میراثی ہندوستان کی ایک مشہور قوم ہے جو غیر منقسم ہندوستان اور بعد از تقسیم ہند و پاک میں جابجا آباد ہے۔ میراثی قوم پیشہ ورانہ طور پر انساب کی ماہر، ڈوم اور رقاص ہوتی ہے۔ اس قوم کے افراد اپنے اہل تعلق کے خاندانوں کے شجرہ ہائے نسب یاد کرنے اور یاد رکھنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں، چنانچہ برصغیر میں کسی خاندان کا نسب معلوم کرنا ہو تو ان کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں مگر اب یہ مختلف پیشے اختیار کر چکے ہیں اور ملازمت وغیرہ بھی کرتے ہیں اور کچھ گھرانے اک بھی ناچ گانا کر کے شادی بیاہ پر لوگوں لطف اندوز کرتے ہیں اس کے علاؤہ مجاور اور نوحہ خوانی اور مزارت ہر بھی خدمات سر انجام دیتے ہیں ڈسکہ میں ان کے محلے اک بھی ہیں اور آج بھی وہاں ، شادی بیاہ کی تقریبات اور ناچ رنگ کی محفلوں میں بھی انھیں بلایا جاتا ہے جہاں یہ اپنے فن نغمہ سرائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لفظ "میراثی" اردو لفظ میراث سے مشتق ہے جس کے معنی وراثت کے ہیں۔[1]

میراثی
گنجان آبادی والے علاقے
• بھارت • پاکستان
زبانیں
اردوپنجابی زبانراجستھانی زبان
مذہب
اسلامسکھ متہندو مت
متعلقہ نسلی گروہ
نقالشیخ

شمالی ہندوستان میں

ترمیم

میراثیوں کے کچھ خاندان ہندوؤں میں نچلی ذات سے تعلق رکھتے تھے، پھر وہ مسلمان ہو گئے۔ جبکہ کچھ خاندانوں کا دعویٰ ہے کہ اصلاً وہ ہندوؤں کی چارن برادری سے تھے۔ تیرہویں صدی عیسوی میں ان خاندانوں نے اس وقت کے مشہور صوفی شاعر امیر خسرو کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔ شمالی ہندوستان کے میراثی پانچ ذیلی گروپوں میں منقسم ہیں: ابل، پوسلا، بیت کٹو اور کالیٹ۔[2] ان کے رسم و رواج انساب کی ماہر ایک دوسری برادری مسلمان رائے بھٹ سے خاصے ملتے جلتے ہیں۔ میراثی قوم ہی کی ایک برادری پنواڑیا کہلاتی ہے جو اصلاً داستان گو تھی لیکن انھیں گویوں اور بھانڈ کی حیثیث سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔[3]

نغمہ سرائی کے دوران میں میراثی قوم پکھواج کا استعمال کرتی ہے، اس بنا پر ان کو پکھواجی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قوم اپنے متعلقین کے انساب کو حفظ کرنے اور انھیں سینہ بسینہ منتقل کرنے میں خاص امتیاز رکھتی ہے۔ اسی بنا پر شادی بیاہ کے معاملات میں ان سے خاص مدد لی جاتی ہے۔ ماہر انساب کی حیثیت سے میراثی قوم "نسب خواں" کے لقب سے بھی معروف ہے۔[1][4] اس قوم کے افراد شمالی ہندوستان میں ہر جگہ آباد ہیں۔ روایتی طور پر وہ شادی بیاہ کی تقریبات وغیرہ میں لوک گیت گاتے ہیں۔ اس قوم کی کچھ برادریاں کاغذی پھول کی صنعت سے بھی وابستہ ہیں۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں ان کی خوب پزیرائی ہوتی ہے اس لیے وہاں ان کی کثیر آبادی ہے۔ تاہم کچھ برسوں سے بہت سے میراثی پنجاب سے ہجرت کرکے راجستھان، بہار، گجرات، ہریانہ اور مغربی اترپردیش میں جا بسے ہیں۔[3]

پاکستان میں

ترمیم

پاکستانی پنجاب میں اب میراثی برادری زیادہ تر عاشورے کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہے، نوحے (مرثیے) پڑھنا وغیرہ اور وہ اچھے تفریح مہیا کرنے والے بھی ہیں، ان میں سے اکثر ملک کی موسیقار تھیٹر فن کار ہیں۔ زیادہ تر میراثی دو زبانی ہوتے ہیں، یہ اردو و پنجابی دونوں بولتے ہیں۔ یہ پنجاب بھر میں پائے جاتے ہیں اور بہت سے دیہاتوں میں یہ آباد ہیں۔[5] شمالی اور وسطی پنجاب کے کچھ میراثی خود کو اب خان کہتے ہیں، جس کو حقیقی خان بہت بُرا مانتے ہیں۔[6]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب Taralocana Siṅgha Randhāwā (جنوری 1996)۔ The Last Wanderers: Nomads and Gypsies of India۔ Mapin Pub.۔ ص 166۔ ISBN:978-0-944142-35-6۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-24
  2. A Hasan & J C Das page 973
  3. ^ ا ب People of India Uttar Pradesh Volume XLII Part Two edited by A Hasan & J C Das page 973
  4. Mirasi at page 142 in The last wanderers : nomads and gypsies of India آئی ایس بی این 0-944142-35-4
  5. Fouzia Saeed (2002)۔ Taboo!: The Hidden Culture of a Red Light Area۔ Oxford University Press۔ ISBN:978-0-19-579796-1۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-24
  6. Dr M Riyasat Husain 'Caste and clan in Northern and Central Punjab and some patterns of shift: An analysis' in Journal of South Asian Study Vol 2, No 8, 1992, Lahore, pp 21-46