میجر شبیر شریف

پاکستانی فوجی افسر جنہاں نوں نشان حيدر ملیا

فاتح سبونہ میجر شیبر شریف شہید 28 اپریل 1943ء کو پنجاب کے ضلع گجرات میں ایک قصبے کنجاہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے لاہور کے سینٹ انتھونی اسکول سے او لیول کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھ رہے تھے جب انھیں پاکستان فوجی درسگاہ کاکول ضلع ایبٹ آباد سے آرمی میں شمولیت کا اجازت نامہ ملا۔

میجر شبیر شریف
معلومات شخصیت
پیدائش 28 اپریل 1943ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنجاہ ،  ضلع گجرات   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 6 دسمبر 1971ء (28 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سلیمانکی ہیڈورکس ،  اوکاڑہ ،  پنجاب ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات لڑائی میں مارا گیا   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن میانی صاحب قبرستان ،  لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
مادر علمی سینٹ انتھونی ہائی اسکول
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور
پاکستان ملٹری اکیڈمی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فوجی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
شاخ پاک فوج   ویکی ڈیٹا پر (P241) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عہدہ میجر (1964–1971)  ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں پاک بھارت جنگ 1965ء ،  پاک بھارت جنگ 1971ء   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

خاندان

ترمیم

آپ کے چھوٹے بھائی جنرل راحیل شریف سربراہ پاک فوج کے عہدے پر فائز رہے۔ اس کے علاوہ وہ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کے بھانجے بھی ہیں۔

مرتبۂ شہادت

ترمیم

میجر شبیر شریف پاک بھارت 1965ء کی جنگ میں بحیثیت سیکنڈ لیفٹیننٹ شریک ہوئے اور جنگ میں بہادری سے دشمن کا مقابلہ کرنے پر انھیں ستارہ جرآت سے نوازا گیا۔

میجر شبیر شریف شہید 3 دسمبر 1971ء کو ہیڈ سلیمانکی سکیٹر میں فرنٹئیر رجمنٹ کی ایک کمپنی کی کمانڈ کر رہے تھے اور انھیں ایک اونچے بند پر قبضہ کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا تھا۔

شبیر شریف 1971 کی پاک بھارت جنگ میں حویلی لکھا کے سرحدی علاقہ سلیمانکی ہیڈ ورکس کے قریب 6 ایف ایف کی ایک کمپنی کی کمانڈ کر رہے تھے، انھیں 3 دسمبر 1971 کو انڈیا کے علاقے میں سبونہ بند پر قبضہ کرنے کی مہم سونپی گئی۔

دشمن نے دفاع کے لیے آسام رجمنٹ کی ایک کمپنی سے زیادہ نفری تعینات کر رکھی تھی جسے ٹینکوں کی ایک سکواڈرن کی امداد حاصل تھی، اس پوزیشن تک پہنچنے کے لیے دشمن کی بارودی سرنگیں اور پھر نہر سبونہ کے پل کو پار کرنا تھا جس پر دشمن کی مشین گنیں نصب تھیں۔

گھمسان اس معرکے میں میجر شبیر شریف نے مرادنہ وار مقابلہ کیا اور دشمن کے 43 سپاہی مار دیے اور 38 قیدی بنا لیے گئے۔ چار ٹینک بھی تباہ ہوئے۔

میجر شبیر شریف کو اس پوزیشن تک پہنچنے کے لیے پہلے دشمن کی بارودی سرنگوں کے علاقے سے گذرنا اور پھر 100 فٹ چوڑی اور 18 فٹ گہری ایک دفاعی نہر کو تیر کر عبور کرنا تھا، دشمن کے توپ خانے کی شدید گولہ باری کے باوجود میجر شبیر شریف نے یہ مشکل مرحلہ طے کیا اور دشمن پر سامنے سے ٹوٹ پڑے۔

3 دسمبر 1971ء کی شام تک دشمن کو اس کی قلعہ بندیوں سے باہر نکال دیا، 6 دسمبر کی دوپہر کو دشمن کے ایک اور حملے کا بہادری سے دفاع کرتے ہوئے میجر شبیر شریف اپنے توپچی کی اینٹی ائیر کرافٹ گن سے دشمن ٹینکوں پر گولہ باری کر رہے تھے ۔

اس جنگ میں وہ ہیڈ سلیمانکی (ضلع اوکاڑہ) کے محاذ پر تعینات تھے اس دوران انھوں نے دشمن فوجیوں اور ٹینکوں کو بھاری نقصان پہنچایا اور 6 دسمبر 1971ء کو ملک اور قوم کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔


3 دسمبر 1971 کو وہ سلیمانکی ہیڈ ورکس پر پاکستانی فوج کے لیے ان کی بے لوث خدمات کے اعتراف میں انھیں پاکستان کے اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔

اعزازات

ترمیم
 
شبیر شریف کو نشان حیدر سے نوازا گیا[1]
تاریخ1971
ملکپاکستان
میزبانذوالفقار علی بھٹو

دیگر قابل ذکر اعزازات:

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ

بیرونی روابط

ترمیم