مسرت کلانچوی

سرائیکی افسانہ نگار، ڈراما نویس اور تاریخ کی سابق پروفیسر

مسرت کلانچوی (پیدائش: 10 نومبر، 1956ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والی سرائیکی زبان کی نامور افسانہ نگار، سیرت نگار، تاریخ کی سابق پروفیسر اور سرائیکی، اردو اور پنجابی زبانوں کی ڈراما نویس ہیں۔ وہ ممتاز سرائیکی ادیب پروفیسر دلشاد کلانچوی کی دختر ہیں۔ ان کے شوہر کا نام اسلم ملک ہے جو صحافت سے وابستہ رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے 14 اگست 2023ء کو ان کی ادبی خدمات کے صلہ میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیا ہے۔

مسرت کلانچوی

معلومات شخصیت
پیدائش 10 نومبر 1956ء (68 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہاولپور ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات اسلم ملک
والد دلشاد کلانچوی   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ایم اے   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ افسانہ نگار ،  ڈراما نگار ،  پروفیسر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان سرائیکی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان سرائیکی ،  اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نوکریاں گورنمنٹ فاطمہ جناح کالج برائے خواتین   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 تمغائے حسن کارکردگی   (برائے:ادب ) (2023)
قومی سیرت النبی ایوارڈ (2005)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

مسرت کلانچوی 10 نومبر1956ء کو بہاولپور، پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد پروفیسر دلشاد کلانچوی سرائیکی زبان و ادب کے نامور محقق، نقاد، ناول نگار اور پروفیسر تھے۔ مسرت کو بچپن ہی سے علمی اور ادبی ماحول ملا۔ انھوں نے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول بہاولپور سے پاس کیا۔ پھر ایف اے اور بی اے صادق کالج فار گرلز بہاولپور سے پاس کرنے کے بعد ایم اے (تاریخ) کی ڈگری اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے حاصل کی۔[1][2]

ملازمت

ترمیم

مسرت کلانچوی 1983ء میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین حاصل پور میں لیکچرر مقرر ہوئیں۔ بعد ازاں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے گورنمنٹ فاطمہ جناح کالج برائے خواتین لاہور میں شعبہ تاریخ کی صدر اور ویمن اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ کی انچارج رہیں۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج برائے خواتین گلشن راوی لاہور کی پرنسپل کے طور پر 10 نومبر 2016ء کو ریٹائرڈ ہوئیں۔ اس کے علاوہ وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے بورڈ آف اسٹڈیز (سرائیکی) کی رکن بھی رہیں[2]۔ انھیں متعدد قومی ادبی انعامات کے کے لیے جیوری کا رکن بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے جن میں پاکستان کا سب سے بڑا ادبی انعام کمال فن ادب انعام بھی شامل ہے۔ اسلم ملک ان کے شوہر ہیں،

ادبی خدمات

ترمیم

علم و ادب کے دلدادہ والد نے گھر میں بہترین لائبریری بنا رکھی تھی۔ بچوں کے اکثر رسائل وہاں آتے تھے جنہیں مسرت شوق سے پڑھتی تھیں۔ انھوں نے پہلی کہانی اس وقت لکھی جب وہ پانچویں جماعت کی طالب علم تھیں۔ ان کی یہ کہانی امروز میں شائع ہوئی۔ والد کے کہنے پر انھوں نے سرائیکی میں افسانے لکھے جو سرائیکی بہاولپور اور سرائیکی ادب ملتان میں چھپنے لگے[1]۔ انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ سرائیکی زبان میں افسانوں کا سب سے پہلا مجموعہ اُچی دھرتی جھکا آسمان انھیں کا تحریر کردہ ہے جو 1976ء میں شائع ہوا، اسی وجہ سے انھیں سرائیکی ادب کی خاتون اول کہا جاتا ہے۔[2]

