مخمور اکبر آبادی – سید محمد محمود رضوی (پیدائش: 4 فروری 1894ء– وفات: 16 اپریل 1976ء) اردو زبان کے نامور شاعر ، مصنف اور نقاد تھے۔

مخمور اکبر آبادی
معلومات شخصیت
پیدائش 4 فروری 1894ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آگرہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 اپریل 1976ء (82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خیرپور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (4 فروری 1894–14 اگست 1947)
پاکستان (14 اگست 1947–16 اپریل 1976)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی، آگرہ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ وکیل ،  مترجم ،  سیاست دان ،  مصنف ،  شاعر ،  نقاد   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

پیدائش اور ابتدائی حالات ترمیم

مخمور کی پیدائش 4 فروری 1894ء کو آگرہ میں اُن کے آبائی مکان کٹرا ہادی حسن میں ہوئی۔ مخمور کے والد سید محمد علی آگرہ کی دیوانی عدالت میں منصرم تھے اور بعد میں ناظم مقرر ہو گئے تھے۔[1]

تعلیم و ملازمت ترمیم

مخمور کی ابتدائی تعلیم کے متعلق زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں مگر چودہ سال کے تھے جب مفید عام ہائی اسکول (آگرہ) سے دسویں کی سند حاصل کی۔ تعلیم کے زمانے میں نہایت ممتاز رہے۔ مختلف درجوں میں متعدد مواقع پر انعامات اور سونے چاندی کے تمغے بھی حاصل کیے۔ آگرہ کالج سے ایل ایل بی کر کے وکالت کو ذریعہ معاش بنالیا۔ تقریباً اٹھارہ سال تک آگرہ میں وکالت کرتے رہے اور اِس میں بھی خاصی کامیابی حاصل کی۔ اِسی دوران میں حکومت برطانیہ نے انھیں آگرہ یونیورسٹی کی سینیٹ کا رکن نامزد کر دیا اور تقریباً بارہ سال تک اِسی عہدے پر فائز رہے۔[2]

تقسیم ہندوستان کے بعد ملازمت اور آخری عمر ترمیم

جنگِ عظیم دؤم (1939ء1945ء) کے دوران مخمور کو حکومت ہندوستان نے آل انڈیا ریڈیو میں مترجم مقرر کر دیا اور اِسی سلسلے میں وہ ڈھاکا کے دفتر میں (جاپانی محاذ پر) متعین ہو گئے۔ تقسیم ہندوستان میں وہ پاکستان میں ہی رہ گئے اور اِس کے بعد بھی بہت دن تک ریڈیو پاکستان میں ملازم رہے۔ اِس طرح انھیں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں طویل قیام کا اِتفاق ہوا۔ جب ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو اپنے اکلوتے بیٹے سید حسن محمود رضوی (سابق ڈپٹی کلکٹر سینئر ایکسائز کسٹمز، پاکستان) کے پاس کراچی میں مقیم ہو گئے۔ غالباً بعد کو اپنے بیٹے سے اختلاف کے سبب انھیں گھر چھوڑنا پڑا اور اِس کے بعد بہت ہی بے بسی اور عسرت بلکہ خاصی تنگ دستی سے زندگی بسر ہونے لگی۔ بالآخر کراچی سے نقل مکانی کرکے اپنے بھانجے سید علی مظاہر جعفری ایڈووکیٹ کے پاس خیرپور چلے گئے۔ وہیں بروز جمعہ 16 اپریل 1976ء کی صبح پانچ بجے انتقال کرگئے۔ خیرپور کے شیعہ قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔[3]

اردو ادب میں مقام ترمیم

مخمور کو پڑھنے لکھنے کا شوق طالب علمی کے زمانے سے ہی تھا۔ اُن کے گھرانے میں علمی روایت تھی۔ خان بہادر سید آلِ نبی مرحوم اُن کے جدِ اعلیٰ تھے۔ نانا مولوی سید محمد تنزیہ الفرقان کے مصنف تھے۔ نیاز فتح پوری نے جن احباب کے تعاون سے 1922ء میں مجلہ ’’نگار‘‘جاری کیا تھا، اُن احباب کو ’’یارانِ نجد‘‘ کا نام دیا تھا۔ مخمور بھی اِن احباب میں شامل تھے اور غالباً اِس گروہ میں سب سے کم عمر تھے۔[4]

تصانیف ترمیم

  • روحِ نظیر: یہ کتاب پہلی بار 1942ء میں شائع ہوئی جبکہ دوسرا ایڈیشن 1949ء میں شائع ہوا تھا۔ وفات سے قبل مخمور نے اِس کتاب پر نظرِ ثانی بھی کی تھی۔ مسودہ مخمور کے بیٹے کی ذاتی ملکیت رہا۔
  • آلام حیات : یہ کتاب تراجم اور افسانوں کا مجموعہ ہے اور یہ بھی غالباً 1950ء کی دہائی میں تصنیف کی گئی تھی۔[5]

کتابیات ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. تذکرۂ معاصرین، جلد 4، صفحہ62۔
  2. تذکرۂ معاصرین، جلد 4، صفحہ62۔
  3. تذکرۂ معاصرین، جلد 4، صفحہ62/63۔
  4. تذکرۂ معاصرین، جلد 4، صفحہ63۔
  5. تذکرۂ معاصرین، جلد 4، صفحہ63۔