حسین بخش جاڑا
تعارف
ترمیمحضرت علامہ حسین بخش جاڑا نور اللہ مرقدہ جیسی بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیت سے واقفیت ہر خاص و عام کو ہے اس لیے کہ وہ میدان علم و عمل کے ایسے نور افگن ستارے تھے جن کے فکر و دانش نے دنیا میں جگہ جگہ علم کو رائج کیا اور ایسی ہستیوں سے وابستگی اہل علم کا شیوہ ہے، آپ مہارت علمی میں یکتائے روزگار تھے جب تصانیف لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو قرآن کریم کی ایسی نایاب تفسیر کو تحریر کیا جو حکمت و دانش اور علم و آگہی میں اپنی مثال آپ ہے، جب آپ نے زیب منبر ہو کر تمام تشنگان علم کو اپنے مواعظ حسنہ سے نوازا تو ہر سامع پر روحانی اثرات مرتب ہوئے اور جب درس و تدریس کے سلسلہ کو شروع کیا تو طلبہ کو علم و عمل کا بے مثال درس دیا، آپ ان تمام کمالات کے ساتھ ساتھ روحانی علوم میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے اور ایسے عملیات کے عامل تھے جن کے کسب و ارتقا میں اپنی زندگی صرف کر دی۔
ولادت
ترمیمبرصغیر پاک و ہند کے ممتاز شعیہ عالم دین و مفسر قرآن علامہ حسین بخش جاڑا طاب ثراہ /1918 کو پاکستان کے صوبہ سرحد "خیبر پختونخوا" کے قصبہ جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے، قصبہ جاڑا چشمہ روڈ پر اُچ بلوٹ شریف سے ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف جاتے ہوئے راستہ میں واقع ہے۔
خاندان
ترمیمآپ "جاڑا" خاندان کے وہ بدر منیر تھے جن کی علمی و عملی سربلندی کی بدولت یہ خاندان شہرت کے اعلیٰ زینے تک پہنچا۔ آپ کے والد کا نام ملک اللہ بخش جاڑا تھا جو علاقہ کے معروف زمیندار تھے[1] اور ذاکر آل محمد تھے[2]
دنیاوی تعلیم
ترمیمبستی جاڑا سے ایک کلومیٹر پر کوٹ جائی کے مقام پر لوئر مڈل اسکول جس میں کلاس ششم تک تعلیم دی جاتی تھی وہاں آپ 6 سال کی عمر میں داخل ہوئے اور آپ کے پہلے استاد جن سے دنیاوی تعلیم حاصل کی سید غلام جعفر شاہ صاحب تھے جو کاٹھگڑھ کے رہنے والے تھے،[3] 1935 میں آپ نے مڈل کا امتحان فسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔[4] آپ نے ناظرہ قرآن سیدعلیاں میں مولانا سید محمد شاہ مرحوم سے پڑھا۔[3] پس آپ اپنے والد بزرگوار کے مذہبی رجحان اور اپنے دینی میلان کی وجہ سے 1935 میں دینی تعلیم کا آغاز کیا اور چک 38 میں سید محمد باقر شاہ چکڑالوی اعلیٰ اللہ مقامہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔[3]
دینی سطحیات کی تعلیم
ترمیم1938ء میں آپ موضع عونث پور تھہیم تحصیل کبیر والا میں اہلسنت کے مدرسہ میں داخل ہوئے جہاں آپ نے مولانا غلام رسول سے نحو، شرح جامی، منطق، قطبی، مختصر المعانی کی تعلیم حاصل کی۔[3]
علوم آل محمد ع کا حصول
ترمیمسرزمین پاکستان میں دینی تعلیم کے حصول میں جن جن اساتذہ کرام کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ تہ کیا ان کے نام یہ ہیں:
- حضرت مولانا سید محمد باقر نقوی چکڑالوی اعلیٰ اللہ مقامہ
