میر وایس ہوتک
حاجی میر وایس خان ہوتک (پیدائش: 1673ء— وفات: نومبر 1715ء) جسے شاہ میرویس غلجی بھی کہا جاتا ہے، قندہار افغانستان میں غلجی پشتونوں کے ایک بااثر قبائلی سردار تھے۔[2][3] آپ نے ہوتکی سلطنت کی بنیاد رکھی جو افغانستان اور ایران کے علاقے میں 1709ء سے 1738ء تک قائم رہی۔[4] اپریل 1709 میں صفوی سلطنت کے گورنر گورگین خان کو قتل کرنے کے بعد اس نے لوئی قندھار ("گریٹر قندھار") کا اعلان کیا جو اب جنوبی افغانستان میں موجود ہے۔ افغانستان میں صوبہ قندھار کے لوگ اب حاجی میر وایس ہوتک کو “میر وایس نیکہ“ یا ”میر وایس بابا“ کے نام سے جانتے ہیں جس کا مطلب ”دادا میر وایس“ یا “بابا میر وایس“ کے ہیں۔[5]
| ||||
---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | سنہ 1673ء قندھار |
|||
وفات | 1 نومبر 1715ء (41–42 سال) قندھار [1] |
|||
مدفن | قندھار | |||
شہریت | ہوتکی سلطنت | |||
اولاد | محمود ہوتکی | |||
والدہ | نازو توخی | |||
بہن/بھائی | ||||
خاندان | ہوتکی سلطنت | |||
دیگر معلومات | ||||
پیشہ | سیاست دان | |||
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیممیر وایس ہوتک قندھار شہر میں ایک امیر اور سیاسی خاندان میں پیدا ہوئے۔ یہ خاندان عرصہ دراز سے سماجی اور سیاسی خدمات میں نامور تصور کیا جاتا تھا۔ میروایس ہوتک سلیم خان اور نازو توخی جنھیں نازو آنا بھی کہا جاتا ہے کے فرزند اور کرم خان کے پوتے تھے، جو اپنے قبیلے کے ملک منتخب ہوتے آئے تھے، جو ہوتکی قبیلے یا ہوتک خاندان کے سربراہ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ہوتک خاندان غلزئی قبیلے کی مشہور شاخ ہے اور علاقہ قندھار کے تمام پشتون قبیلوں میں یہ قبیلہ مضبوط اور سیاسی و سماجی طور پر مستحکم تصور کیا جاتا ہے۔ حاجی امان اللہ ہوتک نے اپنی کتاب میں یہ تحریر کیا ہے کہ غلزئی قبیلہ دراصل افغانستان کے علاقہ غور یا غرج کے باسی ہیں۔ یہ قبیلہ بعد میں جنوب مشرقی افغانستان میں علاقہ حکومت ملنے کی وجہ سے یہاں ہجرت کر گیا۔[5] میروایس ہوتک کی شادی خانوادے سدوزئی سے ہوئی جو درانی قبیلہ سے تعلق رکھتی تھیں۔
دور حکومت
ترمیم1707ء میں قندھار ایک میدان جنگ کی حیثیت اختیار کر گیا تھا جہاں فارس کے شیعہ سفوید حکمرانوں اور ہندوستان کے سنی مغل حکمرانوں کی فوجیں ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھیں۔ میر وایس جو سنی قبائلی سردار تھے، ان کا جنگ میں کردار مشکوک ہونے کی وجہ سے اپنے قبیلے کے افراد سمیت گورگین خان نے گرفتار کروا لیا۔ گورگین خان نے ان ا سیران کو اصفہان میں سفویدی عدالت میں پیش کرنے کے لیے بھیج دیا، اصفہان ہی اب ایران کہلاتا ہے۔ قبائلی سردار کو بعد ازاں رہا کر دیا گیا اور یہاں تک کہ اسے ایران کے اس وقت کے شاہ، شاہ سلطان حسینی سے ملاقات کی اجازت بھی دے دی گئی۔ چونکہ میروایس کو اپنے تئیں جنگ میں مشکوک کردار کی وجہ سے قلق تھا انھوں نے ایرانی حکام کی اجازت سے سلطنت عثمانیہ کے دور میں مکہ کی جانب حج کی خاطر سفر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ میر وایس ہوتک نے جتنا وقت ایرانی عدالت کے روبرو اور ایران میں گزارا، صفوی طرز حکومت اور فوجی و جنگی تکنیک کا انتہائی قریب اور باریک بینی سے مشاہدہ کیا۔[2][3]
مکہ میں قیام کے دوران میرا وایس ہوتک کو سوچنے کے نئے مواقع ملے اور انھوں نے اسلامی مفتیٰ سے ان شعیہ حکمرانوں کے خلاف فتویٰ اور علم حاصل کیا جو دراندازی کے مرتکب ہو کر مقامی لوگوں پر ظلم کریں۔ میر وایس کو اپنے علاقہ قندھار کے حوالے سے سفویدیوں کے خلاف فتویٰ عطا کر دیا گیا۔ میروایس نے یہ فتویٰ اپنے ساتھ پہلے ایران لایا اور پھر گورگین خان کی ہی مدد سے اس فتویٰ کے بل بوتے پر اپنی قبائلی فوج کے ہمراہ قندھار کی جانب سفر شروع کیا۔ 1709ء میں ہی میروایس نے اپنے قبیلے کے جنگجوؤں کو ایک بڑی مہم کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا اور شہر کے باہر ایرانی چھاؤنی پر حملہ کر دیا۔ یہاں میروایس ہوتک کے قبیلہ کے اکثریت مرد ہلاک ہو گئے، جن میں گورگین خان بھی شامل تھے۔[2][3]
