ہلال امتیاز
شریک حیاتزینت بیگم
خورشید بیگم
رشتہ دارشمش الدین (والد)

حالات زندگی

ترمیم

حفیظ جالندھری ہندوستان کے شہر جالندھر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے۔[1]۔ آزادی کے وقت 1947ء میں لاہور آ گئے۔ آپ نے تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی، مگر اس کمی کو انھوں نے خود پڑھ کر پوری کیا۔ انھیں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ آپ نے محنت اور ریاضت سے نامور شعرا کی فہرست میں جگہ بنالی۔[2]۔ حفیظ جالندھری پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال، صدر پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر کے منصب پر بھی فائز رہے۔[3]

ادبی خدمات

ترمیم

حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے، جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ انھوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیاء کیا، جس پر انھیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔

حفیظ جالندھری کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے، اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ حفیظ جالندھری نے یہ خوب صورت قومی ترانہ احمد جی چھاگلہ کی دھن پر تخلیق کیا تھا اور حکومت پاکستان نے اسے 4 اگست 1954ء کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کیا تھا۔[1]

حفیظ جالندھری کی شاعری کی خوبی اس کی غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لیے انھوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو غنائیت کے پیکر پر پورے اترتے ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت نگاری بھی ہے۔ انھوں نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے اور گیت کو بھی انھوں نے نئے پیکر عطا کیے۔ شاید اسی لیے آج تک حفیظ جالندھری کی شناخت ابھی تو میں جوان ہوں کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک پر اثر گیت ہے کیوں کہ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور سامع کے دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ حفیظ کی غزلوں کا سرمایہ کافی ہے اور حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ انھوں نے غزل میں بہت سے نئے تجربات کیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سلیس زبان کا استعمال کیا اور گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ ایک طرح سے انھوں نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی۔ ان کے یہاں روایت سے بغاوت ملتی ہے۔[2]

حفیظ کا اقبال

ترمیم

حفیظ علامہ اقبال سے بہت متاثر تھے اکثر اقبال کے ہاں حاضری دیتے۔ علامہ اقبال نے جب 1926 میں پنجاب لیجسلیٹیو اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا تو آپ کی انتخابی مہم میں حفیظ اکثر آپ کے ساتھ رہتے۔ حفیظ نے اپنے مضمون ’حفیظ کا اقبال‘ میں جہاں علامہ اقبال سے اُن کی بے تکلفی کا ذکر کیا ہے وہاں وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ایک روز اقبال نے علی بخش کو جالندھر بھیج کر مجھے لاہور طلب کیا اور کہا کہ ’’حفیظ ! تم میرا مرثیہ لکھنا‘‘۔ حفیظ تحریر کرتے ہیں کہ اقبال نے اُن سے شاہنامہ میں سے ولادتِ رسول کے اشعار سنانے کی درخواست کی‘ جسے انھوں نے قبول کیا۔[4]

تصانیف

ترمیم

حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں

  1. نغمہ بار
  2. تلخابہ شیریں
  3. سوزو ساز
  4. افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر،
  5. گیتوں کے مجموعے ہندوستان ہمارا،
  6. پھول مالی
  7. بچوں کی نظمیں
  8. اپنے موضوع پر ایک کتاب چیونٹی نامہ
  9. شاہنامہِ اسلام 4جلد
  10. بزم نہیں رزم
  11. چراغِ سحر
  12. تصویرِکشمیر
  13. بہار کے پھول

نمونہ کلام

ترمیم

شعر

یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہسوار ہےجو ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بلیقن حسینؑ ہے، نبیﷺ کا نوُرِعین ہےجو ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا

شعر

دیکھا جوکھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

شعر

ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے

وفات

ترمیم

پاکستان کے قومی ترانہ اور شاہنامہ اسلام کے خالق حفیظ جالندھری 21 دسمبر 1982ء کو لاہور پاکستان میں 82 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔[1] علامہ اقبالؒ سے بے پناہ عقیدت اور عشق ہونے کی بنا پر آپ نے بعد از وفات علامہ کے پہلو میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی جو پوری نہ ہو سکی۔ پہلے انھیں ماڈل ٹاﺅن کے قبرستان میں امانتاً دفن کیا گیا۔ احبابِ حفیظ بالخصوص ان کے شاگرد اور منہ بولے فرزند حمید کوثر، پروفیسر مرزا محمد منور، پروفیسر ڈاکٹر خواجہ زکریا، جناب صفدر محمود اور بیگم حفیظ جالندھری نے ان کی وصیت کے مطابق تدفین کے لیے بہت کوششیں کیں۔ بالآخر حکومت پاکستان نے مینارِ پاکستان سے ملحق ایک گراﺅنڈ میں ان کا مزار تعمیر کروایا اور ان کی میت وہاں دفن ہے[5]

حوالہ جات

ترمیم