- حضرت مولانا سید محمد یار شاہ نجفی اعلیٰ اللہ مقامہ
- حضرت مولانا مفتی جعفر حسین صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ
دینی علوم کے حصول کے لیے چک نمبر 38 تحصیل خانیوال ضلع ملتان میں حضرت مولانا سید محمد باقر نقوی رح کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، وہاں آپ نے صرف و نحو اور ادب و فقہ جیسے علوم کی تحصیل کی، بعد ازاں آپ نے حضرت مولانا سید محمد یار شاہ نجفی اور حضرت مولانا مفتی جعفر حسین کی خدمت میں کئی سال گزارے اور اخذ فیض کرتے رہے۔[4] [1] جب 1941 میں دوبارہ قبلہ سید محمد باقر شاہ چکڑالوی اعلی اللہ مقامہ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے وہاں قبلہ سید محمد یار شاہ صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ کے ہمراہ درس و تدریس کا کام شروع کیا، وہاں اس وقت مولانا اختر عباس قبلہ اور مولانا نصیر حسین قبلہ بطور طالب علم داخل تھے۔[3] 1943 میں علامہ مفتی جعفر حسین صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ کی خدمت میں حاضر ہو کر دو سال تک علم حاصل کرتے رہے۔[3]
معقولات کی تعلیم
ترمیم1946 میں موضع انہی ضلع گجرات ایک اہل سنت کے مدرسہ میں داخلہ لیا اور وہاں معقولات کی تعلیم حاصل کی۔[4][1][3]
فاضل عربی
ترمیم1945 میں پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان فسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔[5][3]
سلسلہ تدریس
ترمیممدرسہ محمدیہ جلال پور ننگیانہ
ترمیم1946 میں مدرسہ محمدیہ جلال پور ننگیانہ میں بطور مدرس تعیین ہوئے۔،[4] [1] یہاں پر آپ سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ یہ ہیں: ٭ مولانا حسن علی جانے یاعلی ٭ مولانا وزیر حیدر صاحب ٭ مولانا محمد بخش دین پوری ٭ مولانا محمد سعید صاحب ٭ مولانا مرید کاظم صاحب ٭ مولانا محمد حسین شاہ صاحب ٭ مولانا محمد حسین ڈھکو صاحب ٭ مولانا فرزند علی صاحب ٭ مولانا نور محمد صاحب ٭ مولانا محمد حسین سدھو پورہ ٭ مولانا نذر حسین سرگودھا ٭ مولانا غلام حیدر صاحب [3]
مدرسہ صادقیہ خانپور
ترمیم1949 میں تقسیم ہند کے کچھ عرصہ بعد تک مدرسہ صادقیہ خان پور ضلع رحیم یار خان میں تدریسی فرائض انجام دیے،[4][1] یہاں پر آپ سے کسب فیض پانے والے طلبہ یہ ہیں: ٭ مولانا سید صفدر حسین نجفی صاحب ٭ مولانا سید مبارک علی شاہ صاحب ٭ مولانا مرید حسین صاحب [3]
مدرسہ محمدیہ سرگودھا
ترمیم1951 میں دار العلوم محمدیہ سرگودھا میں بحیثیت صدر مدرس چلے گئے۔۔[4] [1] دو سال تک یہاں تعلیم دیتے رہے [3]
حصول تعلیم کے لیے نجف اشرف کا سفر
ترمیموطن عزیز میں کچھ عرصہ درس و تدریس کے بعد آپ اپنی تعلیمی تشنگی کو بجھانے کے لیے 1951 کو بابِ مدینۃ العلم کے شہر نجف اشرف "عراق" چلے گئے، وہاں آپ نے چار سال قیام کیا اور وہاں کے مشاہیر اساتذہ سے کسب فیض کیا۔[6]
نجف اشرف میں آپ کے اساتذہ کرام
ترمیمسطحیات کی تعلیم حسب ذیل اساتذہ سے حاصل کی:
- آیت اللہ العظمی سید محمود مرعشی رح