باقی کے پشتون قبائل ہوتکوں کی اس مہم کے بعد سفویدیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، اس ضمن میں فارسی صفویوں کی جانب سے اپنے دور میں پشتون سنی قبائل کو شیعہ بننے پر مجبور کرنے کی بنیاد پر پشتون قبائل کو صفویوں کے خلاف یکجا کرنا کچھ مشکل ثابت نہ ہوا اور گورگین خان کی اپنی فوج کے ہمراہ ہلاکت نے اس مہم میں اتنی شدت پیدا کر دی کہ ہوتکی قبائل کی سربراہی میں پشتونوں نے قندھار شہر اور پھر صوبے پر قبضہ کر لیا۔ پشتون قبائل جوق در جوق ہوتکی قبیلہ کی فوج میں شامل ہوتے چلے گئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ میروایس ہوتک نے عظیم فارسی صفویوں فوج کو شکست سے دوچار کر دیا اور سفویدیوں کے زیر حکومت علاقہ پر قبضہ کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر مہمات کا اجرا کیا۔ فارسی سلطنت کو پے درپے شکست نے بوکھلائے جانے پر مجبور کر دیا اور ریاستی سازشیں بھی اس ضمن میں ناکام ہونا شروع ہو گئیں۔ گورگین خان کے بھتیجے کو 30000 فوج کے ہمراہ ہوتکی قبائل پر حملے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی مگر ابتدائی کامیابیوں کے وقت، جب پشتون مشروط ہتھیار ڈالنے پر تقریباً راضی تھے، تب میروایس ہوتک نے تازہ دم افواج کے ساتھ ایک آخری حملہ کیا۔ میروایس کی جنگی حکمت عملی اور پشتون قبائل کی اس ضمن میں جوانمردی کے نتیجہ میں فارسی افواج کو شکست ہوئی اور اکثریت فوجی قتل کر دیے گئے۔ فارسی فوج کے جرنیل کو قتل کر دیا گیا اور صرف سات سو لوگ ہی اپنی جان بچا کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ اس کامیابی کے صرف دو سال بعد ہی 1713ء میں فارسی افواج نے رستم خان کی کمان میں تازہ حملہ کیا لیکن ہوتکی افواج انھیں بھی شکست دینے میں کامیاب رہی۔ اس طرح قندھار صوبہ مکمل طور پر ہوتکی قبائل کے قبضے میں چلا گیا اور مضبوط ریاست کی بنیاد بنا۔[6]
وفات
ترمیممیروایس ہوتک 1715ء میں اپنی وفات تک سلطنت کے حکمران رہے۔ آپ کا فرزند میر محمد ہوتکی یا میر محمد ریاست کے حکمران بنا اور اس نے فارسی شاہوں کی سیاسی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا، یہاں تک کہ کئی سال بعد سارے فارس پر ہوتکیوں کی حکومت قائم ہو گئی۔ میر وایس کو قندھار شہر میں کوکران کے مقام پر دفن کیا گیا جہاں اب بھی ان کا مزار موجود ہے۔[7]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ مدیر: الیکزینڈر پروکورو — عنوان : Большая советская энциклопедия — اشاعت سوم — باب: Мир Вайс
- ^ ا ب پ میلسن جارج بروس (1879ء)۔ "تاریخ افغانستان، قدیم دور سے جنگ 1878ء کے شروع تک"۔ دور غلزئی۔ ڈبلیو، ایچ ایلن اینڈ کو
- ^ ا ب پ ایون مارٹن (2002ء)۔ افغانستان: تاریخ اور سیاست بارے۔ ہارپر کولنز۔ صفحہ: 30
- ↑ آکسوردی مائیکل (2006ء)۔ "نادر شاہ، جنگی سردار سے حکومت پر قبضے تک"۔ فارس کی تلوار۔ آئی بی ٹارس۔ صفحہ: 186
- ^ ا ب "بارے ہوتک کے" (بزبان انگریزی)
- ↑ "فارس کی 1722ء سے 1922ء تک کی تاریخ"۔ فارسی تاریخ کی بازگشت۔ پیک ورڈ انسٹیوٹ۔ صفحہ: 29
- ↑ ڈیوپری۔ "Mir Wais Hotak (1709–1715)" (بزبان انگریزی)۔ افغانان
بیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر میر وایس ہوتک سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- افغانستان کی تاریخ بارے - میر وایس ہوتک (1709ء–1715ء)آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ afghanan.net (Error: unknown archive URL)
- بریٹانیکا دائرۃ المعارف - ہوتکی قبائل (افغانستان میں)