تعارف ترمیم

علامہ ناصر مہدی جاڑا اعلیٰ اللہ مقامہ کا شمار پاکستان کے ان جید علمائے اعلام میں ہوتا ہے جنھوں نے علوم آل محمدؑ کی تحصیل و ترویج اور تبلیغ کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ذاتی طور پر تدریس و تصنیف آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا اور آپ نے اپنی زندگی کا کافی حصہ اس کام میں صرف کیا۔


ولادت ترمیم

آپ دسمبر 1959 کو خیبرپختونخواہ (پرانا صوبہ سرحد)کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک چھوٹے سے گاؤں جاڑا میں پیدا ہوئے، آپ کے والد بزرگوار ملک فدا حسین جاڑا مرحوم (رشتہ میں قبلہ علامہ حسین بخش جاڑا اعلیٰ اللہ مقامہ کے سگے چچازاد) علاقہ کے بڑے زمیندار اور جامعہ علمیہ باب النجف جاڑا کے جنرل سیکرٹری اور معاونین میں سے تھے۔[1]


ابتدائی تعلیم ترمیم

آپ نے دنیاوی تعلیم اپنے علاقہ کے پرائمری اسکول میں استاد یار محمد سے حاصل کی، مارچ 1973 میں کوٹ جائی کے ہائی اسکول سے آپ نے کلاس دہم کا امتحان پاس کیا، قرآن و دینیات کا درس شہر کی جامع مسجد کے خطیب جناب ریاض حسین جھمکانہ سے حاصل کیا جو مولانا محمد بخش جھمکانہ آف حاجی مورا کے فرزند تھے۔

دینی تعلیم ترمیم

دینی تعلیم کے حصول کے لیے 26 اگست 1973 میں دار العلوم محمدیہ سرگودھا میں داخلہ لیا اور علامہ حسین بخش جاڑا مرحوم سے مقدمات کی تعلیم حاصل کی، جنوری 1974 میں آپ دار العلوم جعفریہ خوشاب گئے جہاں علامہ ملک اعجاز حسین صاحب اور علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی شہید سے 22 نومبر 1975 تک آپ نے صرف و نحو اور فقہ و منطق جیسے علوم کی تحصیل کی، اس کے بعد دسمبر 1975 میں آپ علامہ اثیر جاڑوی شہید کے ہمراہ جامعہ حسینیہ جھنگ صدر تشریف لے گئے اور وہاں مرحلہ سطوح مکمل کرنے کے بعد 1979 تک بطور مدرس اپنی خدمات پیش کیں۔

حوزہ علمیہ قم المقدسہ (ایران) ترمیم

پاکستان میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد مزید اعلیٰ تعلیم کی خاطر 1980 میں آپ حوزہ علمیہ قم المقدسہ تشریف لے گئے ، جہاں 1986 تک مرحلہ سطوح علیا (کفایہ ،مکاسب) مکمل کر لیا۔اور ایک سال کے لیے تبلیغی خدمات(اعزام)کی خاطر پاکستان کے شہر نارووال اور فیصل آباد تشریف لائے اور جہاں علوم اھل بیت کی ترویج و تبلیغ کی ۔ پھر 1987 میں دوبارہ اپنی تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کے لیے حوزہ علمیہ قم (ایران) آئے اور 1996 تک تقریباً نو سال مختلف مراجع کے درس خارج میں شرکت کی اور ساتھ ساتھ کفایہ مکاسب تک کی کتب کی تدریس بھی کی۔ تقریباً 16 سال کہ اس عرصہ میں قم المقدسہ میں جن علما سے آپ نے کسب فیض کیا ان میں سے مشاہیر استاتذہ کے نام درج ذیل ہیں:

  1. حجۃ الاسلام آغا وجدانی فخر اعلیٰ اللہ مقامہ
  2. حجۃ الاسلام آغا مصطفی نورانی اعلیٰ اللہ مقامہ
  3. حجۃ الاسلام آغا مصطفی اعتمادی اعلیٰ اللہ مقامہ
  4. حجۃ الاسلام آغا محسن قرائتی اعلیٰ اللہ مقامہ
  5. حجۃ الاسلام آیۃ اللہ منتظری اعلیٰ اللہ مقامہ
  6. حجۃ الاسلام آغا وحیدی اعلیٰ اللہ مقامہ

وہاں آپ نے جن مجتہدین کرام کے درس خارج میں شرکت کی ان کے اسماء درض ذیل ہیں:

  1. آیت اللہ العظمی شیخ محمد فاضل لنکرانی اعلیٰ اللہ مقامہ
  2. آیت اللہ العظمی سید محمد علی علوی گرگانی اعلیٰ اللہ مقامہ
  3. آیت اللہ العظمی شیخ وحید خراسانی اعلیٰ اللہ مقامہ
  4. آیت اللہ العظمی شیخ جواد تبریزی اعلیٰ اللہ مقامہ