- آیت اللہ العظمی سید محمد تقی عرب رح
اور درس خارج میں آپ نے جن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا وہ یہ ہیں:
- آیت اللہ العظمی سید ابو القاسم خوئی قدس سرہ
- آیت اللہ العظمی سید عبد اللہ شیرازی مدظہ العالی
- آیت اللہ العظمی مرزا حسن یزدی رضوان اللہ علیہ
- آیت اللہ العظمی مرزا حسن بجنوردی اعلیٰ اللہ مقامہ
- آیت اللہ العظمی مرزا محمد باقر زنجانی طاب ثراہ[7] [6] [3]
اجتہاد
ترمیمنجف اشرف جا کر آپ نے دینی تعلیم میں بلند مراتب حاصل کرتے ہوئے فقہ و اصول میں مدارج علمی طے کیے اور منزل اجتہاد پر فائز ہوئے، پس جن جن آیات عظام و مجتہدین کرام سے آپ نے اجازہ اجتہاد "جو آپ کے مجتہد ہونے کی سند ہے" و اجازہ روایت حاصل کیا ان کے اسماء یہ ہیں:
- آیت اللہ العظمی آقا المرزا محمد حسن البزوی رضوان اللہ علیہ
- آیت اللہ العظمی آقا سید محسن الحکیم الطباطبائی قدس سرہ
- آیت اللہ العظمی آقا محمد باقر الزنجانی طاب ثراہ
- آیت اللہ العظمی محمد محسن طہرانی قدس سرہ
- آیت اللہ العظمی آقا سید حسین الموسوی الحمامی قدس سرہ
- آیت اللہ العظمی آقا سید حسن الموسوی البجنوردی اعلیٰ اللہ مقامہ
- آیت اللہ العظمی سید محمد جواد الطباطبائی اعلیٰ اللہ مقامہ
- آیت اللہ العظمی آقا سید محمود الحسینی شاھرودی قدس سرہ
- آیت اللہ العظمی سید عبد اللہ موسوی الشیرازی مدظلہ العالی
- آیت اللہ العظمی آقا سید احمد الموسوی المستنبط قدس سرہ
- آیت اللہ العظمی محمد رضا الطیسی النجفی قدس سرہ
- آیت اللہ العظمی شیخ محمد تقی الراضی طاب ثراہ[8]
خطابت
ترمیمشیخ جعفر شوشتری رح جو تاریخ کربلا کے خطیب، قابل اعتماد عالم اور ذاکر آل محمد ہیں آپ کے استاذ الاستاذ ہیں اس وجہ سے آپ نے زیب منبر ہو کر اپنے سخن دلنواز اور خطابت کے تاریخی و مذہبی جواہر سے تشنگان علوم آل محمد کو سیراب کیا۔"قبلہ صاحب کا مجلس عزاء میں اظہار"
نجف اشرف میں رفاقت علمی
ترمیمقبلہ بزرگوار کبھی کبھی فرماتے تھے کہ اس وقت اگر سرزمین پاکستان میں میرے کوئی علمی دوست اور کلاس فیلو ہیں تو فقط شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی اعلیٰ اللہ مقامہ ہیں جن کے ساتھ نجف اشرف میں میرا علمی بحث و مباحثہ ہوتا اور ہمارا رہن سہن بھی مشترکہ تھا۔"علی ما حکی"
وطن واپسی اور مدرسہ کا قیام
ترمیم1956 میں آپ نجف اشرف سے واپس پاکستان آئے اور اپنے آبائی گاؤں جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک مدرسہ بنام جامعہ علمیہ باب النجف قائم کیا،[9] جس کی پہلی تحریک 4 شوال المکرم 1374 ہجری بروز جمعہ کو ہوئی اور اس ماہ کے آخر میں اس مدرسہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا[10] جہاں آج کل مولانا غلام حسن نجفی صاحب طلبہ کو درس دے رہے ہیں[9] ٭مدرسہ باب النجف کی تعمیر میں حصہ لینے والے طلاب کرام یہ ہیں:
- شہید ملت جعفریہ علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی دریاخان
- حجۃ الاسلام علامہ محمد ہاشم صاحب پرنسپل مدرسہ خاتم الانبیاء چکوال
