احادیث کے اس مجموعہ کے مولف پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے نامور محدث ابو محمد حسین بن مسعود بن محمد الفرا البغوی ہیں۔ ان کی کنیت ابو محمد، لقب فراء (کیونکہ پوستین کی تجارت کرتے تھے)۔ ہرات و سرخس کے درمیان ایک بستی بَغو کے رہنے والے تھے اس لیے بغوی کہلاتے ہیں۔ خواب میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ تُو نے میری سنت زندہ کی، اللہ تجھے زندہ رکھے لہذا خطاب محی السنتہ ہے، بغوی فقہ میں قاضی حسین بن محمد کے شاگرد ہیں۔قاضی حسین کا اجل شوافع میں شمارہوتا ہے۔حدیث میں بغوی نے ابو الحسن داؤدی کی شاگردی اختیار کی۔ابو الحسن داؤدی کا نام عبد الرحمن بن محمد ہے۔یہ محدثین کے ضمرہ میں داخل ہیں۔ان کے علاوہ بغوی نے یعقوب بن احمدصیرنی 'علی بن یوسف جوینی اور دوسرے محدثین سے استفادہ کیا۔ بغوی کو تین چیزوں میں مہارت اور کمالحاصلتھا۔وہ محدث بھی تھے اور اس کے ساتھ فقیہ اور مفسربھی۔تمام عمر تصنیف و تالیف اور قرآن و حدیث اور فقہ کے درس میں مشغول رہے۔درس ہمیشہ با وضو دیتے تھے۔زہد و قناعت کی زندگی تھی ,قائم الیل اور صائم النہار تھے۔افطار کے وقت خشک روٹی کو کا فی سمجھتے۔جب لوگوں نے بہت اصرار کیا اور کہا کہ خشک روٹی کھانے سے دماغ میں خشکی آجائے گی تو سالن کے طور زیتون کا تیل استعمال کر نے لگے۔ ہآپ شافعی المذہب ہیں۔ بڑے متقی عالم، زاہد اور تارک الدنیا بزرگ تھے، ہمیشہ روکھی روٹی یا زیتون و کشمش سے روٹی کھائی۔ اسی برس سے زیادہ عمر پا کر 516 ہجری میں مقام کرد میں وفات پائی۔ اپنے استاد قاضی حسین کے پہلو میں دفن ہوئے۔ آپ نے مصابیح السنتہ، شرح السنتہ، تفسیر معالم التنزیل، کتاب التہذیب، فتاوی بغوی وغیرہ کتب تصنیف فرمائیں۔
مصابیح میں چار ہزار چار سو چوراسی(4484) حدیثیں ہیں۔جن مہں سے بخاری اور مسلم کی 2434 احادیث ہیں باقی 2050 حدیثیں سنن ابی داؤد اور ترمذی وغیرہ کی ہیں ۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. مرٱت المناجیح، حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی اشرفی بدایونی