1975ء میں ریڈیو پاکستان بہاولپور کا آغاز ہوا تو مسرت اس کی اولین ٹیم کا حصہ تھیں۔ انھوں نے اس کے لیے پہلا فیچر پیکیاں دی نوکرانی لکھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی پروگراموں کے کے لیے اسکرپٹ لکھے اور کمپئیرنگ کی، بطور معاون پروڈیوسر ذمہ داریاں نبھائیں اور صدا کاری بھی کی۔ 1985ء میں مسرت کی شادی سینئر صحافی اسلم ملک سے ہو گئی جو ان کے والد کے قریبی دوست کے بیٹے ہیں۔ شادی کے بعد مسرت لاہور مننتقل ہوگئیں۔[1]

مسرت نے اپنی تحریروں میں ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جو طبقاتی اونچ نیچ، خاندانی رسومات و روایات اور رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں سرائیکی علاقے کی عورت کی محرومیوں اور فرسودہ رسوم و رواج کے خلاف احتجاج جا بجا نظر آتا ہے۔ انسانی نفسیات، احساسات، جذبات اور معاشرتی رویوں کا باریک بین جائزہ مسرت کلانچوی کے افسانوں کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ ان کی تصانیف میں اُچی دھرتی جھکا آسمان (افسانے)، ڈکھن کنیں دیاں والیاں (افسانے)، تھل مارو دا پینڈا (افسانے)، وڈیاں دا آدر (طویل کہانی)، سنجھہ صبا حیں (ڈرامے)، مکی مدنی (سیر ت)، اپنا گھر (اردو ڈراما)، حضورؐ کابچپن اور لڑکپن (سیرت) کے نام سے کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ انھیں نے طویل دورانیے کے ٹیلی وژن ڈرامے ایک منٹ، ورثہ اور دشتِ تنہائی میں اور ٹیلی وژن ڈراما سیریلز ریگ زار (اردو)، مسافت (اردو)، دھوپ سائبان (اردو)، پربت (اردو)، رت بدلے گی (اردو)، صحرا (اردو)، نور نظر (اردو)اور بوہے تے باریاں (پنجابی)، مٹی رنگے لوگ (پنجابی) اور پارت (سرائیکی) بھی لکھے۔ وہ پہلی ڈراما نویس ہیں جن کے تین زبانوں میں ڈراما سیریلز ٹیلی کاسٹ ہوئے۔[1]

تصانیف

ترمیم
  • اچی دھرتی جھکا اسمان (افسانے)
  • ڈکھن کنیں دیاں والیاں (افسانے)
  • تھل مارو دا پینڈا (افسانے)
  • وڈیاں دا آدر (طویل کہانی)
  • مکی مدنی (سیرت)
  • حضورؐ کا بچپن اور لڑکپن
  • سنجھ صباحیں (ڈرامے)

اعزازات

ترمیم

ادبی و ثقافتی اداروں کے بورڈ آف گورنرز میں نامزدگیاں

ترمیم
  • 2023ء - ممبر بورڈ آف گورنرز - مجلس ترقی ادب، حکومت پنجاب
  • 2023ء - ممبر بورڈ آف گورنرز - پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج، آرٹ اینڈ کلچر (پلاک)، حکومت پنجاب

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ڈراما 'دریا' اور ڈراما 'ریگزار' کا تقابلی مطالعہ (چولستان کے تناظر میں ) (مقالہ برائے ایم فل)، مقالہ نگار سلامت علی، نیشنل کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس رحیم یار خان کیمپس، سیشن 2014-2016
  2. ^ ا ب پ سرائیکی ادب کی خاتون اول مسرت کلانچوی، انٹرویو فرزانہ چودھری، روزنامہ نوائے وقت سنڈے میگزین، صفحہ 9، 12 فروری، 2017ء
  3. پاکستانی سول ایوارڈز - 14 اگست 2023ء، پریس ریلیز نمبر F.No.l/l/2023-Awards-l، کابینہ ڈویژن، حکومت پاکستان