- حجۃ الاسلام علامہ سید کرامت علی شاہ صاحب پرنسپل جامعہ المصطفی لاہور
- حجۃ الاسلام علامہ سید امداد حسین شاہ آف کارلووالہ تھل ضلع بھکر
- حجۃ الاسلام مولانا سید ضمیر باقر شاہ نجفی آف کلورکوٹ ضلع بھکر
- حجۃ الاسلام مولانا محمد اعجاز ٹاٹے پوری آف ڈیرہ اسماعیل خان
- خطیب ِ اہلبیت مولانا ملک محسن علی عمرانی آف ڈیرہ اسماعیل خان
- حجۃ الاسلام مولانا سید نیاز حسین شاہ آف کاٹھگڑھ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
- شہید ملت جعفریہ مولانا سید فیروز حسین شاہ آف گرہ بلوچ ضلع ٹانک
- حجۃ الاسلام مولانا مشتاق حسین جاڑا "برادر علامہ حسین بخش جاڑا" آف جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
- حجۃ الاسلام مولانا سید ضیا حسین شاہ آف گرہ بلوچ ضلع ٹانک
- حجۃ الاسلام مولانا غلام باقر صاحب آف نورنگ ضلع ٹانک
- مولانا رب نواز آف جھوک قریشی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان[10]
باب النجف کے علاوہ تدریس
ترمیمجامعہ المنتظر لاہور
ترمیم1963 میں اہل لاہور کے اصرار پر آپ جامعہ المنتظر لاہور آئے [6] [9] اور باب النجف جاڑا میں مولانا غلام حسن نجفی صاحب کو تعیینات کیا۔[3]
دار العلوم جعفریہ خوشاب
ترمیم1966 میں دار العلوم جعفریہ خوشاب آئے اور چار سال تک تعلیم دیتے رہے۔[3]
دار العلوم محمدیہ سرگودھا
ترمیم1970 میں سرگودھا کے معززین کی فرمائش پر دوبارہ دار العلوم محمدیہ میں تشنگان علم کو علوم آل محمد ع سے سیراب کرتے رہے۔[6] [9] [3]
جامعہ حسینیہ جھنگ صدر
ترمیمآپ 1974 میں جھنگ چلے گئے اور دو سال تک تدریس کرتے رہے۔[3]
جامعہ جعفریہ گوجرانوالہ
ترمیمقائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر صاحب کے حکم پر جامعہ جعفریہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ میں بھی کچھ عرصہ تک مدرس رہے۔[6] [9] [3]
جامعہ امامیہ لاہور
ترمیمآخری مدرسہ جس میں طلبہ کو علوم آل محمد ع سے سیراب کرتے رہے وہ جامعہ امامیہ کربلا گامے شاہ لاہور ہے، اسی مدرسہ میں آپ نے وفات پائی۔[6] [9] [3]
تصانیف
ترمیمجس طرح آپ فن تدریس کے ماہر تھے اسی طرح اللہ پاک نے آپ کو فن تصنیف سے بھی نوازا تھا، آپ کی تصانیف انتہائی سادہ، عام فہم اور پر اثر ہیں، آپ نے مولا علیؑ کے مزار اقدس پر دعا مانگی کہ میرے اللہ مجھے قرآن کی تفسیر لکھنے کی ہمت عطا فرما، قبولیت کے لمحات میں مانگی جانے والی دعا قبول ہوئی اور پاکستان آتے ہی آپ نے تصنیف کا کام شروع کیا اور نجف اشرف کی مناسبت سے تفسیر کا نام تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف رکھا، آپ 1958 سے 1976 تک تفسیر لکھتے رہے اور بالآخر 15 جلدوں میں فقہ جعفریہ مسلک کی لکھی جانے والی پاکستان میں اردو کی پہلی تفسیر لکھنے کا اعزاز حاصل کیا[11] یہ تفسیر بلند پایہ تفاسیر میں ایک منفرد مقام کی حیثیت رکھتی ہے اور بہت اہمیت کی حامل ہے، یہ تفسیرِ ہمیشہ علامہ کے افکار اور ان کے عقاید کو زندہ رکھے گی۔ جو پندرہ جلدوں پر مشتمل ہے پہلی جلد مقدمہ اور پندرھویں جلد خاتمہ ہے، قرآن کی تفسیر دوسری جلد سے شروع ہو کر چودھویں جلد تک تکمیل کو پہنچتی ہے۔