ان کے علاوہ آپ کے پاس متعدد مراجع عظام کے اجازات عالیہ بھی موجود تھے۔

1996 میں حوزہ علمیہ خیر باد کہہ کر پاکستان میں تشریف لائے۔

تدریس و تبلیغ ترمیم

1996 میں قم المقدسہ سے واپس آ کر آپ نے جذبہ خدمت دینی کے تحت، ضلع خوشاب کے دور افتادہ علاقہ موضع چن کاانتخاب کیا اور ایک مدرسہ دینیہ کی تعمیر سے تلبیغ دین کی ابتدا کی ،جہاں جلد ہی درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہو گیا لیکن علاقہ میں متعصب و تکفیری طبقہ کی اکثریت کی وجہ سے علامہ موصوف پر کئی بار حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ ان مذہبی و تعلیمی سر گرمیوں میں آڑے آ کر علاقہ میں تعلیمات اھل محمد کے نفوذ کو روکا جاسکے۔موضع چن کے اکابرین کی جانب سے علامہ موصوف کو مجبور کیا گیا کہ وہ اس علاقہ کو چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر اپنی دینی خدمات جاری رکھیں۔ جس کی وجہ سے 2002 میں موضع چن چھوڑ کر علامہ محمد حسین اکبر کی پیش کش پر جامعہ الحسین (ادارہ منھاج الحسین) لاہور تشریف لائے ، جہاں دو سال سینئر کلاسز کو تدریس کرانے میں مصروف رہے۔جس کے نتیجہ میں 2004 میں علامہ مرحوم کے شاگردان پہلی مرتبہ جامعہ ہذا کی سینئر کلاس کے طور پر حوزہ علمیہ قم تشریف لائے اور کسب فیض شروع کیا۔

خطیب مسجد ترمیم

2004 میں آپ نے باقاعدہ طور پر مجالس پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا جس کی وجہ سے علاقہ نواب صاحب علی رضا آباد کی جامع مسجد میں بطور خطیب تشریف لائے۔جہاں تقریباً 3 سال تک مومنینِ علاقہ کو تعلیمات آل محمد سے مستفید فرمایا۔جس میں بعد از نماز صبح روزانہ درس تفسیر قرآن نمایاں ہے۔آپ ایسی جاذب و ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے کہ جو شخص بھی ایک بار آپ کی علمی و روحانی محفل میں شریک ہوتا آپ کا گرویدہ ہو جاتا تھا،آپ کے مزاج میں انتھائی سادگی ،متانت ،اور برجستگی تھی۔ علاقہ نواب صاحب میں آپ کے گذرے ہوئے ان 3 سالوں کی روح افزا یادیں آج بھی مومنین کے دل و دماغ میں محفوظ ہیں۔

تصانیف و تراجم کا شغف ترمیم

آپ کو تصنیف و تالیف کا ابتدا ہی سے شغف تھا اور زمانہ طلبگی سے ہی میسر اوقات میں تحقیق و تالیف میں مصروف رہتے پاکستان میں آنے کے بعد تبلیغی سر گرمیوں میں ایسے مصروف رہے کہ تالیف و تصنیف کو خاص وقت نہ دے سکے ۔ لیکن شاید انھیں اپنے دامنِ حیات کے تنگی کا احساس تھا جس کی وجہ سے وہ 2007 میں اپنے دوست مولانا ریاض حسین جعفری کے اصرار پر ادارہ منھاج الصالحین کیساتھ منسلک ہوئے اور تالیف و تصنیف اور تراجم کا انتھائی قلیل المدت مگر نیا دور شروع کیا۔

وہ کتب جو آپ نے تالیف و تصنیف کیں

  1. ہدایۃ الزائرین (برائے زائرین ایران و عراق و شام)
  2. عنایات حسین
  3. انتصار المظلوم
  4. ہدایۃ الزائرین (برائے حجاج کرام) (غیر مطبوعہ)
  5. اھل سنت کی کتب میں امام حسینؑ (غیر مطبوعہ)
  6. سیرت حٖضرت نرجس خاتون (غیر مطبوعہ)
  7. فضائل نامہ

وہ کتب جو آپ نے ترجمہ کیں۔

  1. مدینہ سے مدینہ تک
  2. رازِ بندگی
  3. سلونی سلونی قبل ان تفقدونی
  4. تاریخ اسلام میں السیدہ زینب و عقیلۃ الوحی بنت علیؑ کا مقام (مولف آیۃ اللہ سید عبد الحسین شرف الدین العاملی)
  5. غرر الحکم (غیر مطبوعہ)

اور مزید کچھ کتابیں ہیں جن کی معلومات فی الوقت میسر نہیں۔۔

وفات ترمیم

آپ نے 9 دسمبر 2009 صبح 7 بجے ڈیرہ اسماعیل خان کے مرکزی ہسپتال میں اس جہان فانی سے دار بقاء کی طرف انتقال کیا، آپ کی عمر تقریباً 51 برس تھی، آپ کے جنازہ میں علاقہ بھر کی مذہبی، سیاسی و سماجی شخصیات اور شیعیان آل محمدؑ نے شرکت کی، آپ کو بستی جاڑا کے قبرستان میں اپنے والد بزرگوار کے جوار میں ہی دفن کیا گیا۔ التماس فاتحہ

اولاد ترمیم

آپ کی اولاد میں تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے اور آپ کی دستار علمی کے وارث آپ کے سب سے چھوٹے بیٹے حسن عمران جاڑا ہیں جو اپنے والد کے نقش پاء کی اتباع کرتے ہوئے 2011 سے حوزہ علمیہ نجف اشرف (عراق) میں تحصیل علوم آل محمدؑ میں مشغول ہیں۔

حوالہ جات ترمیم

  1. تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف ج1 ص3 اشاعت 2004