- تفسیر کے علاوہ مجالس پر مشتمل ایک کتاب "مجالس الفاخرۃ فی اذکار العترۃ الطاھرۃ" کے نام سے صاحبان ذکر و فکر کے لیے مصائب و ذکر آل محمد سے سیرابی کا سامان مہیا کرتی ہے۔
- ایک اور کتاب جو شہدائے کربلا کی زندگی کے بارے میں تحریر ہوئی اور معروف و زیادہ اہمیت کی حامل ہے، "اصحاب الیمین" کے نام سے شہرت رکھتی ہے۔
- ان کے علاوہ اہم تصنیف "امامت و ملوکیت" کے نام سے صاحبان شعور کے لیے سرچشمہ بصیرت اور اسلام میں شخصی مطلق العنانیت کے خلاف جہاد کی حیثیت رکھتی ہے۔
٭ دیگر تصانیف میں "لمعۃ الانوار فی عقائد الابرار" ہے جو مذہب شیعہ کے عقائد پر لکھی گئی ہے۔ ٭ "انوار شرعیہ در فقہ جعفریہ" یہ کتاب شرعی مسائل پر مبنی ہے۔ ٭ علامہ مرحوم نے اپنے استاد بزرگوار علامہ سید محمد باقر نقوی مرحوم کی مجالس کی کتاب بھی شایع کرائی جو "مجالس المرضیہ فی اذکار العترۃ النبویہ" کے نام سے مشہور ہے۔ ٭ ایک کتاب "معیار شرافت" ہے جو اخلاقیات پر لکھی گئی ہے۔ ٭ علامہ مرحوم نے آیت اللہ کاشف الغطاء کی کتاب "دین و اسلام" کا ترجمہ بھی کیا۔ ٭ علامہ کی تصانیف میں "نماز امامیہ"، "اسلامی فکر"، "چور کی سزا"، "مناظرہ مصر"، "شیعہ مذہب حق ہے"، "احباب رسول" وغیرہ بھی شامل ہیں۔[3]
آپ کے مشاہیر تلامذہ
ترمیمعلامہ مرحوم کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے والے علمائے اعلام کا ایک مجموعہ ہے جن میں سے چند ایک کے نام مذکور ہیں:
- علامہ صفدر حسین نجفی لاہور
- علامہ محمد حسین نجفی سرگودھا
- علامہ غلام حسین نجفی لاہور
- علامہ ملک محمد اعجاز حسین خوشاب
- علامہ غلام حسن نجفی جاڑا
- علامہ سید کرامت حسین نجفی لاہور
- خطیب علامہ سید نسیم عباس رضوی لاہور (علم ہیئت میں شاگرد)
- علامہ محمد ہاشم صاحب چکوال
- علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی دریاخان
- علامہ سید اقرار حسین شاہ خطیب مچھر کھادی ضلع سرگودھا
- علامہ وزیر حیدر آف کوٹ سمابہ ضلع رحیم یار خان
- علامہ حافظ سید کاظم رضا نقوی آف ملہووالی ضلع اٹک
- علامہ عطا محمد خان جتوئی آف ڈیرہ غازی خان
- خطیب آل محمد علامہ غلام جعفر جتوئی مظفر گڑھ
ذاکرین عظام جنھوں نے آپ سے علوم آل محمدؑ حاصل کیے ان میں سے مشاہیر کے نام یہ ہیں:
- ذاکر اہل بیتؑ حافظ محمد علی بلوچ آف سامٹیہ ضلع لیہ
- ذاکر اہل بیتؑ سید صابر حسین شاہ آف بہل ضلع بھکر
- ذاکر اہل بیتؑ حاجی مداح حسین آف بونگہ بلوچاں ضلع سرگودھا
- ذاکر اہل بیتؑ سید امتیاز حسین شاہ کاظمی آف پہاڑپور ضلع لیہ
- ذاکر اہل بیتؑ مولانا مقبول حسین ڈھکو آف شاہ جیونہ ضلع جھنگ
- ذاکر اہل بیتؑ سید اعجاز حسین شاہ آف سیدعلیاں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان[10]
وفات حسرت آیات
ترمیمآپ جامعہ امامیہ کربلا گامے شاہ لاہور میں 4 دسمبر 1990 کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے، آپ کی تجہیز و تکفین جامعہ امامیہ کے سٹاف اور طلبۂ کرام نے کی اور رات دس بجے کربلا گامے شاہ کے گراونڈ میں علامہ حافظ ریاض حسین نجفی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی، مولانا سید بشیر عباس نقوی، مولانا سید کرامت علی نجفی، مولانا آغا سید محمد عباس نقوی، مولانا سید ابو الحسن نقوی، مولانا سید امیر حسین نجفی، مولانا محمد حسین اکبر، مولانا صفدر عباس طاہری، مولانا سید خادم حسین، مولانا حافظ تصدق حسین، مولانا منظور حسین عابدی، مولانا سید حسن علی نقوی، مولانا سید اصغر علی شاہ، مولانا سید نیاز حسین نقوی، مولانا سید فیاض حسین نقوی، آقائے علی قمی قونصلر ایرانی جمہوری ایران، سید جعفر حسین آنریزی منیجر جامعہ امامیہ، جعفر علی ایڈیٹر ندائے شیعہ، خواجہ علی محمد، احمد حسن خان آئی ایس او کے اراکین اور دیگر سینکڑوں افراد نے مشایعت جنازہ کی اور رات سوا گیارہ بجے علامہ مرحوم کی میت اساتذہ و طلبۂ جامعہ امامیہ کی معیت میں دریاخان روانہ کی۔
مدفن
ترمیم5 دسمبر 1990 کو دریاخان میں علامہ مرحوم کا جنازہ جاڑا ہاوس میں علامہ غلام حسن نجفی نے پڑھائی اور علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی، مولانا محمد ہاشم جاڑوی، مولانا ضمیر باقر نجفی، جناب غضنفر علی کہاوڑ، مولانا محمد افضل رکنوی، مولانا غضنفر ثقلین، ذاکر سید صابر حسین بہل، مولانا ملازم حسین کوٹلہ جام، مولانا سید فیروز حسین شاہ ٹانک، مولانا سید امداد حسین شیرازی ملتان، مولانا ناصر حسین حاجی مورا، ذاکر مداح شاہ، ذاکر گلزار حسین شاہ ذاکر و خطیب اہلبیت اہلبیت وجاہت علی عمرانی کے علاوہ علاقہ بھر کی مذہبی، سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ علامہ مرحوم کو بوقت عصر مسجد امامیہ ڈیرہ روڈ دریاخان ضلع بھکر کے قریب سپرد خاک کیا گیا۔[11] [3] التماس فاتحہ
آپ کی اولاد
ترمیماللہ تعالی نے آپ کو دو فرزند عطا فرمائے بڑے کا نام محمد باقر اور چھوٹے کا نام محسن تھا، یہ دونوں اب دنیا میں نہیں ہیں، محمد باقر جاڑا مرحوم کے پانچ بیٹے ہیں جن میں سے علامہ مرحوم کی علمی دستار کے وارث مولانا نسیم عباس جاڑا ہیں[11] جو تقریباً 10 سال حوزہ علمیہ قم المقدسہ میں تحصیل علوم آل محمدؑ کرتے رہے ہیں۔
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت ٹ ث مشاہیر میانوالی و بھکر ص44
- ↑ لمعۃ الانوار فی عقائد الابرار ص41
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر ڑ ز ژ س ش ص جعفریہ جنتری 1997 مکتبہ انوار النجف دریاخان
- ^ ا ب پ ت ٹ ث تذکرہ علما امامیہ پاکستان ص85
- ↑ لمعۃ الانوار فی عقائد الابرار ص42
- ^ ا ب پ ت ٹ ث مشاہیر میانوالی و بھکر ص45
- ↑ تذکرہ علما امامیہ پاسکتان ص85
- ↑ لمعۃ الانوار فی عقائد الابرار ص 422
- ^ ا ب پ ت ٹ ث تذکرہ علما امامیہ پاکستان ص86
- ^ ا ب پ تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف ج1 ص4 اشاعت 2004
- ^ ا ب پ مشاہیر میانوالی و بھکر ص46